اور تبدیلی آگئی

جی ہاں تبدیلی آچکی ہے مگر خوش آئندہ تبدیلی نہیں بلکہ فکر آموز تبدیلی اگر کسی کو یقین نہ آئے تو حالیہ الیکشن کے حالات اور اس سے پہلے کہ میوزیکل جلسے دیکھ لیں جس میں بظاہر پڑھا لکھا سوشل کلاس طبقہ﴾ جو کہ ملک کو سونامی میں ڈبونے کےلئے پر امید تھا ﴿ کا جوش وخروش دید نی تھا ۔ کہیں ملک کے ہر بحران کو چند مہینوں میں ختم کرکے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے وعدے تھے تو کہیں مخالف سیاستدانوں کو بلے سے پھیٹیاں لگانے کی تیاریاں عروج پر تھیں ۔ ملک پاکستان خالق و بانی حضرت قائد اعظم رحمتہ اﷲ علیہ اور علامہ اقبال رحمتہ اﷲ علیہ کی ارواح کو یہ باور کرنے کی کوشش کی جارہی تھی کہ جو پاکستان آپ نے بنایا وہ ہمیں منظور نہیں ہم ایک نیا پاکستان بنائیں گے بیرونی قرضوں اور امداد کے بوج تلے دبے ہوئے عوام کے دکھ درد کا خیال کرنے والے حکمران اور حکمرانی کے خواہش مند غریبوں کو خسرہ جیسے موزی مرض میں مبتلا ہو کر مرتے دیکھتے رہے مگر ان کی توجہ صرف اور صرف اربوں روپے کے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا اور چلنے والے انتخابی اشتہارات پر مبندول رہی اور بہت ہی ثابت قدمی سے ایک دوسرے کو شکست دینے کےلئے جھوٹے وعدے اور ارادے کرتے نظر آئے۔

میری بالغ زندگی کا یہ تیسرا الیکشن تھا مگر اس الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ پچھلے دو الیکشن میں ، میں نے نہ دیکھا اور نہ سنا۔ ایک آمر کے دور میں قائم کیا گیا سوشل میڈیا اور آزاد میڈیا انتخابی مہم کے سلسلے میں جمہوریت کے دعویدار وںنے بڑی خوبی سے استعمال کیا یہ خوبی صرف مخالفین کو زیر کرنے کے لئے استعمال کی گئی سوشل میڈیا پر عوام نے بعض سیاستدانوں کو 90% کامیابی کے ساتھ ساتھ کلین سوئیپ کی گرین چٹ بھی دے دی مگر اس انتخابی مہم کے دوران ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی جو روایت قائم کی گئی اس کی وجہ سے نوجوان نسل اخلاقیات کی پستیوں میں مسلسل گر رہی ہے ۔ سوشل میڈیا ، فیس بک اور ٹیوٹر جہاں نوجوانوں میں دوستی یاری بڑھانے اور نئے نئے فیشن اوراسٹائل شیئر کرنے میں مقبول ہے وہیں پر یہ مواصلاتی ذریعہ قوم کو " ماموں" بنانے کےلئے استعمال کیا گیا جس کے ذریعے سیاسی لوٹوں کے جوڑ توڑ سے بنائی گئی ایک پارٹی نے اس وقت کے موجودہ حکمرانوں کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کے ساتھ ساتھ عوام سے ان کے ہر مسئلے کا حل صرف چند دنوں میں کرنے کا وعدہ کیا ۔

اسی جماعت کے نزدیک اس میں شامل ڈرون حملوں کی اجازت دینے والے ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ریمنڈ ڈیوس کو امریکہ کو حوالے کرنے والے سابق وزیر خارجہ اور جعلی ڈگری ہولڈر کے خلاف ہر قسم کی کاروائی میں سیسہ پلائی دیوار بننے والے سابق وزیر تعلیم اور دیگر مفاد پر سیاست دان اس جماعت میں شامل ہونے کے بعد دودھ سے دھل کر اپنے کیے ہوئے گناہوں سے بری الزما ہوگئے اور ان کے سیاسی مخالفین پاکستان کی بربادی کے ذمہ دار ٹھہرے۔

الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی غریب عوام کی افلاس کا مذاق اڑانے کےلئے کروڑوں روپے میڈیا تشہیر پر خرچ کردیئے گئے پھر آگیا 11 مئی جب عوام نے اپنا فیصلہ اپنے لوگوں کے حق میں دیا جو غم اور خوشی میں عوام کے درمیان برسوں سے رہ رہے تھے اور عوام بخوبی سمجھ سکتے ہیں جو انسان افطار پارٹی میں کھانے پر لڑتا ہوں ،جس جماعت کے کارکن ٹکٹ تقسیم پر گھتم گھتا ہوں بھلا وہ اس ملک کو بحران سے کیسے نکال سکتے ہیں۔ عوام نے مفاد پرست مصنوعی تبدیلی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انہیں لوگوں کو منتخب کیا جن پر ان کا برسوں سے اعتمادبرقرار ہے ۔ سونامی کا واویلا کرنے والے کھلے دل اور زہن سے شکست تسلیم کرنے کے بجائے دھاندلی کا رونا روتے ہوئے مخالفین کو گالیاں دیتے ہوئے نظر آئے ۔ خود پر پڑھے لکھے اپر کلاس کا لیبل لگا کر جھوٹ بولنے والے آج فیس اور ٹیوٹر پر سیاسی جماعتوں کے قائدین اور میڈیا کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرکے اپنا سیاسی اوراخلاقی قد اونچا کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔

گزشتہ روز ناروال سے بری طرح ہارنے والے 42سالہ تحریک انصاف یوتھ کے صدر جناب ابرار الحق شکست تسلیم کرنے کے بجائے ایک نجی ٹی وی میں قوم کے معمار تعلیم و تدریس کے مقدس شعبے سے وابستہ استادوں کو بیکاﺅ مال قرار دے کر اس پیشہ کی توہین کے مرتب ہوئے جس سے وہ گلوکاری سے پہلے خود بھی منسلک رہے ہیں۔

اسی نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں تحریک انصاف کی مرکزی رہنما فوزیہ قصوری صاحبہ نے ایک جعلی اخباری کالم کو معروف کالم نویس جناب جاوید چوہدری کے نام سے منسوب کرتے ہوئے دعوہ کیا کہ میڈیا بھی پنجاب میں ہونے والی دھاندلی میں ان کے ساتھ ہے مگر چند منٹ بعد ہی اسی پر وگرام میں جاوید چوہدری صاحب نے ایسے کسی کالم سے وابستگی کی تردید کردی۔

پاکستانی سیاست کی یہ روایت رہی ہے کہ جہاں سے ہم نہیں جیتے وہاں دھاندلی اور جہاں سے ہم سے کوئی جیتا نہیں وہاں الیکشن شفاف اور آزاد ہوئے۔

چلیے کچھ دیر کےلئے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ڈیفنس پنجاب لاہور اور ڈیفنس کراچی میں ا گر دھاندلی کی گئی تو میرے عزیز ہم وطنوں لاہور اور کراچی میں ڈیفنس کے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ حلقے کی کل آبادی کا 20% ووٹ بینک ہے 20% حق رائے دہی کا احترام کرتے ہوئے 80% عوام کے فیصلے کو مسترد کیاجاسکتا ہے ؟

نہیں کیونکہ کہ جمہوریت میں اکثریت کا احترام کیا جاتا ہے اور اکثریت نے پنجاب اور وفاق میں جناب نوازشریف اور کراچی اور سندھ کے دیگر بڑے شہروں میں جناب الطاف حسین کو اپنا لیڈر اور رہنما منتخب کیا۔

قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 250 اور سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 112 اور 113 میں تحریک کے انصاف کے امید وار اور مرکزی رہنما ڈاکٹر عارف علوی صاحب رزلٹ تسلیم کرنے کے بجائے دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں جب کہ موصوف خود الیکشن والے دن ٹیوٹر پر خود بیلٹ بکس اور پولنگ اسٹیشن پر پہنچانے کا اعتراف کرچکے ہیں۔

کیا الیکشن کمیشن میڈیا اور دیگر حکومتی اداروں کو نہیں خبرکے امیدوار کا پولنگ کا سامان پریذائڈنگ آفیسر سے تحویل میں لینا اور پولنگ اسٹیشن پہنچانا خلاف قانون ہے؟

کیا اس کھلم کھلا دھاندلی کے خلاف ایم کیو ایم بھی دھرنا دینے کا حق نہیں رکھتی؟

اس تمام صورتحال کے باوجود ملک پاکستان کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں مسلم لیگ (ن) اور متحدہ قومی موومنٹ کے قائدین کا ظرف اور برداشت اور پر امن پاکستان کی ضامن حکمت عملی بلاشبہ لائق تحسین ہے ۔ یہی سیاست بصیرت پاکستان کے بہتر مستقبل اور خوشحالی کی وجہ بنے گی۔

تمام سیاسی اکائیوں کو اپنی ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر ملک کے وسیع تر مفاد میں اکھٹا ہونا اور نیا پاکستان بنانے کے بجائے موجودہ پاکستان کو سنوانا ہوگا کیونکہ 1971 کے بعد بننے والے پاکستان سے قوم نے ذلخراش سبق سیکھاہے جوکہ خدانخواستہ دہرائے جانے کا متحمل پاکستان کبھی نہیں ہوسکتا۔

شیخ سعدی رحمتہ اﷲ علیہ کا قول ہے کہ " اگر چاہتے ہو کہ تمہارا نام باقی رہے تو اپنے بچوں کو اخلاق سکھاﺅ"

شیخ سعدی رحمتہ اﷲ کے قول اور تعلیم پر عمل پیرا ہو کر ملک پاکستان کی فلاح وبہبود کےلئے مل جل کر کام کرنا ہوگا اور اپنی نوجوان نسل میں ایک دوسر ے کے خلاف نفرتیں ابھارنے کے بجائے محبتیں اور اخلاق کی اعلی سطح کو قائم کرنا ہوگا کیونکہ حالیہ حالات اور واقعات کی وجہ سے اخلاقیات کی گرتی ہوئے شرح کے باعث نوجوانان پاکستان کا نام اقوام عالم میں مزید پستی کا شکار بن رہا ہے۔

ہمیں قوت براداشت مذہبی اور سیاسی ہم آہنگی ،اخوت اور یکجہتی کو فروغ دینا ہوگا تمام سیاسی اور مذہبی اکائیوں کو اپنے کارکنان و رہنماﺅں کے درمیان احترام کا رشتہ مظبوط کرنا ہوگا کیونکہ جب کارکنوں کی تربیت ہوگی تبھی عوام کی تربیت ہوگی اور اگر عوام میں شعوری ، اخلاقی،معاشرتی اور معاشی مثبت تبدیلی اجاگر کردی گئی تو دراصل یہی تبدیلی نیا پاکستان بنانے کی بجائے قائد اعظم کے پاکستان کو سنوارے گی اور ملک کو حقیقی اور پائیدار ترقی کی طرف گامزن کریگی۔

Rao Mansoor
About the Author: Rao Mansoor Read More Articles by Rao Mansoor: 3 Articles with 4289 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.