کیا ہمارا معاشرہ رہنے کے قابل ہے

دکھ اور بے بسی کن کیفیات کا نام ہیں اور اگر ساتھ میں غربت بھی ہو تو اچھے خاصے انسان کو مفلوج کردیتی ہیں ان کیفیات کا اندازہ گذشتہ دنوں ایک ساتھی کیمرہ مین کی طرف سے لائے جانیوالے ویڈیو )فوٹیج(دیکھنے کے بعد ہوا جس میں ایک خاتون اپنی دو بیٹیوں کی عزت اور اپنا شوہر گنوا نے کے بعد رو رہی تھی اوراس کے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں پر مداوا کرنے والا کوئی نہیں تھا -انہی کیفیتیوں سے دوچار وہ خاتون مفلوج ہو چکی تھی اور اس کے بس میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ اس کیساتھ ہونے والا ظلم کے جواب میں وہ کیا کرے -تقریبا دو ہفتے قبل وردی پہننے والے ایک جانور نما انسان نے اپنے رشتہ دار اسی خاتون کے دو معصوم بچیوں کو جن کی عمریں سات اور نو سال کے مابین تھی اور بیمار تھی یہ کہہ کر گھر سے لے گیا کہ اسے ڈاکٹر کے پاس علاج کیلئے لے کر جارہا ہے علاج کے بہانے لے جانیوالے ان بچیوں کو اس منحوس نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور پھر ان دونوں پھول جیسی بچیوں کو ان کے گھر چھوڑ دیا معصوم بچیوں نے اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتی کے بارے میں اپنے والدہ کو بتایا اور اس ظلم کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے پرملزم نے پانچ معصوم بچوں کے والد کو دوسروں کے کھیتوںمیں فا ئرنگ کرکے قتل کردیا وہ مزدور شخص جو پانچ معصوم بچیوں کا والد اوراپنے گھر کا واحد کفیل تھا اور دوسروں کے کھیتوںمیں محنت مزدوری کرکے وقت گزارتا تھا اسے بھی قتل کردیا گیا اپنی عزت کی خاطر قتل ہونے والا یہ شخص چونکہ کمی کمینوں سے تعلق رکھتا تھا اس لئے نو تو اسے شہید بنا کر پیش کیا گیا نہ ہی اسکے معصوم بچیوں کیساتھ ہونیوالی زیادتی پر کسی این جی او نے آواز اٹھائی نہ ہی میڈیا میں کوئی بات آئی کیونکہ ظلم کرنے والا وردی والا ہے ہاں ایک بات کی آسانی ہوگئی کہ وردی والے اب اسی شخص کی بیوہ خاتون کو تھانے لانے لے جاتے ہیں اور انہیں اس خاتون جس کی دو بیٹیاں ظلم کا شکار ہوئی اس کا شوہر اس سے چھین لیا گیا اسے خوار کرنے میں مزید آسانی ہوگئی کمی کمینوں کے ٹیکسوں پر پلنے والے حرام خور وردی والے اس خاندان کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے اس خاندان کو مزید رگیدنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں اس بے کس خاندان پر کیا گزرتی ہیں اور ان کے احساسات کیا ہونگے یہ تو متاثرہ لوگ خاندان ہی بتا سکتی ہیں لیکن اس واقعے نے جہاں ہمارے ارد گرد انسانوں کے روپ میں پلنے والے سوروں اور انہیں سپورٹ کرنے والے گدھ نما انسانوں کی نشاندہی کردی ہے وہیں پر یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ اس معاشرے میں رہنا ایک شریف بے کس اور غریب آدمی کیلئے کتنا مشکل کام ہے-

کون ہے اس پختون معاشرے میں اس ظلم کے بارے میں پوچھنے والا یہاں پر ہر کوئی اپنے آپ کو "بڑا پختون" کہلوانے میں فخر محسوس کرتا ہے ہر کوئی ملا بنا پھرتا ہے اور مذہب کے نام پر دوسروں کو انصاف کی تلقین کرتا ہے تبدیلی کے دعویدار کہاں پر ہیں اسلامی نظام لانے کے دعویدار کہاں غائب ہیں کیا انہیں پشاور کے نواحی علاقے میں ہونیوالا یہ ظلم ہوتا ہوا نظر نہیں آتا -لعنت ہے اس معاشرے پر ان کے نام نہاد ٹھیکیداروں پر جس میں وردی والے دوسرے وردی والے کو سپورٹ کرتے ہیں ان معصوم بچیوں کا جرم کیا ہے غریب خاندان سے تعلق رکھنا ایسا غریب جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہر کوئی اپنے ذہن میں اپنی بچیوں کو رکھے خدانخواستہ اس معاشرے میں اگر کوئی اس طرح ان کیساتھ ہوتا تو پھر ہر کوئی کیا کرتا کیا یہ معصوم غریب بچیاں اس معاشرے کا حصہ نہیں کیا ان کا درد ہمارا درد نہیں ایک ایسے معاشرے میں جہاں پر ہر وقت نئے قوانین بنتے ہوں آئین کی عملداری سمیت ہر ڈرامے میں برابری کا درس دیا جاتا ہو لیکن عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہوتا کیا ایسے لوگ انسان کہلانے کے لائق ہیں جن کا ہوس انہیں اس بات کی ہوش ہی بھلا دے کہ معصوم پھول تو معصوم ہوتے ہیں -ایک ایسا معاشرہ جس میں ہر کسی کو اپنا آپ نظر آتا ہے اپنی عزت نظر آتی ہے اور دوسروں کی عزت سے کھیلنا کھیل بن چکا ہو ایسے معاشرے میں رہنا بھی لعنت ہے- دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران یہ وردی وا لے رکھوالے جو بھی کریں، اس کو نام دیا جاتا ہے، کہ وہ جو بھی کریں ملک کی وسیع تر مفاد کی خاطر کیا جاتاہے، اب معاشرے کے سامنے سب کچھ ہے، لیکن یہ کمینے شائد یہ انسانیت سوز واقعہ بھی ملک کے وسیع تر مفاد کے خاطر نام دیں، تو شائد ان کا گناہ بھی معاف ہو جائے، لیکن اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ، قدرت ان کے ساتھ یہی کرینگے کب یہ معلوم نہیں، لیکن ان کے ضمیر تو اتنے گندے ہوچکے ہیں کہ شائد انہیں اپنی عزت بھی برا نہ لگے۔
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 429599 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More