.سوچنا پڑتا ہے

سانحہ گجرات میں16معصوم بچوں کی جلی ہوئی لاشوں پر روتی کرلاتی، بے ہوش ہوتی اور بین کرتی ماﺅں کو دیکھ کر مرحوم خالد احمد کا یہ شعر مجھے یاد آگیا اور میں سوچنے لگامعاشرہ تو بے حس ہے قدرت کو کیا ہوگیا ہے؟ احسان دانش کا ایک شعر ہے
کچھ ایسے مناظر بھی گزرتے ہیں نظر سے
جب سوچنا پڑتا ہے خدا ہے کہ نہیں ہے

اِس سانحے کا ذمہ دارفقط اِک ڈرائیور نہیں پورا معاشرہ ہے۔ ہمارے ایک قلم کا رنے لکھا ”ملزم عدالت میں ثابت کر دے گا کہ اُسے کسی بھی بچے نے جلنے کی بو سے خبردار نہیں کیا تھا اور کوئی اُس سے یہ نہیں پوچھے گا کیوں میاں کیا تم بچوں کی ناک سے سونگھتے ہو؟ تمہاری اپنی سونگھنے کی حس طویل رخصت پر گئی ہوئی؟“ فقط اِک ڈرائیور کیا یہاں تو پورے کے پورے سسٹم پورے معاشرے کے سونگھنے کی حس طویل رخصت پر چلی گئی ہے۔ اِک ڈرائیور نہیں پورا معاشرہ، پورا سسٹم اِس کا ذمہ دار ہے۔ ذمہ داروں کا تعین مگر کرے گا کون؟ کوئی افسر؟ ہر گز نہیں کہ اِن کا کام تو فقط اچھی پوسٹنگوں کی تلاش میں لگے رہنا ہے اور اچھی پوسٹنگ مل جائے تو اُسے بچانے میں لگے رہنا ہے۔ اور ”اچھی پوسٹنگ“ سے مراد یہ نہیں کہ ضروری سہولیات اور مراعات وغیرہ میسر ہوں۔ اچھی پوسٹنگ سے مراد یہ ہے ناجائز کمائی کے اتنے زیادہ مواقع میسر ہوں کہ روٹی کی جگہ بھی کھانے کو نوٹ ہی ملیں!

سڑکوں پر چلتی دوڑتی اور ریس لگاتی بسوں ویگنوں اور دیگر ٹرانسپورٹ کی فٹنس چیک کرنا محکمہ ٹرانسپورٹ کے ”موٹر وہیکل ایگزامینرز“ کا کام ہوتا ہے اور اِن کی حیثیت محکمہ مال کے تحصیل داروں یا پولیس کے ایس ایچ اوز سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہوتی۔ میں ”فرائض“ کے حوالے سے نہیں مال بنانے کے حوالے سے بات کر رہا ہوں۔ پٹواری، تھانیدار اور تحصیل دار بے چارے تو ایسے ہی بدنام ہیں۔ مال بنانے کے جو مواقع اِن موٹر وہیکل ایگزامینرز“ کو میسر آتے ہیں کسی اور محکمے میں اِس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سیکرٹری ٹرانسپورٹ اِن کا ”گرو“ ہوتا ہے۔ اور کوئی سیکرٹری ٹرانسپورٹ لگ جائے اور اُس کا ”پُھدو“ نہ لگ جائے….ہو ہی نہیں سکتا۔ پنجاب میں شاید ہی کوئی ایک آدھا ”موٹر وہیکل ایگزامینر“ایسا ہو جو اپنے فرائض دیانتداری سے ادا کرتا ہوگا۔ ہاں یاد آیا بہت سال قبل سیالکوٹ کا ایک ”موٹر وہیکل ایگزامینر“ تھا جس کے ایک کلرک نے مجھے بتایا ”میرا صاحب اپنے فرائض انتہائی دیانتداری سے ادا کرتا ہے “….”دیانتداری“ کی تفصیل اُس نے یہ بتائی کہ ”شہر سے جو ”منتھلی “ اکٹھی ہوتی ہے اُس کا ”ٹھیک پچاس فیصد حصہ “وہ انتہائی دیانتداری سے ”اُوپر“ پہنچا دیتا ہے۔ یہ کام چونکہ میرے ذریعے ہوتا ہے تو میں جانتا ہوں منتھلی اُوپر پہنچانے میں ایک پیسے کی ہیرا پھیری کبھی صاحب نے نہیں کی “!

اب ہوگا یہ کہ سانحہ گجرات کا ذمہ دار زیادہ سے زیادہ ڈرائیور یا ویگن کے مالک کو ٹھہرا دیا جائے گا اور کچھ عرصے بعد وہ بھی بچ نکلیں گے کیونکہ رشوت دینے والوں کے ہاتھ ہمارے ہاں رشوت لینے والوں سے زیادہ لمبے ہوتے ہیں۔ حیرانی مجھے اِس بات پر ہے کسی عدالت نے اتنے بڑے سانحے کا کوئی ازخود نوٹس ابھی تک کیوں نہیں لیا؟ہونا ہوانا تو خیر اِس سے بھی کچھ نہیں پر عدلیہ کا بھرم ضرور رہ جائے گا کہ عتیقہ اوڈھو کی شراب نوشی کا نوٹس وہ لے سکتی ہے تو 16معصوم بچوں کی ہلاکتوں کا بھی لے سکتی ہے۔ اپنے ہونے کا کچھ نہ کچھ احساس تو عدلیہ کو دِلاتے رہنا چاہئے۔ ”الیکشن“ میں نہ سہی16معصوم بچوں کی ہلاکتوں کے معاملے میں ہی سہی…. اِس سانحے کا ذمہ دار سسٹم ہے تو ”عدالتی افسران“ اِس سسٹم کا باقاعدہ حصہ ہیں۔ پنجاب کا موجودہ سیکرٹری ٹرانسپورٹ کسی جج کی سفارش پر نہیں لگا تو اِس کا مطلب یہ نہیں کوئی سیکرٹری کسی جج کی سفارش پر نہیں لگتا۔ کچھ سیکرٹریوں کی سفارش پر کچھ جج لگ سکتے ہیں تو کچھ ججوں کی سفارش پر کچھ سیکرٹری کیوں نہیں لگ سکتے؟ یہ سسٹم سب کو سوٹ کرتا ہے تو اِ سے تبدیل کون کرے گا؟ سو سب سے آسان کام یہ ہے مرنے والوں کے لواحقین کو پانچ پانچ لاکھ روپے کا ”معاوضہ “ اد اکر دیا جائے۔ اور اگر ہو سکے تو پانچ پانچ لاکھ کا معاضہ اُس ”منتھلی “ سے بھی ادا کر دیا جائے جو اِس کرپٹ اور بدمعاش سسٹم کی اب باقاعدہ شناخت بن چکی ہے۔ ناجائز کمائی کا کچھ جائز استعمال کر لینے میں کوئی حرج بھی نہیں!

جہاں تک اِس سانحے میں ہونے والے جانی نقصان کا تعلق ہے تو بڑی سے بڑی رقم اِس کا ازالہ نہیں کر سکتی۔ مگر اِس کا احساس ”خرید و فروخت کے ماہر حکمرانوں“ کو اِس لئے نہیں ہو سکتا کہ اِن کے سینوں میں دِل نہیں ”رقم“ ہوتی ہے۔ اظہار افسوس کے لئے نگران وزیراعلیٰ اب گجرات جائیں گے۔ اب تک شاید چلے بھی گئے ہوں۔ اللہ جانے کس منہ سے غم زدہ خاندانوں کا سامنا وہ کریں گے؟ نگران وزیراعلیٰ کے پاس سارے اختیارات وزیراعلیٰ والے ہی ہوتے ہیں مگر دو ماہ میں ایک اختیار بھی عوام کے حق میں وہ استعمال نہیں کر سکے۔ وہ صرف الیکشن کروانے آئے تھے تو الیکشن بھی جس طرح کے اُنہوں نے کروائے سب کو معلوم ہے۔ دو ماہ سے تقریباً تمام ادارے لسی پی کر سوئے ہوئے ہیں اور نگران وزیراعلیٰ اللہ جانے کدھر کھوئے ہوئے ہیں؟ یہ کوئی پہلا سانحہ نہیں۔ کئی سانحے پہلے بھی اس طرح کے ہو چکے ہیں۔ ماﺅں کی گودیں پہلی بار نہیں اُجڑیں….باپوں کے بین کوئی پہلی بار سنائی نہیں دیئے۔ ہاں ایک کام پہلی بار ضرور ہوا ہے کہ پولیس نے حادثے کے فوراً بعد ”ملزم “ کو گرفتار کر لیا۔ یہ واحد ”کریڈٹ“ ہے جو نگران وزیراعلیٰ فخر سے لے سکتے ہیں کہ ”اُن کے دور میں ایک ایسا سانحہ بھی ہوا تھا جِس کے ملزم کو پولیس نے فوراً گرفتار کر لیا تھا“۔ یہ الگ بات ہے کہ ملزم بھاگ ہی نہیں سکا تھا!

جس تن لاگے اُس تن جانے ….مگر سانحہ گجرات کا دُکھ ایسا ہے جس کا ”سینک“ ہر گھر میں محسوس کیا گیا ہے۔ میں جب اپنے بچوں کو دیکھتا ہوں تو وہ تمام بچے میری آنکھوں میں آنسو بن کر اُتر آتے ہیں جو سانحہ گجرات کا شکار ہوگئے۔ مجھے آج سے پندرہ سال قبل کا واقعہ یادآجاتا ہے جب میرا ایک کزن حادثے کا شکار ہوا تو اگلے ہی روز ماں بھی صدمے سے اُس کی چل بسی تھی۔ اُس روز خالد احمد کے شعر کو میں نے یوں پڑھا تھا۔
کوئی تو ”مرے“ جوان لاشوں سے لپٹ کر
اِسی لئے تو وہ بچوں کو مائیں دیتا ہے

سانحہ گجرات کا شکار ہونے والے بچوں کی ماﺅں پر کیا بیت رہی ہوگی؟ سوچتا ہوں تو میرا دم گھٹنے لگتا ہے ۔ کیسے کیسے خوبصورت پھول تھے جو بِن کِھلے ہی مر جھا گئے۔ بہار آنے سے پہلے خزاں چلی آئی!
Waqas khalil
About the Author: Waqas khalil Read More Articles by Waqas khalil: 42 Articles with 35269 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.