کرناٹک میں تبدیلی مودی کےلئے بدشگونی

کرناٹک میں سدّارمیا نے 13 مئی کو نئے وزیراعلاکے منصب کا حلف لے لیا اور جنوب میں بھاجپا کی پہلی سرکار اپنے المناک انجام کو پہنچ گئی۔ رسم حلف برداری میں جتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوئے اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ عوام کو اس تبدیلی سے کتنی زیادہ توقعات ہیں۔ خداکرے یہ تبدیلی ریاست کو راس آئے اور عوام کوراحت کا سانس آئے۔ لیکن تنہا وزیراعلا کی تقرری اور ساتھ میںچند دیگر وزیروں کی حلف برداری سے گریزنے کچھ اچھا پیغام نہیںدیا۔کیا مطلوب صرف سیاسی تبدیلی ہی ہونا چاہئے یا اہمیت اس بات کوبھی دی جانی چاہئے کہ انتظامیہ ایک دن کے لئے بھی مفلوج نہ رہے؟ابتدائی ایام میں نئے لیڈر کی دیگر مصروفیات بھی کم نہیںہوتیں اور یہ توقع بھی نہیں کی جاسکتی کہ تنہا کوئی ایک شخص تمام اہم فائلوں پر بروقت مناسب فیصلے لے سکتا ہے۔ چنانچہ چند دیگر وزیروں کی تقرری ضروری ہوا کرتی ہے۔ اب جب تک کابینہ نہیں بنے گی، بہت سی اہم فائلوں پر فیصلے ملتوی رہیں گے اور انتظامیہ مفلوج رہیگا یا نوکر شاہی کو اپنی من مانی کا موقع ملتا رہیگا۔ کیا اس سے یہ اشارہ نہیں ملتا کہ وزیر اعلا نے یہ تاثر دینا چاہا ہے کہ پارٹی میں کسی لیڈر کا قد ان کے دائیں بائیں بھی نہیںجس کو بڑے مجمع میں اپنے ساتھ حلف دلواتے؟ ان میں خود اعتمادی کی کمی ہے اور نہیں چاہتے کہ کوئی دیگر لیڈر ان کے ساتھ منظرعام پر نظرآئے؟مسٹر رمیا دل بدل کر جنتادل ( ایس) سے کانگریس میں آئے ہیں۔ اچھا ہوتا کہ وہ پارٹی کے چند پرانے سینئر لیڈروں کے ساتھ ہی حلف لیتے جس سے ان کے بیرونی ہونے سے جو کدورت دلوں میں ہے وہ دفع ہوجاتی۔

حلف برداری کے بعد مسڑرمیا نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں جو اعلانات کئے ہیں ان سے لگتا ہے کہ وہ ابھی انتخابی مہم کی نفسیات سے باہر نہیں آئے ۔ ان اعلانات میں دددھ پیدا کرنے والوںکے لئے ۴ روپیہ فی لیٹر سب سیڈی اور خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے لئے ایک روپیہ فی کلو چاول کی خوشخبری شامل ہے۔ ہندستان میں خط افلاس کی تعریف بڑی مضحکہ خیز ہے۔ یہ طے پایا ہے کہ شہر میں یومیہ ۶۶ روپیہ 10 پیسہ اور دیہات میں 35 روپیہ دس پیسہ سے کم پر گزارہ کرنے والا ہی مفلس ہے۔ باقی سب غنی ہیں۔وزیراعلا کا چاول فراہمی کا یہ وعدہ غربت کا مداوا نہیں۔ غریب کی مدد یہ ہے کہ اسے بھیک نہیں روزگار ملے۔ نئے وزیراعلا کی اس اعلان سے اندازہ نہیںہوا کہ وہ سستے نعروں سے باہر نکل کر روزگار کا مسئلہ حل کرنا ان کی ترجیح میں شامل ہے۔ تاہم ان کے اس عندیہ کا خیر مقدم کیا جائیگا کہ وہ بھاجپا کے دور میں منظور شدہ اس بل کو واپس لیں گے جس کی بدولت مویشیوں کی تجارت اور گوشت کی فراہمی تقریباً ناممکن ہو گئی۔ بھاجپا کے اس بل کا کوئی تعلق معقولیت یا شہریوں کی ضرورت سے نہیں بلکہ صرف مذہبی جذبات کا استحصال سے ہے۔بڑے مویشی کا گوشت غریب عوام کی پروٹین کی فراہمی کا ایک اہم زریعہ ہے اور حکماءاس رائے پر متفق ہیں کی صرف صحت مند مویشی کا گوشت ہی صحت کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے، بوڑھے اور ناکارہ مویشی کا گوشت فائدہ مند نہیں ہوتا۔

اس بار سابق کے مقابلے چار مسلم ممبران زیادہ چن کر آئے ہیں ہے اوران کی تعدادسات سے بڑھ کر گیارہ ہوگئی ہے، جن میں نو کانگریس کے اور دو جنتادل(ایس) کے ہیں۔ دس مسلم امیدوارمعمولی فرق سے ہارے اور پانچ تیسرے نمبر پر رہے۔ کئی مسلم امیدوار ایسے حلقوں سے جیتے ہیں جن میں مسلم آبادی معمولی ہے اور انہوں نے بھاجپا امیدواروں کو ہرایا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے ریاست کی اکثریت فرقہ پرستی کے اس زہر سے محفوظ ہے جس کو سنگھ پریوار پھیلانے کی جدوجہد کررہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی کابینہ میں مسلم نمائندگی ان کی شرح آبادی کے متناسب ملتی ہے یا نہیں اور جو لوگ کابینہ میں لئے جاتے ہیں وہ ریاست کے مجموعی مسائل کے ساتھ انتظامیہ میں اقلیت کے خلاف تعصبات کو فرو کرنے میں کیا مثبت کردار ادا کرتے ہیں ؟

ان انتخاب میں جیسا کہ خود بھاجپا قیادت کوپہلے سے احساس تھا ، عوام نے ان کو مستردکردیا ہے۔ یہ شکست قومی سیاسی منظرنامے میں اس تبدیلی کی جانب ایک اور قدم ہے جوگزشتہ اسمبلی انتخابات میں ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ سے شروع ہوئی تھی۔اس شکست کے سارے اسباب مقامی نہیں بلکہ کچھ قومی بھی ہیں جن کا ذکر آگے آئیگا۔ اہم پہلو اس کا یہ ہے ان سنگھی لیڈروں کے ہاتھ مایوسی آئی ہے جو گجرات میں بھاجپا کی لگاتارتیسری جیت کے بعد یہ تاثر دے رہے تھے ، گویا ملک میں ہندتووا کی لہر چل پڑی ہے اور مودی کاقد اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب گجرات کے باہر بھی انکا جادو چلے گا۔ا ن کو کرناٹک کی انتخابی مہم میں امید کے ساتھ اتاراگیا تھا کہ ان کا سخت گیرہندتووا چہرہ پارٹی کی نیا پار لگادے گیا،جس سے دہلی کا تخت قریب آجائیگااور وزیراعظم کے منصب کے لئے ان کی دعویداری میں دم پڑ جائیگا مگر کرناٹک کے رائے دہندگان نے مونگیری لال کے سپنوں کو بکھیردیا ہے۔

ہرچند کہ گجرات سے باہر مودی کی عدم مقبولیت کا اندازہ گزشتہ سال کے اسمبلی انتخابات میں بھی ہوگیا تھا ۔ کرناٹک کی طرح ان ریاستوں میں بھی پارٹی کو ان تمام سیٹوں پرناکامی ہاتھ آئی تھی جن میں مودی کے جلسے کرائے گئے تھے۔ اس رجحان پر کرناٹک کے عوام کی تازہ مہر سابقہ کے مقابلے زیادہ اہم اس لئے ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے بشمول پارٹی صدر ر اج ناتھ سنگھ ، کئی لیڈر ان کو قومی سطح پر ابھارنے کی مہم میںلگے ہوئے ہیں۔ ان لیڈروں کو شاید اسمبلی چناﺅ میں پارٹی کی شکست سے زیادہ صدمہ اس بات کا ہو رہا ہوگا کہ مودی کی ”قومی قیادت“کا سپنا بکھرگیا ہے۔

ان نتائج کے بعد سے مودی اور مودی نوازوں کی سٹی پٹی گم ہے مگر وہ اس ناکامی کو بنسل اور اشونی کمارکی بدنامی مہم سے چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس مہم کے چلتے الیکڑانک میڈیا نے بھی کرناٹک کے نتائج کو اہمیت نہیں دی اور مسلسل مرکز کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔جیسا کہ اندازہ تھا ان دووزیروں کے استعفے کے بعد اب وزیراعظم پر حملے تیزکردئے گئے ہیں۔اس کی وجہ یہ نہیں کہ من موہن سنگھ نے واقعی کوئی خطا کی ہے بلکہ یہ ہے کہ گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں این ڈی اے شکست کااصل سبب یہ قرارپایاتھا کہ وزیراعظم کی شبیہ بے داغ ہونے کی وجہ سے یوپی اے دوبارہ کامیاب ہوگئی۔ چنانچہ اس بار ان کی شبیہ کو داغدار کرنا، بھاجپا کی انتخابی حکمت عملی کا اہم نکتہ ہے اور اس مہم کو نہایت بے شرمی سے چلایا جارہا ہے حتٰی کہ یہ بھی خیال نہیںکیا جارہا اس سے بیرون ملک ہند کی شبیہ خراب ہوگی اور قومی مفادات پر اس کی شدید زد پڑیگی۔

یہ اسمبلی انتخاب راج ناتھ سنگھ کی قیادت کے لئے بھی کسی امتحان سے کم نہیں تھے۔ اگرچہ یہ طے ہوچکا تھا کہ نتن گڈکری کو ہی دوبارہ پارٹی کا قومی صدر بنایا جائے گا مگر آخری لمحوں میں ان کو باہر کا راستہ دکھا کر راجناتھ سنگھ کوصدرچن لیا گیا۔ان کا تعلق شمالی ریاست اترپردیش سے ہے جس کے وہ وزیراعلا رہ چکے ہیں، مگر وہ ایسے وزیر اعلا ثابت ہوئے جس کے بعد ریاست سے پارٹی کا ہی صفایا ہوگیا۔ پارٹی کے قومی صدر کی حیثیت سے بھی ان کا سابقہ ریکارڈ مایوس کن رہا۔پارٹی نے سابق پارلیمانی الیکشن ان کے ہی صدارتی دور میں لڑا تھا۔ انہوں نے انتخابی مہم شروع ہونے سے بھی پہلے بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھا کہ دہشت گردی چناﺅ کا اصل مدعا ہوگا۔ مگر فوراً ہی سنگھی دہشت گردوں کی گرفتاری سے یہ مدعا الٹے انکے گلے کی ہڈی بن گیا اوراین ڈی اے کی فتح کی روز نئی پیش گوئی کے باوجود من موہن سنگھ کی ”کمزور“ قیادت میں یوپی اے دوبارہ جیتی اور ”مرد آہن “ آڈوانی جی اور راجناتھ سنگھ کی قیادت میں بھاجپا کو شکست اٹھانی پڑی۔

اگرچہ مسٹر راجناتھ سنگھ راجپوت کسان کے فرزند ہیں اور فزکس میں فرسٹ کلاس ایم ایس سی ہیں، مگرسَنگھ نے ان کو کمسنی میں ہی اچک لیا تھا اور وہ 13 سال کی عمر سے ہی شاکھاﺅں میں جانے لگے تھے ۔ یہ سبق انہوں نے اسقدر ازبر کرلیا ہے کہ ان کو رام مندراور ہندتووا کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ بین اقوامی امور کی ان کی سمجھ کو اگر طفلانہ کہا جائے تو بیجا نہیں ہوگا۔بات بات میں باجپئی جی کی مدح سرائی کے باوجود وہ سنگھی فلسفہ کے اس طرح اسیر ہیںکہ جب بھی ملک کی مغربی یا شمالی سرحد پر کوئی واقعہ ہوتا ہے، وہ فوراً پڑوسی ملکوں کو سبق سکھانے کی رٹ لگانے لگتے ہیں۔ کرناٹک کے عوام نے ان کی قیادت اور سیاسی سمجھ کو مستردکردیا ہے اور بتادیا ہے کہ اصل مسئلہ رام مندر نہیں، شری رام تو بغیر” بھووَے مندر“کے لاکھوںسال سے عوام کے آئیڈیل ہیں، اس کے بجائے ان کا اصل مسئلہ امن و اتحاد ،پرامن بقائے باہم ، روزگار، خوشحالی اور بچوںکا محفوظ متسقبل ہے، پڑوسیوں کے خلاف جنگ کا جنون نہیں۔

مرکز میں بھاجپا نے جو اڑیل رویہ اختیار کررکھا ہے عوام اس سے بھی نالاں ہیں۔ ہے تو اپوزیشن پارٹی مگر چاہتی یہ ہے کہ سرکار فیصلے اس کی مرضی سے چلے۔ بڑی اپوزیشن پارٹی کی حیثیت سے اس کی ذمہ داری ہے کہ پارلیمانی نظام قاعدے اور وقار سے چلے ۔ ہند کا پارلیمانی نظام برطانیہ کا عکس ہے مگر بھاجپا کا رویہ برطانوی اپوزیشن کے برعکس ہے۔ وہاںاسپیکر کی اجازت کے بغیر کوئی ایک جملہ نہیں بولتا، کبھی ایوان میںشور شرابہ نہیں ہوتا،یہاں کوئی دن بغیر شور وشر کے نہیں گزرتا۔ گرچہ بھاجپاکے پاس اچھے اور لائق مقرر ہیں، وہ چاہے تو ہر مدعے پر حکومت کو گھیرسکتی ہے،مگر جمہوری روایات کی شدید پامالی کواس نے اپنا شعار بنالیا ہے ۔ بس ایک ہی رٹ ہے کہ اجلاس نہیں چلنے دیں گے۔شاید وہ یہ سمجھتی ہے کہ سارا دیش دبنگائی کا پرستار ہے۔ اس کویہ بھی لحاظ نہیں کہ پارلیمنٹ نے قوم سے کچھ وعدے کئے تھے جن کو پورا کرنا اورکرانااس کی بھی ذمہ داری ہے۔ پارلیمنٹ کے قیام کی ساٹھویں سالگرہ کے موقع پر اس نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ اجلاس میں خلل نہیں ڈالا جائے گا۔سوالات کے وقفے میں مداخلت نہیںہوگی۔ اس نے لوک پال بل پاس کرانے اور زمینوں کے ایکوائر کئے جانے کے قانون میں اصلاح کا وعدہ بھی کیا تھا ۔ اس طرح کے اور بھی دسیوں وعدے ہیں، جو وہ قوم سے کرکے بھلا چکی ہے۔ عوام ان سب باتوں کو دیکھتے ہیں اوراس کے اس رویہ سے بیزار ہیں جس کا اظہار انہوں نے کرناٹک اسمبلی کے چناﺅ میں کردیا ہے۔

ان نتائج سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی کی مرکزی قیادت بے اثر ہوچکی ہے اور چند ریاستوں میں ریاستی لیڈروںکے بل بوطے پر کھڑی ہے۔یہ قیادت اتنی کمزور ہے کہ جب راجستھان کی سابق وزیر اعلا وسندھرا راجے سندھیا کو ہٹا نا چاہا تو نہیں ہٹا سکی اور سرکار ہاتھ سے نکل گئی۔ یہی کرناٹک میں بھی ہوا۔ گجرات میں مودی ، مدھیہ پردیش میں شیوراج چوہان اور چھتیس گڑھ میں وزیراعلا ڈاکٹررمن سنگھ کی ہی چلتی ہے۔ مرکزی قیادت دخل اندازی کی ہمت نہیں کرسکتی۔ پارٹی کے ایک لیڈر نے کرناٹک میں شکست کی وجہ آپسی اختلافات کو بتایا ہے۔ یہی صورتحال مرکز میں بھی ہے ، اس لئے پارلیمانی چناﺅ میں کسی دیگر نتیجہ کی توقع کیسے کی جائے؟ صورتحال یہ ہے کانگریس کی ناکامیوں سے بھی پارٹی فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے جس کا اعتراف آڈوانی جی نے بھی کیا ہے۔ سمجھاجارہا تھا کہ بنگلور میں پارٹی دفتر کے سامنے دھماکہ سے ہوا کا رخ بدل جائے گا۔اگرچہ دھماکے استعمال سم کارڈ آر ایس ایس کے بندے کا ہے مگر الزام اقلیتی افراد کے سرہے۔ اس کے باوجود پارٹی اپنے ووٹ بنک کو بچانہیں سکی۔ چنانچہ اس کے ممبر ۰اا سے گھٹ کر40 رہ گئے ہیں۔ییدورپا کی کرناٹک جنتا پکش کے۶ ممبروں کو بھی شامل کرلیا جائے تو بھی یہ تعداد سابق کے نصف سے بھی۹ کم ہے۔بھاجپا نے اپنی اس کو اپنی سیاسی شکست سے تعبیر کیا ہے اور یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ اس شکست کا اگرچہ اندازہ تھا، مگر جیسی شکست ہوئی ہے اس سے سخت دھکا لگا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سے وہ کیا سبق سیکھتی ہے؟ کیا موجودہ روش کو چھوڑ کر خود کو جمہوریت کے اصولوں کا پابند بنالے گی اور جمہوری نظام حکومت میں وہ کرداراداکرےگی جو ایک معقول اپوزیشن کا ہونا چاہئے؟ کیا لوک سبھا چناﺅ تک وہ عوام کو یہ یقین دلاسکے گی کہ اپوزیشن کے اس رول کو دیانت داری سے پورا کررہی ہے جوعوام نے 2009ءمیں اس کو سوپنا تھا؟ جس کے بعد وہ عوام سے یہ استدعا کرنے میں حق بجانب ہو کہ اب اسے حکومت کرنے کا حق سونپا جائے ؟

Syyed Mansoor Agha
About the Author: Syyed Mansoor Agha Read More Articles by Syyed Mansoor Agha: 226 Articles with 164331 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.