اپنی ظالمانہ بدنمائی چھپانے کے لیے اسرائیل کا نیا شوشہ

دو روز قبل اسرائیل نے فرانسیسی ٹی وی چینل پر تیرہ سال قبل چلائی جانے والی ایک رپورٹ درست کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ رپورٹ میں فلمائے گئے ایک منظر میں بارہ سالہ فلسطینی لڑکا محمد الدرہ اور اس کے والد کو دکھایا گیا ہے۔ گولیوں کی تڑتراہٹ میں یہ دونوں دہشت زدہ ایک دیوار سے لگے بیٹھے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد لڑکے کو مردہ حالت اور اس کے والد کو زخمی حالت میں دکھایا گیا ہے۔ یہ مناظر اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات کی ناکامی کے بعد ستمبر 2000ءمیں شروع ہونے والی انتفاضہ کی جھڑپوں کے دوران فلمائے گئے تھے۔اسرائیل کے بہ قول اس رپورٹ کے نشر ہونے کے بعد دنیا بھر میں صہیونی ریاست کے خلاف غم و غصہ اور زبردست اشتعال پھیل گیا تھا۔ عرب ممالک میں الدرہ کو شہید کا درجہ دیا گیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو نے بھی گزشتہ برس ستمبر میں اس واقعے کی تفتیش کے احکامات جاری کیے تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یہ ویڈیو اسرائیل کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے جس کے بعد اس کے خلاف پرتشدد کارروائیاں شروع ہوگئی تھیں۔ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد اسرائیل نے پہلے پہل تو اس پر معافی مانگی تاہم بعد میں الدرہ، جس کا بے جان جسم اس ویڈیو میں ساری دنیا نے دیکھا، اس کی موت کا الزام فلسطینی مجاہدین پرعائد کردیا تھا۔چھتیس صفحات پر مشتمل اسرائیلی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فرانسیسی چینل ”فرانس 2“ کے اس الزام نے کہ اسرائیلی فوجیوں نے محمد الدرہ کو قتل کیا انتہائی تباہ کن تھا۔ اس الزام کے بعد فلسطینی حریت پسند(مجاہدین) کئی سال تک اسرائیل اور امریکی اہداف کو نشانہ بناتے رہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ ویڈیو فلسطینیوں کو دہشت گردی اور یہودی منافرت کا جواز فراہم کرتی رہی ہے۔فلم کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد اسرائیلی رپورٹ میں کہا گیا ”اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ اسرائیلی فوج کسی بھی طریقے سے مبینہ نقصان کی ذمہ دار ہے“ رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ بات انتہائی مشکوک ہے کہ لڑکے اور اس کے والد کے اطراف پڑے ہوئے گولیوں کے خول اسرائیلی جانب سے برسائی گئی گولیوں کے ہوں۔اسرائیلی دستاویز میں سوال اٹھایا گیا کہ آیا یہ فوٹیج اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ فلم میں دکھائے گئے مناظر میں ان دونوں کو کوئی نقصان ہوا۔”اس چیز کی ضرورت ابھی باقی ہے کہ اس رپورٹ کے تباہ کن اثرات کے ازالے کی جانب پہلا قدم اٹھاتے ہوئے اس رپورٹ کو اعلانیہ درست کیا جائے اور فرانس 2 چینل کا موقف واضح کیا جائے“ اسرائیلی رپورٹ میں مزید کہا گیا۔ادھر غزہ میں شہید محمد الدرہ کے والد جمال الدرہ نے اس نئی اسرائیلی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے ایک ”نئی ملمع سازی“ قرار دیا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے ”رائٹرز“ کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں کہ” ان کے ساتھ کیا ہوا تھا اور کیسے ہوا تھا“ عرب کو بھی شامل کر کے عالمی تحقیقات کی جانی چاہیئں۔اسرائیل کی اس رپورٹ کے رد عمل میں ”فرانس 2“ نے اس ضمن میں عالمی معیار کے مطابق کسی بھی آزاد اور پیشہ وارانہ تفتیش میں شریک ہونے کے ارادے کا اظہار کیا ہے۔ فرانسیسی چینل کا کہنا ہے کہ محمد الدرہ کی موت کے حالات کو جانچنے اور واضح کرنے کے لیے وہ اس لڑکے کی قبر کشائی میں تعاون کے لیے بھی تیار ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے اس قسم کا مطالبہ انتہائی احمقانہ ہے ، اسرائیل اس قسم کے شوشے چھوڑتا رہتا ہے۔اسرائیل کی جانب سے مظلوم فلسطینیوں پر ہونے والا ظلم روز روش کی طرح عیاں ہے۔اسرائیل نے فلسطین کی سرزمین پر ظالمانہ طور پر قبضہ کیا اور فلسطینیوں پر بے تحاشہ ظلم کیا ہے۔محمد الدرہ کو بہیمانہ طور پر شہید کرنا اسرائیل سے بالکل بھی بعید نہیں ہے۔اسرائیل کے ناجائز قیام کے وقت صرف چند دنوں میں اسرائیل نے پندرہ ہزار فلسطینیوں کو شہید کردیا تھا۔اسرائیل تاریخی فلسطین کے 85 فیصد حصے پر قبضہ کر چکاہے۔ یہودی ہر قانونی اور غیر قانونی طریقے سے بے تحاشہ فلسطین میں داخل ہوئے ۔صیہونی ایجنسی نے ان کو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں فلسطین میں گھسانا شروع کر دیا اور مسلح تنظیمیں قائم کیں، جنہوں نے ہر طرف ماڑدھاڑ کرکے عربوں کو بھگانے اور یہودیوں کو ان کی جگہ بسانے میں سفاکی کی حد کر دی۔فلسطین کے ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی ریاست کے قیام کے وقت اسرائیل نے 774 فلسطینی شہروں اور دیہاتوں پر قبضہ کیا ، جن میں سے 530 کو ملیامیٹ کردیا تھا۔ اسی طرح فلسطینیوں کے قتل و غارت گری کے 70 بڑے واقعات رونما ہوئے تھے۔مئی 1948ءمیں قیام اسرائیل کے موقع پر یہودی جتھوں نے فلسطینیوں پر حملے کرکے پندرہ ہزار سے زائد افراد کو شہید کیا۔ تاریخ کے اس اندوہناک سانحے کے موقع پر آٹھ لاکھ سے زائد فلسطینیوںکو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ 2012 کے آخر تک فلسطین کی کل آبادی کا 44.2 فیصد مہاجرین پر مبنی تھی۔ اس طرح اب تک اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورک ایجنسی (UNRWA) میں رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد 53 لاکھ ہو چکی ہے جو دنیا بھر میں بسنے والے تمام فلسطینیوں کا 45.7 فیصد ہے۔59 فیصد فلسطینی مہاجرین اردن، شام اور لبنان میں رہائش پذیر ہیں، 17 فیصد مغربی کنارے اور 24 فیصد غزہ کی پٹی میں ہیں۔ مہاجرین کا 29 فیصد 58 مہاجر کیمپوں میں آباد ہے۔فلسطین کی آبادی 1948 میں 13 لاکھ ستر ہزار تھی جب کہ 2012 کے آخر میں یہ آبادی ایک کروڑ سولہ لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ اس طرح دنیا بھر میں موجود فلسطینیوں کی تعداد قیام اسرائیل سے لے کر اب تک ساڑھے آٹھ گنا بڑھی ہے۔ فلسطینی ادارہ شماریات کے مطابق 1948ءمیں فلسطین کے بڑے حصے پر اسرائیل کے قبضے کی وجہ سے فلسطینیوں نے غزہ کی جانب ہجرت کی اور غزہ کی پٹی دنیا کی سب سے گنجان آباد علاقہ بن گئی۔ اس طرح اس کی گنجانیت نام نہاد اسرائیل سے 11 گنا اور مغربی کنارے سے 10 گنا زیادہ ہے۔ 2012 کے آخر میں فلسطین میں فی کلومیٹر 724 افراد بستے تھے، اس میں غزہ کے ہر کلومیٹر مسافت میں 4583 جبکہ مغربی کنارے کے ہر کلومیٹر میں 475 افراد رہائش پذیر ہیں، دوسری جانب اسرائیل کی گنجانیت فی کلومیٹر 369 افراد ہے۔2012 کے آخر تک مغربی کنارے میں یہودی آبادیوں اور بستیوں کی تعداد 482 ہوچکی تھی، 2011 کے آخر تک مغربی کنارے میں آباد یہودیوں کی تعداد پانچ لاکھ 37 ہزار ہو چکی تھی۔ 49.8 فیصد یہودی آباد کار القدس میں بستے ہیں، ان کی تعداد 20 لاکھ 68 ہزار تک جا پہنچتی ہے۔ ۔ مغربی کنارے میں اس وقت ہر سو فلسطینیوں کے مقابلے میں 21 یہودی آباد ہیں۔ جبکہ القدس میں یہ نسبت ہر 100 فلسطینیوں کے مقابلے میں 68 یہودیوں کی ہے۔

واضح رہے کہ اس قسم کے واقعات ہر ان ملکوں میں بھی پیش آتے رہتے ہیں جہاں عوام اسلام کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں۔گزشتہ روز تیونس کے دارالحکومت کے نواح میںجماعت انصارالشریعہ کے سیکڑوں حامیوں نے حکومت کی جانب سے سالانہ اجتماع کی اجازت نہ ملنے پر احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر اشک آور گیس کے گولے پھینکے ہیں جس کے بعد مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں چودہ افراد زخمی ہوئے۔ انصارالشریعہ نے اتوار کو وسطی شہر قیروان میں سالانہ اجتماع کی اجازت نہ ملنے پر اپنے حامیوں کو دارالحکومت کے نواحی علاقے اعتضمن میں جمع ہوکر احتجاج کی اپیل کی تھی۔واضح رہے کہ تیونس میں سابق آمر صدر زین العابدین بن علی کی حکومت کے خاتمے کے بعد مختلف اسلامی گروپ سر گرم ہوچکے ہیں اور وہ آئے دن احتجاجی مظاہرے کرتے رہتے ہیں لیکن حکومت نے گزشتہ چند ماہ سے نفاذ اسلام کا مطالبہ کرنے والے اسلامی گروپوں کے بارے میں سخت موقف اختیار کیا ہوا ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 635395 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.