متعلم ، معلم اور انگریزی زبان

ابرا ہا م لنکن نے کہا تھا ،
ـ" جب مجھے کسی شخص کے سا تھ بحث کر نی ہو تی ہے تو میں اپنے اور جو با ت کہنے وا لا ہو تا ہو ں ، اس کے با رے میں ایک تہا ئی غو ر کر تا ہو ں جبکہ اس شخص پر اور جو کچھ وہ کہنے وا لا ہو تا ہے، اس پر دو تہا ئی غو ر کر تا ہو ں "

ویسے ہی ہما ری یہ بحث جس کا بنیا دی مقصد کسی نتیجے پر پہنچنا ہے لیکن افسو س کہ ہما رے مبا حث نتا ئج سے پہلے دا نستہ نظر اندا ز کر دئیے جا تے ہیں جس وجہ سے ہم منزل پر پہنچے سے پہلے ہی ہا نپنے لگتے ہیں ۔دنیا کے ترقی یا فتہ مما لک کے نصا بِ تعلیم میں بچو ں کو سب سے پہلے یہ سکھا یا جا تا ہے کہ انھو ں نے زندگی کیسے گزا رنی ہے، اخلا قی قدریں کیا ہو تی ہیں، گھر اور سکو ل میں انھو ں نے کس طرح رہنا اور پڑھنا ہے ،معا شرے میں رہنے کے لیے کن کن با تو ں کا خیا ل ضرو ری ہے، قا نو ن کیا ہوتا ہے اور ٹریفک کے قوا نین انسا نی زندگی کے لیے کتنے اہم ہو تے ہیں ان سب با تو ں کو بذریعہ تعلیم بچو ں کے ذہن میں بٹھا دیا جا تا ہے۔

ان مما لک کے نصا ب ِتعلیم میں سب سے پہلے ان با تو ں کو پیش نظر رکھا جا تا ہے جن کی بنیا د پر ریا ست کی تشریح آسا ن لفظو ں میں بیا ن کی جا سکتی ہے۔ اس کے بر عکس ہما رے نصا ب ِتعلیم میں عملی طو ر پر ان قوا نین کو خا طر خوا ہ اہمیت نہیں دی جا تی جس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ ہما رے ہا ں قوا نین کا احترا م سرے سے مو جو د نہیں ۔

ہم ایک عظیم الشا ن مملکت کا خوا ب دیکھتے آئے ہیں لیکن اس خوا ب کی تعبیر میں ہزا رو ں ایسے را ستے ہیں جن کی کو ئی وا ضح منزل ہی نہیں ۔سب سے پہلی با ت تو یہ ہے کہ ہم ابھی تک یہ طے نہیں کر پا ئے کہ بچو ں کو اپنی قو می زبا ن میں تعلیم دینی چا ہیے یا نہیں، اس کی بنیا دی وجہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریزوں کی غلا می کے وہ شعو ری اثرا ت ہیں جن کے اثر میں ہما رے شعو ر نے نصف سے زا ئد صدی کا سفر طے کر لیا ہے۔

آ ئن سٹا ئن نے کہا تھا ! " تخیل علم سے زیا دہ اہم ہے"

ایک بچہ جس کی ما دری زبا ن سرا ئیکی ، پنجا بی ، سندھی ، بلو چی یا پشتو ہے تو وہ قو می زبا ن اردو کو سمجھنے اور بو لنے میں زیا دہ وقت نہیں لیتا لیکن جب اس پر انگریزی زبا ن ٹھو نس دی جا تی ہے تو ایسے میں وہ کسی بھی طرح تخلیقی طو ر پر کچھ بھی تخلیق نہیں کرسکتا ۔انگریزی زبا ن کی وجہ سے پچا س فیصد سے زا ئد بچو ں نے تعلیم کو خیر با د کہہ دیا ہے۔ یہ وہ حقا ئق ہیں جن سے جا ن بو جھ کر چشم پو شی کی جا رہی ہے ہما رے شہری اور دیہی علا قو ں میں قا ئم تما م سکو لو ں کا غیر جا نبدا ر ا نہ سروے کر وا لیا جا ئے تو دو دھ کا دو دھ ا ور پا نی کا پا نی ہو جا ئے گا ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیو ں ہو رہا ہے ․․․․․؟ ہما رے ار با ب اختیا ر قو می زبا ن کی اہمیت سے منحرف ہو کر ایسی تعلیمی اصطلا حا ت کا نفا ذ کیو ں کر نا چا ہتے ہیں جن سے قو م جا ہل اور پسما ندہ رہ جائے ۔ جب تک بچہ اپنا ما فی الضمیر بیا ن کر نے سے قا صر رہے گا ہم اس کی خدا دارصلا حیتیوں سے رتی برابر فا ئدہ نہیں اٹھا سکیں گے اور وہ جو کچھ سو چتا ہے ، سمجھتا ہے یا بو لتا ہے وہ کسی ایسی زبا ن میں ہو نا ضروری ہے جو ہماری اپنی اور اسی طرز ِمعاشرت کی عکا س ہو ۔

نصا ب ِتعلیم میں بچو ں کے رو ز مرہ زندگی گزرا نے کے آدا ب ، قوا نین اور اخلا قیا ت کے سا تھ سا تھ مذہبی اقدا ر کے مو ضو عا ت ہو نے چا ہیں جس سے بچو ں کے اندر شعو ری طو ر پر ایک ایسی مثبت پختگی پیدا ہو تاکہ وہ ریاست کے مفید شہری بن سکیں۔ ابتدا ئی سطح پر بچو ں میں یہ سو جھ بو جھ پیدا ہو جا ئے کہ انھو ں نے زندگی کیسے بسر کر نی ہے وہ صر ف ایک ایسی زبا ن میں ممکن ہے جو ہر اعتبا ر سے قا بل فہم اور قا بل ِبیا ن ہو ۔ پڑھا ئے جا نے وا لے تما م مو ضو عا ت کا اُردو زبا ن میں ہو نا ہی معلم اور متعلم دو نو ں کی شعوری بقا ء کا وا حد ذریعہ ہے۔

انگریزی زبا ن کے نفا ذ کے بعد خصو صی طو ر پر سر کا ری تعلیم ادا رو ں میں تعلیم نا ہو نے کے برا بر رہ گئی ہے۔ معلم اور متعلم دو نو ں بری طرح متا ثر ہو رہے ہیں جس سے ہما رے ترقی کی جانب بڑھتے قدم رک چکے ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کا ادرا ک ہر فر د کو ہے۔ مسلسل چشم پو شی کی وجہ سے یہ مسلۂ آنے وا لے چند سا لو ں میں ہی ہما رے چہرو ں پر پڑے خود ساختہ تمام نقا ب اُلٹ دے گا ۔

انگریزی زبا ن کا نفاذ اور تر ویج کسی ایک گا ؤ ں یا کسی ایک شہر کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ پو رے ملک کا مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے ضرو ری ہے کہ فی الفو ر انگریزی ذریعہ تعلیم کی بجا ئے اُردو ذریعہ تعلیم را ئج کیا جا ئے تا کہ ہم خو د شنا سی سے آنے وا لے کل کا تعین کر سکیں۔

اگر ہما ری دا نستہ چشم پو شی سے یہ ممکن نہ ہو اتو ہم تخلیقی و تحقیقی ہر دو اعتبا ر سے اپنی مو ت آپ مر جا ئیں گے۔
کا رل ژو نگ نے کہا تھا !
" جذبے کے بغیر تا ریکی کو رو شنی میں اور جمود کو حرکت میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا "

Jamshed Sahil
About the Author: Jamshed Sahil Read More Articles by Jamshed Sahil: 7 Articles with 6642 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.