چنار دیس کے پرکیف نظاروں اور پیاروں سے ملاقات کا احوال - 2

(سفرنامہ کشمیر)
”گھرسے گھرتک“

بھارتی کشمیرمیں داخل ہونے کے بعد ایک اور طویل Prosesشروع ہوگیا‘جیسے ہم کسی جاسوسی مشن پرآئے ہوں۔سب سے پہلے تو کمان پل کے ساتھ ہی دوتین میٹرکے فاصلے پرکھڑاکرکے تمام مسافروں کی گروپ کی صورت تین چارتصاویرلی گئیں۔اس کے بعدہمیں چندفوجی سپاہیوں کی سرکردگی میںلائین کی شکل میں اوپرخیموں میں لگائے گئے عارضی دفاترمیںلے جایاگیا۔(ان دفاترکودیکھ کراندازہ ہورہاتھاکہ یہ صرف کراسنگ کے دن کے لئے ہی لگائے جاتے ہیں)دودفاترخیموں میں تھے ،ایک خیمہ مسافروں کی انتظارگاہ کے طور پر لگایا گیا تھا‘ مگراُس میں اتنی کرسیاں یابیٹھے کاکوئی معقول انتظام نہیں تھاکہ سارے مسافربیٹھ سکیں،کچھ مسافرانہی خیموں والے دفاترمیں بیٹھ گئے او رکچھ باہر کھلے میدان میں زمین پر ہی بیٹھ گئے ،کچھ اس میدان میںٹہلنے لگے۔خیمے والے دفترمیںجہاں مسافروںکی سفری دستاویزات کی جانچ پڑتال ہورہی تھی‘کچھ مسافرخواتین کووہاں ہی بٹھادیاگیا۔اب دفتری Prosessشروع ہوتاہے۔دفتری بابوکے پاس ایک ریکارڈرجسٹرموجودتھااوروہ اپنے ریکارڈکے مطابق مسافروں کے نام پکارتاہے۔ہرایک مسافرکو مخصوص اندازسے سوالات کئے جارہے ہیں،کوائف کے اندراج کے بعددوبارہ مسافرکی پورے قدکے ساتھ اورپھرایک پاسپورٹ سائز تصویربنائی جاتی ہے۔تیسرے مرحلے پر ایک پرمٹ جاری کیاجاتاہے،جس مسافرکوپرمٹ جاری ہوجاتاہے ،وہ ان دفتروںسے فارغ ہوکرکسٹم والوں کے پاس پہنچادیاجاتاہے۔ اس طرح ہرمسافرنے تمام مراحل کے بعداپنااپناسامان چیک کروایا۔کسٹم والوںکااندازاورہی نرالاتھا،وہ ہرمسافرسے یہ ضرورکہتے کہ تمہارے پاس سامان زیادہ ہے۔جن مسافروں کے پاس لوگوں کی جانب سے پانے عزیزواقارب کے لئے تحفائف وغیرہ تھا،کسٹم اداکرکے ہی ان کی جان چھوٹی،پاکستانی کشمیر میں کسٹم والامعاملہ درپیش نہ آےاتھاس لئے بعض مسافروں نے اس پر اعتراض توکیامگربے سودرہا۔دراصل ان مسافروں کے پاس ایک تو اپنے عزیزواقارب کے لئے تحائف ہوتے ہیں اور اس سے بڑی سردردی لوگوںکی امانتیںہوتی ہیں،نہ لائیںتوناراضگی،ساتھ لے آئیں توبوجھ سنبھالنے کامعامل الگ اور کسٹم کی ادائیگی الگ مسئلہ بن جاتی ہے۔لوگ آرپارتحاےف تو بھیجتے ہی رہتے ہیں،لیکن جب انہیں کسٹم اور سخت تلاشی جیسے مراحل سے گزرناپڑتاہے تو وہ پریشان ہوجاتے ہیں۔سکیننگ سسٹم نہ ہونے سے بھی اس عمل میں کافی وقت لگ جاتاہے۔لوگوں کاکہناتھاکہ دونوں اطراف کی سرکارکواس معاملے میںنرمی کرنی چاہیئے۔اس معاملے مین دونوں اطراف کی انتظامیہ میں فرق یہ تھاکہ پاکستانی کشمیر کی انتظامیہ نے کسٹم کاتقاضاتونہیں کیااورنہ ہی سامان کی کمی وزیادتی کاسوال اٹھایا،البتہ بھارتی انتطامیہ نے جارحانہ اندازہی اختیارکیا۔کئی لوگوں سے انہوں نے کسٹم کی مدمیں اچھی خاصی وصولی کی۔ ان تمام دفتری معاملات میں ہم 17مسافروں کو تقریباًاڑھائی سے تین گھنٹے لگ گئے۔
 

image

شام کے مہیب سائے منڈلانے لگے تھے ،ہم چاروں طرف کھاردارتاروں میںگھرے ہوئے تھے۔مسافرکبھی نیچے زمین پربیٹھتے وکبھی اٹھ کر ٹہلناشروع کردیتے۔عجب کیفیت تھی ان کھاردارتاروں کے حصارمیں ہم تڑپ رہے ھے اور باہروہ پیارے کہ جن کی ملاقات کے لئے ہم نے یہ جتن کررہے تھے۔مسافربارباراس تاروںسے بُنے گیٹ کو حسرت اورحیرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے جس کے کھلنے سے ان کے اک نئے سفرکاآغازہوناتھا۔جب کافی دیرگزرگئی اورشام کے مہیب ساے منڈلانے لگے توہماری تشویش میںمزیداضافہ ہوگیا۔بھائی صاحب نے ہمت کرکے ایک دفتری اہلکارسے پوچھ ہی لیاکہ جناب اب کس بات کی دیرہے۔تما م مسافروں کی Veryfecationہوچکی،سامان بھی چیک ہوگیا،کسٹ بھی دےدیاتوپھرکیاوجہ ہے اس قیدکی؟۔ان صاحب نے بڑے اکتائے ہوئے لہجے میں بتای اکہ دومسافر(جولگ بھگ 70سال سے زائدعمرکے تھے)میںسے خاتون کے پاس اپنی پاسپورٹ سائز تصویر نہیں ہے جو سفری دستاویزیعنی پرمٹ پر چسپاں کی جانی مطلوب ہے۔اس معمرخاتون کو ٹیٹوال سے ٹنگڈھاربھیجاگیاہے تصویربنوانے کے لئے۔جب اس کا Prosissمکمل ہوگا،تب سارے مسافروں کی خلاصی ہوگی۔یہ جواب سن کر ہم سارے ہکابکارہ گئے۔اسی اثناءمیں پاس سے گزرتے ہوئے ایک اور صاحب بولے آرام سے بیٹھیں،یہاں سارے مسافروں کو ایک ساتھ ہی چھوڑاجاتاہے۔(یہاںضمناً یہ بھی بتاتاچلوں کہ ٹنگڈھارٹیٹوال سے تقریباً ڈیڑھ سے دوگھنٹے کی مسافت ہے اوراس سے پہلے ایساکوئی بازارنہیں ہے جہاں سے تصویربنوائی جاسکے اور سوچنے کی با یہ ہے کہ پاکستانی سائیڈ پر جب سفری دستاویزات وصول کی گئیں تو کمی بیشی کیوںنہ دورکی گئی،پاکستانی ٹرمینل میں بھی پورادن Prosessہوتارہا،وہ کیاتھا؟دراصل اتنی بُری ایڈمنسٹریشن کہ خداکی پناہ،لگتاتھاجیسے بھیڑبکریوں کا تبادلہ کیاجارہاہو،بھئی اصولی بات ہے کہ آپ مسافروںکو مکمل معلومات فراہم کرواور تمام ضروری دستاویزات مکمل کرکے ہی معاملہ آگے بھیجو )۔غالباًکوئی گھنٹے سواگھنٹے بعدیہ معمہ حل ہوااورہماری جان میں جان آئی۔بھارتی اہلکاروںنے جب وہ آہنی گیٹ کھولاتو اچانک ہر طرف سے چیخ وپکارشروع ہوگئی۔مسافروں نے اپنااپناسامان اٹھایااور گیٹ کی طرف بڑھنے لگے۔گیٹ کھلتے ہی میں میری آنکھوںنے جو منظردیکھاوہ وہ ضبط تحریرمیں لانامیرے بس کی بات نہیں۔سینکڑوںلوگ ایک دوسرے پر اس وارفتگی سے ٹوٹ پڑے جیسے انہیں دنیاکی سب سے بڑی نعمت مل گی ہو،ہرکوئی اپنے پیارے سے گلے لگ لگ کررورہاتھا،بچے،خواتین اورمرد،کوئی تفریق نہ تھی،یہ بھی نہیں کہ کون کس کا جاننے والاہے یاکس کا کون رشتہ دارہے،ہرکشمیری ایک دوسرے کو گلے لگ لگ کے رورہاتھا،وہ ایک دوسرے کو بچوں کی طرح بوسے اوردلاسے دے رہے تھے۔میںتوکسی کو بھی By Faceنہیں جانتاتھا،مگراس کے باوجود درجنوں بچیوں،خواتین اور بھائیوںنے مجھے بھی جی بھرکے سینے سے لگاکرہجروفراق کی آتش کو بھجانے کی سعی ناتمام کی۔یہ معاملہ چل رہاتھا،پیچھے سے ایک گرجداآوازآئی،پیچھے ہٹ جائیں،راستہ چھوڑدیں،ایک طرف ہوجائیں۔ہم ہمت کرکے جب گیٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تو چالیس سے پچاس لوگ آگے موجود تھے جوہمارے استقبال کے لئے آئے تھے،ان سب کے ہاتھوںمیں پھولوں کے انتہائی خوبصورت ہارتھے۔بھائی صاحب ڈاکٹرمحمدرفیق چغتائی کو توبہت سے لوگ جانتے تھے اورمیں ایک دوسےازیادہ کسی کو نہیں جانتاتھا،جانابھی کیسے کبھی دیکھاہی نہیں تھا،جب ہمارے بڑے چچا عزیزالرحمان العروف بابوجی آگے بڑھے تو پھرکیاتھا‘پراہجوم ہی امنڈآیا۔یہ ٹیٹھوال کرسنگ پوائنٹ پر ہمارااصل استقبال تھاجو ہمارے اپنے پیارے کررہے تھے۔ہمیں ہاروں سے تو جیسے لادیاگیاتھا۔مردوخواتین،بچے اوربڑے سب ہی ٹوٹ ر ہے تھے۔ایسے جذباتی مناظرتھے کہ ناقابل بیاں‘ وہ بے حدتڑپ اور چاہ سے ہمیں بوسے دے رہے تھے اور روئے جارہے تھے۔یہ آنسوخوشی وفراق کے تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔میں آ ج بھی جب وہ منظریادکرتاہوں ہوں تو بے ساختہ آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔ایسی چاہت اور وہ محبت،خداکی قسم ان آنسوﺅں کا ئی نعم البدل نہیں۔میں نے اس مٹی کو اتھاکر آنکھوں سے لگایاجس کوحضرت بل اور حضرت نورالدین ولی رشیؒ سے نسبت تھی،جس کو شاہِ ہمدانؒ سے نسبت تھی،جس کو درگاہ چرارشریف سے نسب تھی۔یہ وہ عظیم مٹی تھی جس کو شاہِ ِنقشبندسے نسبت تھی۔چچا بشیر احمد، نصیر احمد، چچا محمد مقبول، عبدالشکور قریشی، میرے چچازادبھائی، بہنیں اور دیگرجتنے لوگ موجودتھے،ان کاوالہانہ اندازدل ودماغ سے مرتے دم تک محونہ ہوسکے گا۔آگے گاڑی تیارکھڑی تھی،گاڑی بھی ایسی سجائی ہوئی کہ سبحان اللہ،جب گاڑیاں رواں ہوئی توایسالگ رہاتھاجیسے کسی کی بارا ت جارہی ہو،سب سے آگے ہماری گاڑی تھی۔ہر کوئی پہلے بات کرناچاہتاتھا،طرح طرح کے سوالات ،سبھی اپنے جانے انجانے پیاروں کااحوال جاننے کے لئے بے تاب تھا۔
 

image

یہی وہ لمحہ تھاجس کا ہمیں اور ان سب کو پچھلے 65سالوں سے انتظارتھا۔ہمارے چہروں پر اب طمانیت ومسرت کاآثارظاہرہورہے تھے۔خوشی ایس کہ جس کا اندازہ نہیںلگایاجاسکتا۔میں انتہائی شوق سے ان حسین وادیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاتھاجن کو دیکھنے کے لئے طویل عرصے سے بے تاب تھا۔ابھی ہماری گاڑی کو رواں ہوئے دس منٹ سے زیادہ وقت نہیں گزراتھاکہ ڈرائیورنے اچانک گاڑی کو بریک لگادی۔جب گاڑی کو بریک لگی،گویامیں اچانک کسی خواب سے بیدارہوگیا۔آگے مسلح فوجی کھڑے تھے۔ایک جوان آگے بڑھا،جو غالباًبھارت کی کسی ہزاروں میل دورریاست کا باشندہ لگ رہاتھا،اس کے چہرے کے خدوخال بتارہے تھے کہ جیسے وہ کوئی جاپانی دیہاتی ہو،اس فوجی نے ڈرائیور سے پوچھا،ہاںبھئی،کتنے پاکستانی ہیں؟ڈرائیورنے بتایاتین،اس دوران دوتین اہلکار گاڑی کے اگلے پچھلے حصوں کو غورسے دیکھ رہے تھے۔دوتین دائیں بائیں مسافروں کو گھوررہے تھے۔ایک فوجی اہلکارنے ہمیںمخاطب کیاکہ ہم پہلے بھی ادھرآئے ہیں یانہیں،تو ہم نے نفی میں سرہلادیا۔ڈرائیورنے ہمیں کہاکہ اپنے پرمٹ نکالیں۔ہم نے وہ فارم نکالاجوسبھی مسافروں کو ٹیٹھوال کراسنگ پوائینٹ آفس سے جاری ہواتھا۔فوجی کہنے لگاکہ ان فاموںکی ایک ایک کاپی ہمیں دیں ،اب اس جنگل میں فوٹو سٹیٹ کاپی کہاںسے آئے،ڈرائیورنے اہلکارسے کہاکہ وہ انہیں ہرپرمٹ کی ایک ایک کاپی واپسی پھیرے پر لادے گا،اس یقین دھانی پرگاڑی نمبر، ڈرائیور کا نام، وقت، تاریخ وغیرہ تحریرہونے کے بعد یہ مرحلہ تمام ہوااورگاڑی کو روانگی کی اجازت ہوئی۔تھوڑے ہی فاصلے پر انڈین آرمی کی ایک اور چیک پوسٹ آئی۔وہاں بھی ایساہی معاملہ پیش آیا۔اسی طرح ٹنگڈھار اور پھرگبرہ پہنچنے تک لگ بھگ دواڑھائی گھنٹے کے اس سفرمیں 5,6مقامات پر آرمی چیک پوسٹیں تھیںجہاں پہلی چیک پوسٹ کا معاملہ دوہرایاگیا۔جب ہماری گاڑی گبرہ ٹاپ پرپہنچی تو آفتاب سرخ ہوچکاتھااورآسمان پر سرخ وسپیداور گہری نیلی سیاہی پھیل چکی تھی۔بادل ایسے معلوم ہوتے تھے جیسے دھویں کے غبارکو سرخ و نارنجی رنگوں میں ڈھانپ دیاگیاہو۔

لیپہ ویلی کی مشہوردرگاہ تریڈہ شریف سے گبرہ کی یہ گلی میں پہلے بھی دیکھ چکاتھا۔عین درگاہ تریڈہ شریف کے اوپربلندی پرچھائے گہرے بادل جیسے جھوم جھوم کر ہمیں گبرہ کی حدودمیں داخل ہونے ہر ویلکم کررہے ہوں۔ ہماری گاڑی آبادی میں داخل ہوگئی ،گبرہ کے لوگوں کی بڑی تعداد سڑک پرموجودتھے۔ان میں زیادہ تر ہمارے رشتہ دار ہی تھے۔بیسیوں مردوخواتین اوربچوں نے پرجوش اور انتہائی جذباتی انداز سے ہمار استقبال کیا۔وہی مناظرتھے جو کراسنگ پوائینٹ کا گیٹ کھلنے کے وقت تھے۔لوگ ہمیں گلے سے لگالگاکر رورہے تھے اور خوشی کے آنسوﺅںمیں پھولے نہ سمارہے تھے۔گبرہ میں جب گاڑی داخل ہوئی توموذن مغرب کی آذان دے رہاتھااوران حسین چناروں کے پتوںسے ٹکراکر آنے والی اللہ اکبر کی صدائے دلنواز کانوں میں ر س گھول رہی تھی۔ہم ایک جلوس کی معیت میں چچابشیراحمدکے گھر کی طرف روانہ ہوئے جو سڑک سے چند قدم کے فاصلے پر تھا۔گھرمیںچچی جان،پھوپھی صاحبہ ،بہنوں اور سارے گھروالوںنے ہمیں گھیرلیا ۔بچوں اوربڑوں،سب ہی کا پیاراور والہانہ محبت کاا ظہاردیکھ کر ایسالگ رہاتھاکہ گویاآج ان کے لئے عید کادن ہو۔تھکاﺅٹ کس کو نہ تھی مگرجو خوشی ملی تھی اس میںکسی کو ذرہ برابرتھکن کااحساس نہ تھا۔تھوڑی ہی دیرمیںچائے لگ گئی،اہل خانہ کو معلوم تھاکہ پاکستانی عمومی طورپر میٹھی چائے ہی پیتے ہیںاس لئے لپٹن چائے کااہتمام الگ تھا اورکشمیر نمکین چائے کے تو کیاکہنے۔ہم نے بڑے شوق سے کشمیری نمکین چائے پی ۔چچابشیراحمدکے گھرتو جیسے کوئی میلہ لگ گاہو۔گبرہ کے لوگ ہماری ملاقات کے لئے آرہے تھے۔مردوخواین،بچے اوربڑے ہرآنے والا ہمارے سامنے پہنچتے ہی اپنے ساتھ پھول، ٹافیاں،اخروٹ یاجو بھی کوئی چیز لاتا دروازے سے داخل ہوتے ہی ہم پر نچھاورکرکے ایک تو اپنی والہانہ محبت کا اظہار کررہاتھاتودوسری جانب گویاوہ اپنی آمدکاپتادے رہاہو۔ ہرکوئی آکرسلام کے بعدہمارے گلے میں ہار ڈالتا، پیار کرتا،روتااور دل کھول کر باتیں کرتا،ایک کھوج سی ہوتی ،ایک ایسی کسک اورتڑپ،ہرکوئی پاکستانی کشمیر میں موجود اپنے بچھڑے ہوئے پیاروں کا احوال دریافت کرتا۔اب سب کو تو ہم نہیںجانتے ،البتہ اگرکسی کی کہیں کوئی جان پہچان کا سراغ نکل آتاتو وہ تو واری ہی ہورہاتھا۔الغرض کھانے کے بعدرات گئے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔
Safeer Ahmed Raza
About the Author: Safeer Ahmed Raza Read More Articles by Safeer Ahmed Raza: 44 Articles with 43366 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.