سلطانِ عُمان قابوس بن سعید نوبل انعام کے حقدار کیوں نہیں؟

2013ء اقوام متحدہ کی طرف سے پانی کا عالمی سال قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان میں عمان کے سفیر محمد سید الاواتی H.E Mohamed Said Allawati نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں عالمی یوم آب سے قبل نئے تعمیر کردہ واٹر منیجمنٹ ریسرچ سنٹر کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ عمان اور پاکستان کے تعلقات آزمائے ہوئے دوستوں کی طرح ہیں تاہم واٹر منیجمنٹ کے شعبے میں ان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح عمان بھی پانی کی کمی سے مشکلات کی گرفت میں ہے لہٰذا اس ضمن میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے اور ان کے ملک کے بلوچستان کے عوام کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔عمان نے بلوچستان کی بہتری اور بہبود کے لئے تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور دیگر شعبوں میں ترقی کے کئی پیکیج شروع کیے ہیں۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خان نے کہا کہ عمان ان ممالک میں سے ایک ہے جو مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوئے اور پاکستان کو بحران سے نکالنے کے لئے کئی اقدامات کیے۔ بلوچستان کے عوام کی عمان کے ساتھ جذباتی وابستگی ہے کیونکہ ان میں سے کئی پاکستان اور عمان کی دوہری شہریت بھی رکھتے ہیں اور دوست ملک عمان میں اپنے کام اور کارکردگی کا بہترین مظاہرہ کررہے ہیں۔

معاشی ترقی کا ماحول کی بہتری، غربت کے خاتمے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نبٹنے کی صلاحیت کار سے براہ راست تعلق ہے جبکہ معاشی بدحالی کے شکار ممالک میں موسمی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر غریب عوام ہوتے ہیں حتیٰ کہ موسمی تبدیلیوں کے نتیجے میں نجانے کیوں سیلاب کا پانی بھی غریبوں کی بستیوں کا ہی رُخ کرتا ہے؟۔

پاکستان کی ترقی میں گوادر کی بندرگاہ اور سب سے بڑا صوبہ بلوچستان کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے مگر نیت کے فقدان، قیادت کے بحران نے سب کچھ ہوتے ہوئے پاکستان کو عالمی مہاجنوں کا دست نگر بنا رکھا ہے۔ اس ساری صورتحال سے میں فکرمند بھی تھی اور پُراُمید بھی ہوں۔ اسی دوران مجھے ایک روسی مصنف سیرگی پلیخانوف کی ایک کتاب بعنوان مصلح فرمانروا قابوس بن سعید سلطانِ عُمان کا ڈاکٹر سید بشیر احمد کی طرف سے کیا گیا عربی سے اُردو ترجمہ پڑھنے کا موقع ملا۔ اتفاق سے کتاب کے صفحات اُلٹ پُلٹ کرتے ہوئے میری نظر کتاب کے ایک پیرائے پر پڑی جس میں یہ بتایا گیا کہ سلطانِ عُمان قابوس بن سعید خود گاڑی چلاتے ہوئے دارالحکومت اور مضافات کے مختلف مقامات کا معائنہ کرنے کے لئے جب گشت پر نکل جاتے ہیں تو وہ بلدیہ کی طرف سے شجرکاری اور سڑکوں کی صفائی کا ازخود جائزہ بھی لیتے ہیں اور حسب ضرورت نوک پلک بھی درست کرتے ہیں۔ پیچھے کی طرف کتاب کا صفحہ اُلٹا تو ایک اور پیرا پڑھے بغیر میں نہ رہ سکی جس میں روسی مصنف اپنے تاثرات یوں بیان کرتا ہے -

’’اسلام ہی وہ روحانی بنیاد ہے جس پر عمان میں ہونے والی تجدید کا عمل استوار ہے۔ سلطان قابوس کے اب تک کے دور حکومت میں چار ہزار سے زائد نئی مساجد تعمیر کی گئیں یا ان کی مرمت کی گئی۔ دن میں پانچ مرتبہ یہ مسجدیں صاحب ایمان نمازیوں سے بھر جاتی ہیں۔ یہ لوگ اپنے آباؤ اجداد کی طرح اﷲ کے مقررہ کردہ فرائض ادا کرتے ہیں۔ اس کے پیغمبر ﷺ کی سنت کی پیروی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اپنی وطنی روایات پر سختی کے ساتھ کاربند ہیں۔ عرب دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں کے شہری بلا استثنیٰ اس حد تک اپنے رسم و رواج اور ماضی سے ورثے میں پائے جانے والے رہن سہن کے آداب کو سنبھالے ہوئے ہوں۔ وطنی لباس ہی ایک طالب علم سے لے کر ایک وزیر تک بغیر کسی اسنثنیٰ کے سب کا پسندیدہ لباس ہے۔ بڑے افسران اپنے سرکاری کام کاج کو انجام دیتے وقت اس بات کا اہتمام کرتے ہیں کہ اپنے لباس کے اوپر کمر بند پر، اصیل مقامی روایات کی پابندی کی علامت کے طور پر عمانی خنجر باندھے رکھیں۔ عوام کے درمیان ثقافت کے پھیلاؤ اور دینی اور روحانی ورثے کی حفاظت کے لئے کی جانے والی کوششیں عثمان کے حکمراں کی سخاوت کی ایک اور دلیل ہیں۔ ان چیزوں پر خرچ کرنے میں بے شک نفع و نقصان کی کوئی مصلحت پیش نظر نہیں ہوسکتی۔

’’سلطان قابوس کی تخت نشینی کے روزِ اول سے ہی طبی سہولیات اور ہر قسم کی تعلیم مفت میں میسر ہے۔ اس کی وجہ سے تبدیلیوں کی گہرائی اور گیرائی ملک کی تاریخ میں بے مثال ہے۔ یہ تبدیلیاں اس وجہ سے بھی عظیم ہیں کہ یہ بڑی سرعت کے ساتھ رونما ہوئیں۔ اینٹ گارے سے بنے اور چٹائیاں بچھے مکانوں سے نکل کر چمکتے سفید رنگ کی متعدد منزلہ جدید طرز کی ان عمارتوں کی طرف منتقلی، جو جدید فرنیچر، مشینوں اور آلات سے آراستہ ہیں، صرف چند سال کے مختصر عرصے میں عمل میں آئی۔ دور بسنے والے اگر بنیادی تبدیلیوں کی سطح کا اندازہ لگانا چاہیں تو اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ ضروریات کی ہر چیز سے آراستہ تعلیمی اداروں اور طبی مراکز کی شاندار تنظیم و ترتیب کا بچشم خود مشاہدہ کریں۔

ہر وہ بڑا منصوبہ جو عمان کے اندر سلطان قابوس بن سعید کے دور حکومت کے ابتدائی برسوں میں بروئے کار لایا گیا، اپنی جگہ زندگی کے اس متعلقہ میدان میں انقلابی حیثیت رکھتا ہے۔ 1973ء میں بنایا گیا السیب کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ، 17 نومبر 1974ء کو مسقط سے ٹیلی ویژن پروگرام نشر کرنے کا اسٹیشن، بجلی پیدا کرنے کے مراکز، کھارے سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے مراکز، دارالحکومت کوالباطنہ اور الداخلیہ کے خطوں سے ملانے والی خوبصورت جدید شاہراہیں وغیرہ یہ سب وہ منصوبے ہیں جنہوں نے صدیوں پرانے طرزِ زندگی کو بڑی تیز رفتاری سے بدل کر رکھ دیا‘‘۔

میں سوچتی ہوں کہ بنگلہ دیش کے گرامین بنک بنگلہ دیش بنانے والے پروفیسر محمد یونس کو نوبل پرائز دیا جاسکتا ہے تو غربت، جہالت ، پسماندگی میں گھرے ہوئے عمان کو تعلیم و صحت اور تعمیر و ترقی کا رول ماڈل ملک بنانے والے سلطانٍ عُمان قابوس بن سعید نوبل انعام کے حقدار کیوں نہیں؟۔

میں قلات بلوچستان سے تعلق رکھتی ہوں تو میرے لئے یہ بات اور دلچسپی کا باعث بنی کہ قلات اور عمان کے شاہی خاندان کا رشتہ صدیوں پرانا ہے۔ 1783ء میں عمان کے سید سلطان (Saiad Sultan)نے ہجرت کرکے قلات کے شاہ ناصر کے پاس پناہ لی۔ جنہوں نے سید سلطان (Saiad Sultan)کو گوادر اس وقت تک کے لئے پیش کیا جب تک وہ 1797ء میں سلطنت مسقط اپنے بھائی سید (Saiad) 1863ء سے 1879ء گوادر برٹش اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کا ہیڈ کوارٹر رہا۔ 1955ء تک گوادر سلطان کے زیر ملکیت رہا جب گورنر جنرل پاکستان غلام محمد کے دور میں جب ایک برٹش Adjudicator کے ساتھ چوہدری محمد علی نے پاکستان کی طرف سے مذاکرات کیے اور گوادر کے بدلے 55کروڑ روپے ادا کیے گئے۔ معاہدے کی دو اہم شقیں تھیں ایک یہ کہ بلوچستان عمان کی افواج کے لئے فوجی بھرتی کا علاقہ ہوگا جس کے نتیجے میں عمانی افواج کا ایک بڑا حصہ بلوچوں پر مشتمل ہے۔ دوسری شق کے مطابق گوادر کے وسائل کو مزید ترقی دی جائیگی۔ 1955ء میں مکران کا پاکستان سے الحاق کردیا گیا اور اسے ضلع بنا دیا گیا۔ تاہم اس وقت تک گوادر مکران کا حصہ نہیں تھا۔ 1958ء میں گوادر اور اس کے گردونواح کے علاقے مسقط کی طرف سے پاکستان کے حوالے کردیئے گئے جنہیں مکران ضلع کی تحصیل کا درجہ دیا گیا۔ یکم جولائی 1977ء کو ضلع مکران کو ڈویژن کا درجہ دیدیا گیا جو تین اضلاع پر مشتمل تھا تربت جو کہ 1994-95ء سے کچی کہلاتا ہے، پنجگور اور گوادر۔
Farah Azeem Shah
About the Author: Farah Azeem Shah Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.