میرے گاؤں کا ملال

ہر شام ڈوبتا سورج میرے گاؤں پر اپنی آخری کرنیں نچھاور کرتا اُفق کے اُس پار ڈوب جاتا ہے۔یہ آخری کرنیں دریاکی لہروں پہ اچھلتی کودتی ملاحوں کے چہروں پر اپنی تمازت چھوڑ جاتی ہیں۔بظاہر ڈوبتا ہوا سورج ملال زدہ لگتا ہے جو صرف چند لمحوں بعد ہی پانی میں ڈوب جاتا ہے۔

انسان تو ابتدا سے اُسی ملال کی زد میں چلا آ رہا ہے ۔جب جب میرے گاؤں کے کسان اپنی زرخیز زمین میں کوئی نئی فصل کاشت کرتے ہیں تو اس میں اُن کی محنت اور پسینہ بھی پوری ایمانداری سے شامل ہوتا ہے۔لیکن جب فصل پک جاتی ہے تواس پہ منافع تو ایک طرف لاگت کے پیسے بھی نہیں ملتے۔جس سے ایک ایسا استحصال جنم لیتا ہے جو اُن کسانوں کو نسلوں سمیت گروی رکھ دیتا ہے۔

نہری پانی کی بندش اور بجلی کی عدم فراہمی سے پیداوار نصف سے کم ہوکر رہ گئی ہے کیونکہ حکومتی دعوے عملی طور پر کوئی معانی نہیں رکھتے۔ ایک طرف شوگر ملز مالکان گنے کی قیمت کا تعین کچھ اس انداز سے کرتے ہیں جیسے وہ کسانوں کو بھیک دے رہے ہوں دوسری طرف حکومت اجناس انتہائی سستے داموں خرید کرمہنگے داموں فروخت کر دیتی ہیں جس سے خوش حالی کا خواب اپنی تعبیر سے پہلے ہی دم توڑ دیتا ہے۔

میرے گاؤں کے کسان اپنی حالت کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اجناس کو ترجیح دیتے آئے ہیں وہ بھی صرف اس خیال سے شاید کہ اس سال وہ اپنی محنت کا ثمرپا لیں گے۔ستم تو یہ ہے کہ امسال جب وہ اپنی فصل لے کر غلہ منڈیوں میں آئے تو انھیں مفاد پرستوں نے چاروں طرف سے گھیر کر اُن کی فصل کواُونے پونے خریدلیا اس طرح وہ کسان اپنے بہتر مستقبل کی جانب ایک قدم بھی نہ بڑھا سکے۔آج بھی پانی کی کمی اور بجلی کی عدم دستیابی میرے گاؤں کی خوش حالی کو بد حالی کی جانب دھکیل رہی ہے جس سے ہر شخص چہرے پر برسوں کا ملال جھریوں کی صورت اُبھر آیا۔ کسان برس ہا برس سے قرض کے لقموں پہ زندہ ہیں۔روشن مستقبل کا سفر دائروں کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

گاؤں میں بہتری پیدا کرنے والے بیسیوں لوگ آئے اور آ کر چلے گئے ۔وہ سب گاؤں کے بہتر مستقبل کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ وہ ہر شخص کی زندگی میں بہتری لانے کے وعدے کرتے رہے اور اُس مستقبل اور بہتری کے بدلے جو ان کا پیدائشی حق تھا۔ وہ مکھیا بنتے رہے اور کسانوں کو مزارع اور کاشت کارہی بنائے رکھا۔

پھر کیا ہوااُس گاؤں میں جہاں محبت و پیار اورامن وآشتی کی فصلیں لہلہاتی تھیں،جہاں ہر سو کسان خوش حال تھے اور شب بھر چاندنی رقص کرتی فصلوں میں رنگ بھرتی تھی اب وہاں کچھ بھی باقی نہیں تھا۔

آخر ایک دن دوسرے گاؤں کے مکھیا اپنے مسلح ساتھیوں کے ساتھ اس گاؤں پر حملہ آور ہوئے اورسارے سرسبز کھیت جلا کر راکھ کر دیئے انہی کھیتوں میں بہت سے کسان بھی رزقِ خاک ہو گئے اور جو باقی بچ گئے تھے وہ اپنی اجناس لیے منڈیوں تک آن پہنچے وہاں گدِھوں کے روپ میں بیوپاریوں نے اُن کو نوچ کھایا۔

اب وہاں جا بجا ڈھانچے ہی ڈھانچے بکھرے پڑے ہیں ۔اورحدِنظر جلے ہوئے اور سوکھے شجر پڑے ہیں جو کسی عہد میں پھلوں سے لدے چاندنی راتوں میں جھوما کرتے تھے۔

Jamshed Sahil
About the Author: Jamshed Sahil Read More Articles by Jamshed Sahil: 7 Articles with 6610 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.