الیکشن ۔۔۔دوہزار تیرہ

گزشتہ کئی سالوں سے میں کئی بار اپنے کالموں میں الیکشن کے فرسودہ و ناکارہ نظام کی جانب بار ہا بار مبذول کراتا رہا ہوں لیکن جیسے جوں نہیں رینگتی۔۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری ہوں یا عمران خان یا پھر نواز شریف اور ان کے ساتھ ساتھ آصف علی زرداری ہوں یا اسفند یار ولی یا سید منور حسن اور مولانا فضل الرحمٰن ہوں یا پھر الطاف حسین گو کہ پاکستانی تمام سیاستدانوں کا ایک ہی مطالبہ رہا ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ صاف و شفاف انتخابات کرائے جائیں لیکن کیا ان سب نے کبھی بھی ایوان یا پھر عوامی جلسہ و جلوس میں عندیہ دیا کہ وہ انتخابات کے نظام کو جدید خطوط کمپیوٹرائز اسکینگ کے نظام کو مروج کرنے کیلئے اپنا اپنا اہم کردار ادا کریں گے۔ گزشتہ دنوں الیکشن دو ہزار تیرہ کا انعقاد ہوا اور حسب معمول ہمارے فرسودہ و ناکارہ نظام کے سبب ووٹنگ کے اندراج میں پورے پاکستان میں دھاندلی کا عمل پایا گیا کہیں آشکار ہوا تو کہیں دبا دیا گیا گو کہ کہیں بھی شفافیت نہ تھی۔ میں نے اپنے کالموں کے ساتھ جب جب بھی ٹیلیویژن میں تجزیہ دیا تو اس میں یہی بات بیان کی کہ پکستان میں ووٹنگ کے نظام کو مکمل کمپیوٹرائز کرکے انتخابات کے دن ٹھپہ سسٹم ختم کرکے اسکینگ انگوٹھا اور شناختی کارڈ کا نمبر درج کرکے اندراج کیا جائے جسے نادرا سے براہ راست منسلک کرکے عمل میں لایا جائے تاکہ کوئی ایک ووٹ بھی جعلی نہ ڈالا جاسکے۔ اس عمل کیلئے پہلے ووٹنگ کے وقت ووٹر کا شناختی کارڈ نمبر کمپیوٹر میں درج کیا جائے تاکہ اس کی تمام کوائف سامنے آجائیں پھر یس کا بٹن کلک کیا جائے اور وہ لاک ہوجائے تاکہ دوبارہ استعمال میں نہ آئے اس کے بعد ووٹر کے انگوٹھے کا اسکینگ کیا جائے تاکہ میچنگ ہوسکے میچنگ کے بعد دوسرے کمپیوٹر پر ووٹر سب سے پہلے اپنا ووٹنگ سیریل نمبر درج کرے پھر اپنے حلقہ اور علاقے کے نامزد امیدواروں کی فہرست کو دیکھتے ہوئےاپنے پسندیدہ امیدوار پر ٹچ کرے جیسے ہی وہ ٹچ کرے وہ ووٹ سیو ہوکر آٹو لاک ہو جائے اس طرح ایک ووٹ ہوجائے، یہ عمل آخر وقت تک جاری رہے وقت کے اختتام پر اُس کا ڈیٹا پرنٹ کرلیا جائے یہی اس کا نتیجہ ہوگا سرکاری اور غیر سرکاری بھی۔ اس نظام سے کوئی بھی غلط ووٹ کاسٹ نہیں ہوسکے گا اور کسی بھی سیاسی جماعت کو اعتراض کا موقع بھی میسر نہ آسکے گا لیکن اس میںکیا قباحت ہے جو اس پر عمل کرنے کیلئے تمام سیاسی جماعتیں متفق نہیں ہوتی نظر آرہی ہیں اس کیلئے سپریم کورٹ کو اور الیکشن کمیشن کو از خود نوٹس لیتے ہوئے پاکستان کی بھلائی اور عوامی بہتر مفادات کیلئے عمل کرنا پڑیگا۔ ری پولنگ بھی نہیں کرانی پڑیگی اور نہ سیکیورٹی فورسس کی تعداد میں اضافہ کرنا پڑیگا۔ حیرت و تعجب کی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی صحافی و اینکر اس جانب کوئی بات نہیں کرتا آخر کیوں ؟؟؟ کیا ہمارے صحافی حضرات کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کا حصہ بنیں بیٹھے ہیں جو حقیقت سے آشنا ہونے کے باوجود شتر مرغ کی طرح اپنی اپنی گردیں ریت میں چھپاکر بیٹھ گئے ہیں یہ صحافتی اقدار کے خلاف ہے اور میڈیا کی اخلاقیات کے منافی بھی۔ میں ایک ادنیٰ سا صحافی ہوں مگر اپنے فرض کو اچھی طرح سے سمجھتے ہوئے برملا یہ کہتا ہوں کہ اس جدید کمپیوٹرائز عمل سے سارے جھگڑے ختم ہوجائیں گے اور پاکستان میں مستحکم و مضبوط جمہوری عمل دیکھنے میں آئے گا۔ اگر اس عمل پر سنجیدگی سے عمل نہ کیا گیا تو یاد رکھئے پاکستان کو معاشی و اقتصادی، معاشرتی، مذہبی، سیاسی، تجارتی، سلامتی گو کہ ہر پہلو سے شدید نا تلافی نقصان سے دوچار ہونا پڑیگا۔ یہ لمحہ فکریہ ہے اسے عملی جامع پہنانے کیلئے ہماری ایجنسیوں، فورسس، وکلائ، دانشور، کالمکار، اینکرز اور صحافی برادری کو بھرپور اپنا کردار ادا کرنے پڑیگا ۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناظر رہے ۔ پاکستان زنادہ باد، پاکستان پائیندہ باد۔۔۔٭٭
Jawaid Siddiqui
About the Author: Jawaid Siddiqui Read More Articles by Jawaid Siddiqui: 310 Articles with 247553 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.