قومی اثاثے اور قحط الرّجال

پاکستانی حکام نے نیا سلسلہ شروع کر کے حکومتی محکموں کو نجی اداروں کو بیچا ہے۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ملک کے پاس اب ایسا عملہ نہیں رہا کہ بچت کا کوئی امکان باقی رہے۔ اسکی دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اپنا حال بہتر گزارنے کیلئے ملک کے ذمّہ داران نے مکمّل طور پر باہر ملکوں سے دہشتگردی کے نام پر آنے والی رقم پر تکیہ کر کے ملک کا مستقبل داؤ پر لگادیا ہے۔ بہر حال جو کچھ بہی ہو یہ ایک ایسا کام ہے جو ملک کیلئے کسی طرح سودمند نہیں ہے۔

ٹیلی فون کے محکمے کی مثال لیجئے، اب اسکے ملازم نجی محکمے کے ہوکر رہ گئے ہیں اور انکی نوکری کی وہ وضع نہیں ہے جو سرکاری ملازم کی ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ ٹیلیفون کے ایک جوڑ کا ماہانہ ایک مقرّر نرخ تھا جسکو اب نئی تشکیل کے تحت مختلف نام دے کر دگنا کر دیا گیا ہے۔ اسکا نقصان سیدھی طرح انکو پہلے اٹھانا پڑتا ہے جنہوں نے ملکی ٹیلیفون رابطے کے نام پر یہ جوڑ برقرار رکھے ہیں ورنہ اکثر لوگ جیبی فون ہی رکھنے پر ہی اکتفا کرنے لگے ہیں۔

اس قسم کے کاموں کا دور رس منفی نتیجہ اس صورت میں نکل رہا ہے کہ لوگ قومی اثاثوں اور پیداوار سے ناپائیداری کی بدولت کنارہ کرنے لگیں ہیں، مزید برآں بیرونی امداد کے سہارے ہی دائمی طور پر ملک کو مستحکم نہیں رکھا جا سکے گا۔ فی الحال تو بہانہ دھشتگردی کا بناہوا ہے۔
saddam hussain
About the Author: saddam hussain Read More Articles by saddam hussain: 19 Articles with 14757 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.