کابینہ میں وزرا سوچ سمجھ کر منتخب کریں

نئی بننے والی حکومت سے حلیف ہے کہ حریف ہر شہری نے مزدور و کسان سے لیکر صنعت کار تک اچھائی اور بہتری کی امید لگائی ہوئی ہے ۔یہ امیداور توقعات وابستہ کرنے کی وجوہات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہیں کیونکہ سابقہ حکومت کی ناقص اور عوام کش پالیسیوں کی وجہ سے عوام نے انہیں بری طرح مسترد کردیا ہے اور اب شاید ہی پیپلزپارٹی دوبارہ سے اپنے قدموں پر کھڑی ہوسکے۔ اسی تناظر میں پاکستان مسلم لیگ ن کو بھی یہ باور کرادیا گیا کہ اب پاکستان میں حکومت کرنے والوں کو عوامی امنگوں اور خواہشات کو ملحوظ خاطر رکھ کر فیصلے کرنے ہونگے ۔ملکی مفاد کو اولین ترجیح دینا ہوگی اور وطن عزیز اور اس کی محروم عوام کی محرومیوں کا ازالہ کرنا ہوگا بالخصوص نواز شریف گورنمنٹ کو تو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا کہ اس دور میں پاورفل investigative میڈیا،باشعور عوام اور مستحکم پاکستان کے حامی لوگ بھی موجود ہیں ۔ عقابی نگاہیں اندر تک سے حالات معلوم کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں اور واقعات و بیانات کو سٹورکرنے کیلئے طاقتورکمپیوٹر کی صورت میں دماغ موجود ہیں جو کہ گزرے تمام حالات واقعات و بیانات کو سیکنڈز میں ریوائنڈ کرکے ماضی کو سامنے لے آتے ہیں اس لئے ہر بات سوچ کر اور ہرقدم پھونک کر اٹھانے کی ضرورت ہے

پہلا قدم ہی اگر درست اور صحیح سمت اٹھ جائے تو پھر منزل کی قربت اور پہنچ آسان ہوجاتی ہے حلف اٹھانے کے بعد سب سے پہلا اقدام کابینہ کی تشکیل و تکمیل ہے۔ یہاںپر اگر میاں برادران تمام تعلقات کو بالائے طاق رکھ کر کابینہ میں قابل اور متعلقہ وزرا فٹ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ان کی حکومت کو ریلیف دینے میں نہ صرف کامیاب ہوگی بلکہ ترقی و خوشحالی وطن عزیز اور عوام کا مقدر بنے گی اور مسلم لیگ ن اپنی کامیابیوں کے عروج کی مزید منازل طے کریگی۔ لیکن اگر وزارتیںصرف ایم این ایز اور ایم پی ایز کو خوش کرنے کیلئے بانٹیں گئیں تو پھر سب کیلئے مشکلات کھڑی ہوجائیں گیں۔مثلا کو ئی ایک وزارت کسی ایسے پسندیدہ شخص کو دے دی جائے کہ جسکی ابجد تک سے وہ واقفیت نہ رکھتا ہو تو پھر ایسا ہی ہوگا جیسا کہ گذشتہ دور حکومت میں ہوا۔ تعلیم کا وزیرایک میٹرک فیل کو صرف اس لئے بنادیا جائے کہ وہ کٹر مسلم لیگی ہے اور ہمیشہ جیتا ہے تو آئندہ ایسا نہ ہوسکے گا اب تعلیم کیلئے کم ازکم ماسٹر ڈگری ہولڈر یا اس شعبے کی سوجھ بوجھ رکھنے والا ہی چلے گا۔ لہذا وزیر صحت اسے یہ بنایا جائے جو کم ازکم ڈاکٹر ہو اور صحت کے معاملات اور ان سے متعلق ضروریات بارے آگاہی رکھتا ہو یعنی کے اصلی کا ایم بی بی ایس نہ کہ رحمان ملک کی طرح کا ڈاکٹر۔ وزیر پانی و بجلی ہو کہ وزیر مالیات ۔انتظامی امور سے متعلق ہو کہ مقننہ سے تعلیم ہو کہ صحت ذاتی مفادات و ترجیحات سے بالا تر ہوکر فیصلے کرنا ہونگے۔

اگر بادشاہ کے وزیر سیانے نمانے اور سمجھ دار ہونگے تو بادشاہ کی بھی واہ واہ ہوگی اور وزیروں مشیروں کی بھی طوطی بولی گی لیکن اگر مالشئے پالشئے اور خوشامدی وزیر وں کا ٹولہ بنالیاگیا جو سب اوکے آل از اوکے کی رپورٹ کرتے رہے تو پھر معاملات بجائے سدھرنے کے بگڑ جائیں گے اور اس قسم کے وزرا یقینا مسلم لیگ ن اور عوام پاکستان کیلئے آستین کے سانپ سے کم نہ ہونگے اور پھر بادشاہ اپنی خفت اور کم عقلی چھپانے کیلئے ان کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہوگااور درج ذیل واقعہ ان کی صحت پر پورا اترے گا-

ایک ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا اور اپنی موٹی عقل کے حوالے سے بہت مشہور تھا اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمسایہ ملک کے دو نوسر بازاور عیار شخص درزیوں کے روپ میں دربار میں حاضر ہوئے اور بادشاہ کی خوشامد کرنے کے بعد بادشاہ کو بتایا کہ ایسا لباس تیار کرنے پر قدرت رکھتے ہیں جو کہ صرف عقلمندوں کو دکھائی دے گا جبکہ بےوقوف اس کو نہ دیکھ سکیں گے اس نئے آئیڈے پر بادشاہ نے انہیں وہ لباس تیار کرنے کا حکم دے دیا ان کے لئے ایک کمرہ مختص کردیا گیا اور درباریوں کو حکم دیا گیا کہ انکی ہر ضرورت کو پورا کیا جائے۔اب درزیوں سے سب سے پہلے سونے کی تاروں سے بنے گولے منگوائے تاکہ لباس کی تیاری شروع کی جاسکے۔ انہیں گولے پیش کردیئے گئے۔ جو کہ انہوں نے قریب کے جنگل میں جاکر چھپادیئے۔اور پھر اپنے کمرے میں بیٹھ کر خالی مشین چلانا شروع کردی۔ ہر گزرنے والہ یہ محسوس کرتا کہ لباس کی سلائی کا کام جاری و ساری ہے۔یہی پریکٹس جاری رہی۔کچھ عرصہ بعد بادشاہ نے ایک وزیر کو بھیجا کہ دیکھ کر آﺅ کہ کتنا کام ہوا اور کام ہوبھی رہا ہے کہ نہیں وزیر درزیوں کے کمرے میں داخل ہوا تو اس نے دونوں کو مشین چلاتے دیکھا لیکن لباس نظر نہ آیا وہ پوچھنا ہی چاہتاتھا کہ اسے فورا وہ بات یاد آئی کہ لباس تو صرف عقل مندوں کو دکھائی دیتا ہے اگر میں کہوں گا کہ لباس کہاں ہے تو مجھے بیوقوف سمجھا جائے گاپس اس نے دونوں کے کام کی تعریف کی اورضرورت دریافت کی انہوں نے پھر سونے کے تاروں والے گولے مانگ لئے جو کہ انہیں دے دیئے گئے اور بادشاہ کو بھی بتایا گیا کہ لباس بڑا عمدہ تیار ہورہا ہے ۔ کچھ دنوں کے بعد ایک دوسرے وزیرکو بھیجا گیا اور اس نے بھی بیوقوفی کے لیبل سے بچنے کیلئے وہی بات دہرائی جو کہ اس سے پہلے جانے والے وزیرنے دہرائی تھی۔ بہرحال وہ دن بھی آن پہنچا جس دن لباس تیار ہونا تھا دربار لگ گیابادشاہ سلامت نشست خاص پر جلوہ افروز ہوئے درزیوں کو بلایاگیا وہ ایک تھیلا ہاتھ میں اٹھائے ہوئے آئے اور اس طر ح پوز کیا جیسے کہ تھیلے سے لباس نکال رہے ہیں اور پھر اسی انداز میں بادشاہ کو پہنادیا گیا۔ اور پھربادشاہ نے سارا شہر کا دورہ کیا اور خوب داد حاصل کی ۔کیونکہ وہاں پر سب عقلمند تھے اور کوئی بیوقوف بننے پر تیار نہ تھا-

لہذا نواز شریف ایسے وزرا منتخب کریں جو کہ صحیح کو صحیح اور درست کو درست سمجھیں اور بتائیں تاکہ نقصان سے بچا جاسکے-
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 194830 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More