پاکستان میں امریکی ڈرون پالیسی

امریکی حکومت نے ڈرون حملوں سے متعلق نئی خفیہ پالیسی کی گائیڈ لائنز پردستخط کردیے ہیں جس کے تحت دنیا بھرمیں ڈرون حملوں کا کنٹرول پینٹا گان کے حوالے کردیا جائے گا، تاہم پاکستان میں ڈرون حملوں کا اختیاربدستور سی آئی اے کے پاس رہے گا۔ امریکی صدر اوباما نے واشنگٹن ڈی سی کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں امریکا کی انسداد دہشتگردی کی اہم پالیسی خطاب کے دوران کہا کہ ڈرون حملے 2014ءکے آخر تک جاری رہیں گے، ڈرون حملے دہشت گردوں کونشانہ بنانے کے لیے ہیں، شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے نہیں ہیں۔ صدر اوباما نے کہا کہ میرے اور میری چین آف کمان میں شامل لوگوں کے لیے ڈرون حملوں میں شہریوں کی ہلاکتیں پریشانی کا موجب ہیں۔ اب کسی بھی حملے سے قبل اس بات کویقینی بنانا ہوگا کہ کوئی شہری ہلاک یا زخمی نہ ہو اور یہی اعلیٰ معیار ہے جو ہم مقرر کرسکتے ہیں، کوئی قوم مسلسل جنگ کرکے کامیابی حاصل نہیں کرسکتی۔ ڈرون حملوں کے بارے میں بہت تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے پہلے امریکا کے نائب وزیر دفاع مائیکل شی ہان بھی سینٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے روبرو بیان دے چکے ہیں کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے جاری پالیسی میں تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں۔جہاں بھی ڈرون کی ضرورت محسوس ہوئی ، حملہ کریں گے۔

مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ امریکی صدر اوباما نے ڈرون حملوں کے سلسلے میں مایوس کیا ہے،اوباما نے یہ تک نہیں کہا کہ ڈرون حملوں کے بارے میں پاکستانی حکومت سے مشاورت کریں گے، امریکا کو پاکستانی پارلیمان کی مرضی اور ملک کی خود مختاری کا خیال رکھنا چاہیے، ڈروں حملے اگر جاری رہے تو پاکستان کی نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوں گے۔ جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے امریکی سفیر رچرڈ اولسن سے ملاقات میں مطالبہ کیا ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی سا لمیت کے خلاف ہیں ، فوری بند کیے جائیں، ڈرون حملے بند ہونے تک دہشتگردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی بھرپور کوشش ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو ڈرون حملے روکے جائیں۔ انتخابات سے پہلے عمران خان ڈرون حملوں کے خلاف امن مارچ لے کر وزیرستان گئے تھے اور میاں نواز شریف نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ ڈرون حملے رکوانے کے لیے امریکا سے بات کریں گے۔ اسی لیے انتخابات کے بعد پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے کی مشیر روبن رافیل سے ملاقات کے دوران میاں نوازشریف نے مطالبہ کیا کہ پاکستان پر ڈرون حملے بند کیے جائیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مستحکم پاکستان ضروری ہے۔ پاکستان تمام ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کا خواہاں ہے مگر کوئی ملک ہماری سلامتی اور خودمختاری کی خلاف ورزی کرے تو اس سے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ امریکی اخبار ”وال سٹریٹ جرنل“ کو انٹرویو دیتے ہوئے بھی میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں پر پاکستانی عوام کو تشویش ہے اور مجھے امید ہے کہ اس حوالہ سے ہم کسی تصفیہ پر پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

ڈرون حملوں کے حوالے سے امریکی صدر اوباما کے اعلان سے جہاں پاکستانی قیادت کو مایوسی ہوئی ہے وہیں پاکستانی قوم کو بھی انتہائی زیادہ افسوس ہوا ہے۔ پاکستانی قوم روز اول سے ڈرون حملوں کو پاکستان کی سا لمیت پر حملہ قرارد یتی ہے اور ان کے بند کرنے کا مطالبہ کرتی آئی ہے، جس کا اندازہ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک تجزیاتی رپورٹ سے ہوسکتا ہے جس کے مطابق 11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج نے علاقائی اور صوبائی خطوں پر کچھ شگاف ظاہر کیے ہیں، کیوں کہ کسی بھی ایک جماعت نے پاکستان کے تمام حصوں سے کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔ لیکن پاکستانی ووٹر ایک محاذ پر متحد نظر آئے اور وہ یہ کہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران ایسے سیاست دانوں کو مسترد کردیا جنہوں نے چپ چاپ یا کھلم کھلا پاکستانی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کی حمایت کی تھی۔ جب کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے پاکستانی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کی کھل کر مذمت کی، 11 مئی کے انتخابات میں فاتح بن کر سامنے آئے۔

پاکستان میں2004سے ڈرون حملے جاری ہیں،جن میں امریکی ٹھنک ٹینک کے مطابق ساڑھے تین ہزار سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں،ان مارے جانے والوں میں متعدد امریکا کے مطلوب افراد نشانے بنے، لیکن بے گناہ شہریوں کی ہلاکتوں کی بھی کمی نہیں ہے۔چند روز قبل برسلز کے ایک معتبر ٹھنک ٹینک انٹر نیشنل کرائسس گروپ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں لوگ انتہا پسندی کی جانب راغب ہوجاتے ہیں اورپاکستان کے سرحدی علاقوں میں جنگجوﺅں کی صفوں میں اضافہ روکنے میں امریکی ڈرون کا کردار آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے، ڈرون حملے کوئی طویل المدتی حل پیش نہیں کرتے۔ ان حملوں میں عسکریت پسندوں سے زیادہ پاکستانی شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، امریکا کی یہ مہم عالمی قوانین کے متصادم ہے اوراوباما انتظامیہ کو اس پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ اوباما انتظامیہ کو عالمی قوانین کا احترام اور انسانی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی پالیسی اپنانا ہوگی۔ یونائٹیڈ نیشن کی رپورٹس کے مطابق امریکی ڈرون حملوں میں 80 سے 90 فی صد بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں۔اےک بےن الاقوامی اےن جی او کے ڈپٹی ڈائرےکٹر ہےلری سٹوفےر کا کہنا ہے کہ امرےکا کے حملوں مےں مارے جانے والوں مےں شدت پسندوں کی تعداد 3,4 فےصد ہے۔بیورو آف انویسٹیگیٹو جرنلزم کے مطابق امریکی ڈرون والے حملوں میں 3461 سے بھی زایدہ لوگ مارے جاچکے ہیں،لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ کتنی بے گناہ جانیںامریکا کی کھلم کھلا جارحیت کا شکار ہوکے منوں مٹی تلے دفن ہوگئیں۔

امریکی جاسوس طیاروں کے ڈرون حملوں کی وجہ سے قبائلی روایات اور مقامی لوگوں کی سماجی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ لوگ خوف کے باعث اجتماعات سے پرہیز کرتے ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق شمالی وزیرستان میں امریکی جاسوس طیاروں کی وجہ سے قبائلی جرگوں کا انعقاد ، نمازِ جنازہ اور دیگر سماجی پروگرام متاثر ہوئے ہیں۔ لوگ نمازِ جنازہ اور شادی بیاہ کے پروگراموں میں شرکت کرنے میں احتیاط برتنے لگے ہیں۔مقامی لوگوں میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ اکثر اوقات نمازہ جنازہ اور شادی بیاہ کے پروگراموں میں کوئی نہ کوئی امریکا کا مطلوب تو ہوتا ہی ہے جس کی وجہ سے حملے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی تازہ رپورٹ میں امریکا کے ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قراردیا ہے اور کہا کہ ڈرون حملوں سے ماورائے عدالت قتل ہورہے ہیں۔ ڈرون حملوں کی وجہ سے لوگ خوف میں مبتلا ہوکر زندگی گزار رہے ہیں اوران حملوں میں جاں بحق یا زخمی ہونے والوں سے متعلق معلومات حاصل نہیں ہوتیں۔

ڈرون حملوں کے نتیجے میں نہ تو دہشت گردی ختم ہوئی ہے اور نہ ہی دہشت گردی میں کمی آئی ہے، ڈرون حملوں کے نتیجے میں بے گناہ لوگوں کے مرنے سے انتہا پسندی اور دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر ڈرون حملوں کے نتیجے میں دہشت گردی میں کمی ہوتی تو دس سال سے جاری ڈرون حملوں کے نتیجے میں دہشت گردی ختم ہو چکی ہوتی۔امریکا میں عوام کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ جب القاعدہ ایک عرصے سے کمزور ہوچکی ہے تو ڈرون حملوں کا کیا جواز رہ گیا ہے، یہ حملے محض امریکا مخالف جذبات اور امریکا کے دشمنوں میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ خاص طور امریکی عوام ایٹمی طاقت سے لیس ملک پاکستان میں نفرت کو بڑھانے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی۔گزشتہ برس پیو کے ایک سروے کے مطابق 74 فیصد پاکستانی امریکا کو ’دشمن‘ سمجھتے ہیں، جس کی بڑی وجہ ڈرون حملے ہیں۔امریکا کو چاہیے پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کا خیال رکھتے ہوئے فوری طور پر ڈرون حملے بند کرے۔کیونکہ ڈرون حملوں کی وجہ سے شدت پسندی مزید بڑھ رہی ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 637219 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.