بستر اگر کشمیر میں ہوتا تو

چھتیس گڑھ کے ضلع بستر میں گزشتہ اتوار کانگریس کے ایک قافلے پر نکسلی حملہ یقینا ایک سنگین واقعہ ہے۔ نکسلیوں نے پہلے ایک زبردست مائن بلاسٹ کیا جس میں ایک ایس یو وی کے پرخچے اڑ گئے اور اچھل کر تقریباً 15 میٹر دور کھائی میں جا گری۔ سڑک پر ایک اتنا گہرا گڈھا ہوگیا جو اگرزمین کھودنے کی بڑی مشین سے بھی بنایا جاتا تو پورا دن لگ جاتا۔ اس گاڑی کے پیچھے آنے والی گاڑیاں قدرتی طور سے رک گئیں، سیکیورٹی عملہ نے پوزیشن سنبھا ل لی۔ لوگ ادھر ادھر بھاگے مگر نکسلی اس سارے بندوبست پر بھاری پڑگئے ۔ کانگریس لیڈروں کو گھیر لیا اور ایک کو چن چن کر نہایت بے رحمی کے ساتھ گولیاں مار کر ہلاک کردیا ۔اور پھر ان کی لاشوں پر جشن منایا۔

اس حملے میں مرنے والوں کی تعداد 24 ہوگئی ہے جن میں کانگریس کی ریاستی قیادت پوری کی پوری شامل ہے۔ ابھی کئی زخمی زیر علاج ہیں۔ یہ واقعہ جس ریاست میں پیش آیا اس پر ۹ سال سے بی جے پی کا راج ہے جو سوشاسن(چست درست حکمرانی) کا دعوا کرتی ہے۔ ریاست کے وزیر اعلا ڈاکٹر رمن سنگھ اپنا دوسرا دور پورا کررہے ہیں اور ٹی وی پر ان کی کامیابیوں کا اشتہار مسلسل آرہا ہے۔لیکن اس ۹ سالہ دور حکومت میں نکسلی مسئلہ اپنی جگہ بدستور موجود ہے بلکہ اگر کہا جائے کہ ان کی چھتر چھایا میں نکسلیوں کے حوصلے اور بڑھے ہیں تو بیجا نہیں ہوگا۔ظاہر ہے یہ حملہ کانگریس کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے کہ اس کی پوری ریاستی قیادت ختم ہوگئی اور اس کا سیاسی فائدہ بھاجپا کو ہی پہنچے گا۔
کانگریس کی طرف سے اس حملے کے بعد پہلا رد عمل سونیا گاندھی کا آیا۔ان کے چہرے بشرے اور لباس سے صاف جھلک رہا تھا کہ وہ کس قدر صدمے میں ہیں مگر ان کا روائتی وقار اور تدبر اپنی جگہ برقرار رہا۔ اپنے مختصر بیان میں انہوں اس حملے کو حددرجہ بدبحتانہ قراردیا اور اس کو کانگریس پر نہیں بلکہ ہندستان کی جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی مذمت صرف سیاسی پارٹیوں کو ہی نہیں بلکہ پوری سول سوسائٹی کو کرنی چاہئے۔

وزیراعظم نے بھی حملہ پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا اوران کے دفتر نے فوراوزیراعلا رمن سنگھ سے معلوم کیا کہ کیا ان کو مرکز سے کوئی مدد یا سیکیورٹی فورس درکار ہے ۔ اس کے بعد وزیراعظم، یو پی اے چیر پرسن سونیا گاندھی اور کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے چھتیس گڑھ کا دورہ کیا، مرنے والوں کو شردھانجلی دی، ان کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کیا اور غم میں ڈوبی ہوئی ایک گہری خاموشی کے ساتھ واپس آگئے۔ چاہتے تو اس موقع پر بھاجپا کو اسی طرح گھیرسکتے تھے جس طرح بھاجپا بات بے بات کے ان کو گھیرتی رہتی اور ہردم استعفے کا مطالبہ کرتی رہتی ہے۔ کانگریس کی اعلا قیادت کی طرف سے نہ تو وزیر اعلا سے اس سنگین سانحہ پر استعفا کا مطالبہ کیا گیا نہ بی جے پی سرکار کی ناکامی پر لعنت ملامت کی گئی۔ بی جے پی نے بھی اس واردات کی سنگینی کو محسوس کیا اوراپنا ملک گیر جیل بھرو آندولن ملتوی کردیا۔ بستر شہر میں مقامی بھاجپا لیڈروں نے ایک تعزتی جلسہ بھی کیا اور ایسا محسوس ہوا کہ واقعی اس قومی سانحہ پر پورا ملک نکسلیوں کی مذمت پر آمادہ ہے مگر زیادہ دیر نہیں ہوئی کہ بلی تھیلی سے باہر آگئی۔

ایسی سنگین واردات یونہی نہیں ہوگی، کوئی نہ کوئی کوتاہی ہوئی ہے۔ میڈیا میں بہت سی باتیں آرہی ہیں، لیکن گھوم پھر کر سب کی تان اسی نکتہ پر ٹوٹ رہی ہے کہ ایسے قافلے کے لئے جس میں کانگریس کی پوری ریاستی قیادت شامل تھی، ریاستی سرکار نے مناسب حفاظتی بندوبست نہیں کئے تھے۔ اس کی پاداش میں ریاستی حکومت نے ایک پولیس افسر کو بھی معطل کردیا۔ دوسرا اہم سوال یہ بھی کیا جارہا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کواس واردات کو انجام دینے کے لئے نکسلیوں کی تیاری اور بڑی تعداد میں ان کے جماوڑے کی اطلاع کیوں نہیں ملی؟ حالانکہ دوسرے معاملوں وہ ’خفیہ ذرایع‘ سے وہ یہ بھی پتہ لگا لینے کا دعوا کرتے ہیں کہ کوئی شخص ملک میں کس برے ارادے سے داخل ہوا۔ ان کے دعوے کا عالم کچھ اس پاکھنڈی جیسا ہے جو ہوا میں اڑتے ہوئے پرندے کو دیکھ کر یہ دعوا کرتا ہے کہ جس انڈے سے یہ بچہ نکلا تھا وہ انڈا دیتے ہوئے اس کی ماں کا رخ کس سمت میں تھا؟

ابھی حال ہی میں کرناٹک میںانتخابی شکست اور اب یہ سنگین حملہ یقینا بھاجپا کے لئے ایک شدید جھٹکا ہےں۔ چنانچہ جب کانگریس کے کچھ مقامی لیڈروں نے اس پر حملہ پر کچھ سوال اٹھائے جو قطعی فطری ہیں تو بھاجپا کو آدرش واد یاد آنے لگا۔ پارٹی کے قومی ترجمان پرکاش جاوڈیکر نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ اس حملہ میں ریاستی حکومت سے چوک ہوئی اور الٹا کانگریس پر ہی نکتہ چینی شروع کردی ۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا بھاجپا نے تو اس حملے پر تحمل سے کام لیا مگر کانگریس لیڈر ریاستی سرکار کی کوتاہی بتاکر کھٹیا سیاست کررہی ہے۔ اب جاوڈیکر کو کوئی یہ بتائے کہ جس کو آپ تحمل قراردے رہے ہیں وہ اپنی ناکامی اور شدید نا اہلی پر ڈھیٹ پن ہے۔

پارٹی کے جنرل سیکریٹری راجیو پرتاپ روڈی نے بھی کانگریس کو نصیحت کی ہے اس کے لیڈروں کو کوئی بیان نہیں دینا چاہئے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ موقع نہیں کہ کسی کی کوتاہی پر انگشت نمائی کی جائے۔ اس وقت ضرورت ہے کے سب اکٹھا ہوکر نکسلی وبا کا مقابلہ کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم کانگریس لیڈروں کے غم اور غصہ کو سمجھ سکتے ہیں، مگر یہ وقت اس سانحہ پر صدمہ کا ہے سیاست کا نہیں۔“

بظاہر مسٹر جاوڈیکر اور روڈی کے بیانات میں بڑا آدرش واد موجود ہے، ایسا لگتا ہے ان کی روحوں میں سادھودواد حلول کرگیا ہے اور سیاست داں سے ایک دم مقدس ہستی بن گئے ہیں، لیکن سوال یہ ہے اگر بستر کشمیر میں ہوتا ، ایسا واقعہ کسی غیر بھاجپا ریاست میں پیش آگیا ہوتا تو کیا اس وقت بھی ان کا لب و لہجہ اور آدرش یہی ہوتا؟ آخر کیا نکسلی کچھ کم آتنگ وادی ہے ہیں اس خطے میں نہ ان کو قانونی طور سے دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے ،نہ وہاں فوج لگائی سکتی ہے اور AFSPA کا تو کوئی نام بھی نہیں لیتا۔ اگر اس طرح کی تحریک کشمیر یا پنجاب میں یا منی پور اور ناگالینڈ میں ہوتی جہاں کی اکثریت غیر ہندو ہے تو کیا اس وقت بھی حکومت کا انداز یہی ہوتا؟

ایمانداری کا تقاضا تو یہ تھا کہ اگر بھاجپا قیادت میںزرا بھی غیرت مندی ہوتی تو رمن سنگھ کو خود اس سانحہ کی ذمہ داری قبول کرکے مستعفی ہوجانا چاہئے تھا۔آخر اس پارٹی کے لیڈر ہی تو ہیں جو بھانجے کے پکڑے جانے پر ماموں کو اخلاقی بنیاد پر اخلاقی بنیاد پر استعفا دینے کی تلقین کرتے ہیں ۔ اگر ان کی تلقین کو قبول نہیں کیا گیا تو پورسرکار کے خلاف ہی مورچہ کھول دیا اور ایوان کو بھی نہیں چلنے دیا گیا۔ اب جاوڈیکر اور روڈی کس منہ سے کہہ رہے ہیں کہ ایسی شدید ناکامی پر کوئی ان کے لائق وزیراعلا کی ناکامی کی نشاندہی بھی نہ کرے؟

سیاست کا یہ دوہرا معیار اس پارٹی کی شناخت بن گیا ہے۔ ایک طرف وہ مرکزی سرکار کرپشن کے الزامات کے تحت ملک بھر میں مہم چلاتی ہے تو دوسری طرف کرپشن الزامات سے کھرے کرناٹک کے باغی لیڈر یدورپا کو پارٹی واپس لانے کی دوڑ بھی چل رہی ہے۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164187 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.