طالبان سے مذاکرات اور ’’کدو‘‘ دانشور

ٹرین میں ایک آدمی اور ایک بچہ ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، آدمی بچے سے بولا، کچھ بات کریں ٹائم پاس ہوجائے گا۔
بچہ: کس موضوع پر؟
آدمی: کراچی کے حالات پر بات کرلیتے ہیں۔
بچہ: ٹھیک ہے مگر پہلے ایک سوال کا جواب دو۔
آدمی: ہاں، ہاں ضرور پوچھو۔
بچہ: کدو کا بیج سب جگہ ایک ہی جیسا ہوتا ہے، پھر کدو کا رنگ پاکستان میں ہرا، بنگلہ دیش میں پیلا اور بھارت میں سرخ کیوں ہوتا ہے؟
آدمی چکراکر بولا مجھے نہیں پتا۔
بچہ: پتا تمہیں کدو کا بھی نہیں ہے اور بات کراچی کے حالات کی کرتے ہو۔

جی ہاں! آج کل ایسے لوگ تھوک کے حساب سے دستیاب ہیں، جنہیں واقعتا پتا کدو کا بھی نہیں ہوتا لیکن باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں۔ اس پر تماشا یہ کہ انہیں اپنے دانشور ہونے کا بھی دعویٰ ہے۔ اگر آپ کو میری بات کا یقین نہیں آرہا تو رات 8 سے 11بجے کے دوران ٹی وی چینلوں پر چلنے والے ٹاک شوز دیکھ لیں، اپنی اپنی دکان سجائے بیٹھے کدو دانشوروں کی باتوں پر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ نہ ہوئے تو ایک چائے آپ کے نام ہوئی۔ پہلے دور میں جس شخص کو دانشور بننے کا شوق چراتا وہ چہرے پر کرختگی اور آنکھوں پر موٹے شیشوں والا عینک چڑھالیتا، چند من من وزنی الفاظ یاد کرنے کے بعد اس کی خوب بھرم بازی ہوجاتی۔ آج کل کدو دانشور بننے کے لیے سر پر استرا پھرواکر خوب تیل ملنا پڑتا ہے تاکہ ٹنڈ دور سے لشکارے مارے، گلے میں لمبی ٹائی بھی لٹکانا ہوتی ہے، اس سے آدمی ذرا ’’مہذب‘‘ لگتا ہے اور منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی بولنا تو دانشوری کی شرطِ اوّل ہے۔

بات مذاق کی نہیں ہے، معاملہ بہت سنجیدہ ہے، روزانہ لاکھوں لوگ ٹی وی ٹاک شوز دیکھتے ہیں، وہ ان پروگراموں میں آنے والے ’’ماہرین‘‘ کی آراء سے متاثر ہوکر اپنی رائے بناتے ہیں۔ اگر یہ ماہرین کدو دانشوروں جیسے ہوں تو آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ان سے متاثر ہونے والوں کی ذہنی گمراہی کیا رنگ دکھائے گی۔ آپ ٹی وی ٹاک شوز کو معمولی بات سمجھتے ہیں؟ میرے بھائی! ان ہی پروگراموں نے لال مسجد پر بمباری کرائی تھی۔ سوات میں آپریشن ان ہی لوگوں نے کرایا۔ لڑکی کو کوڑے مارنے کی جھوٹی ویڈیو کو باربار زیربحث لاکر عوام کو گمراہ اور آپریشن کے لیے راستہ ہموار کیا گیا۔

ٹی وی چینلوں پر تین طرح کے دانشور آتے ہیں۔ ایک وہ جو مسائل کو ان کی بنیادوں سے سمجھتے ہیں۔ جنہیں زمینی حقائق کا ادراک ہے، جو قابل عمل حل بھی بتاتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں بیشتر مذہبی رجحان رکھنے والے ہوتے ہیں۔ یہ کسی کی خوشی یا ناراضی کی پروا کیے بغیر دو اور دو چار کی طرح ٹھوس بات کرتے ہیں۔ چونکہ، چنانچہ اور اگرچہ، مگرچہ کا سہارا لے کر اپنی باتوں کو الجھاتے نہیں ہیں۔ ان لوگوں کو پروگراموں میں کم کم ہی مدعو کیا جاتا ہے۔ اگر کبھی بلایا جاتا ہے تو وہ صرف ’’بیلنس‘‘ رکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ ٹی وی پر آنے والے ’’دانشوروں‘‘ کی دوسری قسم ان لوگوں پر مشتمل ہے جو واقعتا معاملات کو سمجھتے ہیں مگر ان لوگوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان کی ڈوریاں کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہیں، ان کی زبان اور طوائف کے بدن میں کوئی فرق نہیں، جتنا پیسا پھینکیں گے یہ لوگ اتنا تمادشا دکھائیں گے۔ زیادہ تر اینکر حضرات اس صف میں شامل ہیں۔ ٹی وی دیکھنے والے لوگ سب سے زیادہ ان کی باتوں سے متاثر ہوتے ہیں اس لیے آج کل سب سے زیادہ سرمایہ کاری اینکروں پر ہورہی ہے۔ دانشوروں کی تیسری قسم وہ ہے جنہیں پتا کدو کا بھی نہیں ہوتا مگرباتوں سے زمین وآسمان کو ملا رہے ہوتے ہیں۔ ’’اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی‘‘ غالباً شاعر نے یہ مصرع ایسے ہی لوگوں کی باتیں سن کر کہا ہوگا۔

پرویزمشرف نے اپنی عالمی ساکھ بہتر بنانے اور ڈالر سمیٹنے کے لیے پاکستان کو جس امریکی جنگ میں جھونکا، قوم اس سے ہر حال میں چھٹکارا چاہتی ہے۔ امریکی جنگ نے ملک وقوم کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ بے شمار جانی ومالی نقصان کے ساتھ ساتھ ملکی سرحدیں بھی بے معنی ہوکر رہ گئیں۔ امریکا اور اس کے حواری جب اور جہاں چاہیں سرحدوں کو روند ڈالتے ہیں۔ یہ صورت حال قوم کے لیے ناقابل برداشت ہوچکی ہے، قوم کے حلق میں یہ انڈیلنے کی کوشش کی گئی کہ یہ جنگ پاکستان کی جنگ ہے لیکن غیور اور باشعور قوم نے اس امریکی شربت کو قے کے ذریعے باہر نکال پھینکا۔ قوم کا کوئی فرد جو عقل رکھتا ہو، اس جنگ کو اپنی جنگ نہیں سمجھتا۔ یہی وجہ ہے کہ شروع دن سے یہ مطالبہ کیا جارہا تھا کہ پاکستان کم ازکم اپنی سرحدوں کے اندر اس جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کو مذاکرات کے ذریعے معمول پر لانے کی کوشش کرے۔ قبائلی علاقوں میں جن لوگوں نے ہتھیار اٹھا رکھے ہیں، وہ کوئی غیر نہیں ہیں، اسی سرزمین کے غیرت مند فرزند ہیں، وہ ’’وطن عزیز‘‘ کے الفاظ سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے طریقۂ کار پر سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں لیکن اس پس منظر کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے، جس نے انہیں ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا۔ مذاکرات کی حمایت کرنے والوں کو سو فیصد یقین ہے کہ اگر طالبان سے اخلاص کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ آگے بڑھایا جائے تو مسئلے کا حل ضرور نکل آئے گا۔ مذہبی لوگوں کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے آج پورا ملک طالبان سے مذاکرات پر یک سو نظر آرہا ہے مگر بعض لوگوں کو قوم کا یہ اتفاق رائے بری طرح کھٹک رہا ہے، سوات کی طرح ایک بار پھر میڈیا میں خفیہ ہاتھ سرگرم ہوگیا ہے۔

چند روز قبل ایک کدو دانشور فرما رہے تھے ’’طالبان سے مذاکرات اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ حل نہیں ہوجاتا۔ ڈیورنڈ لائن؟ ارے بھائی! یہ بیچ میں کہاں سے آگئی؟ اس بے چارے ’’دانشور‘‘ میاں نے کہیں سے ڈیورنڈلائن کا لفظ سن لیا ہوگا اور ٹی وی پر آکر اپنی علمیت جھاڑدی۔ ڈیورنڈ لائن پاک افغان سرحدی نشان کا نام ہے۔ اس کا فاٹا میں سرگرم طالبان سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ صرف پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان کا معاملہ ہے۔ کدو صاحب کی بات کو آپ دانشورانہ سادگی کا نام دے سکتے ہیں مگر کچھ اور اینکروں نے بھی اپنا کام دکھانا شروع کردیا ہے، وہ سادہ نہیں بڑے چالاک ہیں۔ یہ اینکر عالمی ایجنڈے کے تحت طالبان سے مذاکرات کے معاملے پر قوم کو تقسیم کرنے کی سازش کررہے ہیں۔ کوئی اپنے پروگراموں میں حکومت اور طالبان کے درمیان پرانے معاہدوں کو ہی لے کر بیٹھا رہتا ہے۔ کوئی یہ بھاشن دے رہا ہوتا ہے کہ فوج طالبان سے مذاکرات نہیں چاہتی۔ کوئی اینکر ڈھونڈڈھونڈکر ایسے پاک افغان امور کے ’’ماہرین‘‘ کو اپنے پروگراموں میں بلاتا ہے جنہیں گلی کا کتا تک نہیں جانتا۔ یہ ماہرین آگ لگانے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں۔

قوم ہوشیار ہوجائے! جو لوگ پاکستان میں امن نہیں دیکھنا چاہتے انہوں نے اپنے مہروں کو حرکت دینا شروع کردی ہے۔ کل کلاں کوڑے مارنے جیسی ویڈیو جیسا کوئی معاملہ سامنے لایا جاسکتا ہے۔ یہ قوم کا امتحان ہے، اگر اس بار بھی مداری مذاکرات کی بجائے بم برسوانے میں کامیاب ہوگئے تو شاید امن کا خواب برسوں تعبیر نہ پاسکے۔
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 102546 views i am a working journalist ,.. View More