جمہوریت کے نام پر کھلا مذاق

حق ِ انسانیت میں نامعقولیت اچھی نہیں لگتی
جو سچ پُوچھو ہمیں جمہوریت اچھی نہیں لگتی
یہاں فوق البشر اور جانور جیسے انساں ، ایک
کھلی حق تلفی ِ انسانیت ، اچھی نہیں لگتی

کسی شخص ، امر یا فَن کو پسند کرنے کا مطلب اُن ہی اشخاص ، امور یا فنون کو پسند کرنا ہے جو ہماری ہوں ۔ ہم اُن کی تمنا رکھتے ،خود سے منسوب سمجھتے یا کرواسکتے ہوں ۔یا اُن کی طرح کردار ادا کرنا چاہتے ہوں ۔یہی حال ہماری ناپسند کا ہے کہ ہم دوسروں کو نہیں خُود کو پسند اور ناپسند کرتے ہیں۔گویا ہمیں کسی فرد ، قوم ، یا فرقہ سے نہیں ، اُس کے کردار کے اُس حصے سے نفرت یا محبت ہوتی ہے جو ہماری خواہشات یا توقعات کے برعکس یا مطابق ہوتا ہے۔

جمہوریت کے نام پر ایک ایسا کھلا مذاق جاری ہے جہاں جس کا بس چلے اپنے اذہان کے مطابق اپنی پالیسوں کو درست ، اپنے الفاظ کو حتمی اور دوسروں کی رائے پر عدم برداشت کا رویہ اختیار کرتا ہے ۔پاکستان ا لیکشن کمیشن ایک غیر جانب دار ادارہ بننے کی کوشش کر رہا ہے اور ایسے اقدامات کو رائج کرنے میں مصروف عمل نظر آرہا ہے کہ جیسے پاکستان کے آئندہ الیکشن پاکستانی تاریخ کے شفاف اور ایسے بے داغ نمائندے منتخب ہونگے کہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایسی تاریخ کبھی رقم نہیں کی گئی ہوگی۔ یہ ثابت ہوگیا کہ یہ نا ممکن ہے کیونکہ پاکستان میں سیاست ایسی انڈسٹری کی حیثیت رکھتا ہے جہاں اربوں روپے لگا کر بھی پسندیدہ نمائندے منتخب نہیں کرائے جاسکتے ، پسندیدہ نمائندوں کی کلیئرنس کےلئے ضروری ہے کہ ایسے ارباب ِ اختیار نے کتنا آشیر باد یا ہوا ہے۔ ملکی تاریخ میں جس طرح انتخابات کے نام پر کھیلوار کیا گیا اس کا تمام کچا چھٹا عوام کے سامنے آچکا ہے ۔عوام کی بڑی تعداد ووٹ نہ دیکر پہلے ہی مرحلے میں ایسے نظام اور اُس نظام کی بقا ءکےلئے آنے والوں نمائشی کرداروں کو ووٹ نہ دیکر مسترد کردےتی ہے۔پاکستان کی پیدائش سے ا ب تک جمہوریت کے نام پر جو کھیل کھیلا گیا اور اس کھیل میں سیاسی کرداروں نے جتنی جانقشانی سے اپنا کردار نبھایا ، وہ تاریخ بن چکی ہے ۔جب جب پاکستان کی سلامتی ، تحفظ اور بقا ءکے نام پر عوام کے جذبات کو استعمال کیا گیا تو سب سے پہلے جھوٹے وعدے وعید کرکے عوام کی اکثرےت کو بے وقوف بنایا گیا ۔ کبھی یکجہتی کے نام پر تو کبھی صوبائیت کے نام پر تو کبھی قومی اتحاد کے نام پر سیاسی جماعتوں نے جمہورےت کو فروغ دےنے کےلئے سرحدوں کے محافظوں کو گھر کا چوکیدار بنایا تو کبھی انھیں واپس بھیجنے کےلئے پس پردہ معائدات کرکے پاکستانی قوم کو غیروں کے ہاتھوں غلام بنا دیا ۔ حق اور اپنے دل کی بات کرنا ایک ایسا جُرم بنا دیا گیا کہ ہر ادارے کی حکمت عملی کو پہلے خوب سراہا گیا اور جب قرعہ فال دوسرے کے نام پر نکلا تو وہ ادارے کے بجائے شخصی غلطی کہلائی ۔جب تحفظ پاکستان کے نام پر اداروں کا استعمال کیا جاتا تواُس وقت ادارے کی پالیسی کہلائی جاتی تھی لیکن جب تاریخ کروٹ بدل جاتی تو وہ ادارہ خود کو بری الزمہ قرار دےکر ایسے ایک فرد کی ذاتی غلطی قرار دے دےتا۔پاکستان کی بدقستمی ہے کہ یہاں کوئی ایک ایسا ادارہ نہیں ہے جس نے حق اختیار عوام کو دیا ہو ، کبھی نظریہ ضرورت ، تو کبھی اسلامنائزیشن، تو کبھی میثاق جمہورےت ، تو کبھی این آر او ، تو کبھی مفاہمتی پالیسیاں کا گول چکر ہی کولہو کی بیل کی طرح چلتا رہا ۔قوم سے کئے جانے والے کسی وعدے کو کسی بھی سیاسی جماعت نہیں پورا نہیں کیا بلکہ خاص طور پر یہی دیکھا گیا کہ جو جتنا عرصہ اقتدار میں رہا ، ایسے عوام کی خدمت کا موقع اس لئے نہیں مل سکا کیونکہ اُن کے بقول انھیں ملنے والے مصائب سابقہ حکومت کا تحفہ ہیں جیسے وہ دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔اس لئے جو وقت انھیں ملا ہے وہ کم ہے اور عوام انھیں دوبارہ منتخب کرے تو وہ دودھ کی نہریں بہا دیں گے ، شہد کے دریا نکال دیں گے ،مخملیں قالین بچھا دیں گے ۔عوام بھی" سادہ گل ماموں" ہے کہ اُن کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتی ہے اور ہونقوں کی طرح اپنی تقدیر بدلنے کی انتظار میں قبر میں اترتے اترتے اپنی اولاد کو بھی نصیحت کر جاتی ہے کہ" بیٹا ، جان جائے ، زبان نہ جائے ۔ پرُکھوں کی عزت کا خیال رکھنا"۔کتنے چہرے بدلے ، کتنی پارٹیاں بدلیں ، لیکن بدلا نہیں تو صرف نظام نہیں بدلا کیونکہ یہی نظام ہی تو ہے جس کے بل بوتے پر باپ کی جگہ ، بیٹا آجاتا ، بیٹا نہ ہو تو بیٹی آجاتی ہے ، سیاست کو گھر کی لونڈی بنا کر عوام کو زر خرید غلام بنا لینا کی عادت اتنی پختہ ہوچکی ہے کہ اب تو غلام کو بھی اپنے آقا ﺅں کی تبدیلی ،منظور نہیں ہے ۔جمہورےت کے نام پر اداروں کا کردار تو ایک طرف ، صرف پاکستان میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے جیسے تمام خدمت کا جذبہ صرف ان میں ہی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ۔اگر کسی کو کچھ نہیں آتا تو ایسے فوری طور سیاست دان بننے کا مشورہ دیا جاتا ہے کہ اس سے شفاف کاروبار کوئی نہیں ہے کیونکہ اگر جیل کسی بھی جُرم میں جانا پڑے تو بھی فائدے میں ہی ہوگے ۔بیمار پڑے تو بھی فائدے میں ہوگے ، کسی کو مارو یا خود مر جاﺅ تو بھی فائدہ، اگر کوئی فائدے مندکاروبار ہے تو صرف سیاست کا ہی ہے ۔ سیاست کو خدمت کا نام دیا ہے لیکن عجیب خدمت ہے کہ خدمت کرنے کےلئے عوامی بہبود کے بجائے اربوں روپے سیاسی جلسوں ، ریلیوں ، بینزر ، پبلسٹی پر خرچ کردئے جاتے ہیں ۔ورنہ مراعات، تنخواہ کے نام پر کوئی بھی اسمبلی، سینٹ کا ممبر اپنے ا لیکشن کے ایک دن کا خرچہ چار سال کی مدت میں پوری نہیں کرسکتا لیکن جب اربوں روپے خرچ کرکے اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں تو انھیں ایک ایسا" پارس" مل جاتا ہے جو کسی بھی چیز پرلگاتے ہی سُونا بن جاتا ہے ۔جس طرح ایک عورت کے کئی روپ ہوتے ہیں کہ ایک وجود رکھتے ہوئے وہ ماں، بہن ، بیوی ، وغیرہ وغیرہ بن جاتی ہے ایسی طرح سیاست بھی غریب کےلئے ایک الگ کردار ، پارٹی کےلئے الگ ، الیکشن کےلئے الگ ، حکومت کےلئے الگ ، اپوزیشن کےلئے الگ ، اتحاد کےلئے الگ ، غرض یہ ہے کہ سیاست کی کوئی کیل سیدھی ہی نہیں کہ ہم کہہ سکیں کہ اونٹ رے اونٹ تری کون سی کیل سیدھی ۔۔ اگر ایسے اونٹ کے اُس کوہان سے تشبہہ دوں کہ وہ اپنے کوہان میں اتنے وافرمقدار میں خوراک اکھٹا کر لیتا ہے کہ ہفتوں پانی ، خوراک کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے ایسی طرح پاکستان میں آج کل تو کیا، ماضی سے لیکر اب تک جو کچھ ہوتا آرہا ہے اُس میں جب بھی جمہوریت کی بساط الٹی تو جب تک جمہوریت واپس نہیں آتی اُس وقت تک قومی خزانے لوٹنے والے جگالی کرتے رہتے ہیں۔جمہوریت نہ ہوگئی ایک تماشہ ہوگیا کہ ایک امیدوار کو سو کے مقابلے میں تیس فیصد ووٹ ملیں تو وہ اکثریت پر کامیاب قرار پاتا ہے ۔ الیکشن کے اخراجات کی حد متعین کرنے کےلئے لاکھوں روپوں کی حدود متعین کئے جاتے ہیں تو یہ نہیں سوچا جاتا کہ اگر کوئی غریب الیکشن میں حصہ لے گا تو کیا ایسے میکرو فنانس بنک جاکر اپنی غربت گروی رکھنی پڑے گی سیدھے سادھے کہتے کیوں نہیں ہو کہ جی ! غریب کو الیکشن میںلڑنے کا حق ہی نہیں ہے ۔ جس غرےب کے گھر میں دو وقت کا کھانا نہ نہ ہو ، اُسے اپنے بچے فروخت، خودکشی اور جسم کی قیمت لگاکر بچوں کو دودھ دپلانا پڑتا ہو وہ کس طرح مہنگے ترین الیکشن کا حصہ بن سکتا ہے ۔عجیب جمہوری نظام ہے کہ غریب کے نام پر وہ امیر ،سرمایہ دار غریب کا ہمدرد بنکر آتا ہے جو اپنی فیکٹری میں غریب مزدور کی جان کے بجائے اپنے ائیر کنڈیشن کمرے اور فیکٹری کا انشورنس کرواتا ہے ۔ بھلا وہ کسی غریب کا غمگسار کیسے بن سکتا ہے؟ جو جاگیردار ، ہاری ، کسان کی مشقت کو جبری چھین لیتا ہے اور اُس کو پیٹ بھر اناج نہیں دے پاتا تو پھر وہ اُس کے حقوق کے نام پر اسمبلی میں کیا ، اور کیوں آواز اٹھائے گا ؟۔ کروڑوں روپے خرچ کرکے سڑکیں بنا دیں جاتیں ہیں ، تو اگلے دن ہی کوئی دوسرا ادارہ انھیں ادھیڑ دیتا ہے ، جس سڑک پر کروڑوں روپے لگا دئے جاتے تو چند مہینوں بعد ایسی سڑک کو کھود کر فلائی اوور ، انڈر پاس بنا دئے جاتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ، کوئی احتساب نہیں ، کوئی پلاننگ نہیں ، اربوں روپے خرچ کرکے خانہ شماری کرائی جاتی ہے تو مردم شماری کا دور دور تک نشان نہیں ہوتا ۔ جس کی لاٹھی ، اُس کی بھینس کے مصداق جس میں قوت ہو حکومتی مشنری کو اپنے مقاصد کےلئے استعمال کرجاتا ہے تو پھر عوام کو تکلیف کیوں دیتے ہو ، چابی اٹھاﺅ اور اُن ٹھنڈے کمروں میں بیٹھنے والوں کی میز پر رکھ کر کہو کہ یہ میرے گھر کی چابی ہے ۔ جائیں ذرا ایک وقت کا چولہا جلادیں باتوں سے آگ تو لگائی جاسکتی ہے لیکن کھانا نہیں پکایا جاسکتا ۔جو کام پینسٹھ سالوں سے ہورہا ہے وہ ہوتا رہے گا ۔ جو سوچ اظہار ہے اس پر قدغن لگانی ہے تو لگا دیں ۔سوچ کی قطع برید اب ختم کرو ، آپ کی سوچ الگ ، میری سوچ الگ اسی لئے ہے کیونکہ ہم ایک دوسرے پر جبری سوچ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔دریا کے بہاﺅ کو روکنے کے بجائے ایسے استعمال کرنے کاطریقہ اپنایا جائے تو تباہی نہیں ہوگی ۔جمہوریت یہ نہیں کہ اختیار آپ کے ہاتھ میں ہے توکسی کی خاموشی کے دل کو جبر کے پیروں سے روندتے رہیں ۔عوام کمزور سہی لیکن اُس کی شناخت ہے تو ایسے مٹاتے کیوں ہو ، وعدے پورے نہیں کرسکتے تو وعدے کرتے کیوں ہو ؟؟۔۔جمہوریت اگر یہ ہے ایسی جمہوریت مجھے اچھی نہیں لگتی ۔سچ پوچھو ۔واقعی یہ جمہوریت کھلا مذاق ہے ۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 669219 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.