سر بجیت سنگھ ایک سقہ دہشت گرد

بھارتی دہشت گرد سر بجیت سنگھ جناح ہسپتال لاہور میں 2 مئی کو ہلاک ہو گیا۔ سر بجیت سنگھ پر 26 اپریل کو اس کے دو ساتھی قیدیوں نے حملہ کر کے زخمی کر دیا تھا ۔مدثر اور عامر تانبے والا اُس کے ساتھ سزائے موت کے قیدی تھے اُن کے لیے ایک اور قتل کر دینا کوئی بڑی بات نہیںتھی اور انہوں نے یہ قتل کیا۔ سزائے موت ان کو تب بھی ملنی تھی اب بھی ملے گی لیکن سر بجیت سنگھ نے بھی کئی پاکستانی گھر اجاڑے تھے یہ اور بات ہے کہ ہمارے انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں نے گاہے بگا ہے اُس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار بھی کیا اور اس کے گھر والوں کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی۔ جیو ٹیلی وژن نے تو حسب معمول امن کی آشا کی پتنگ اڑانے کی کوشش کرتے ہوئے اسے دہشت گرد کہنے سے بھی گریز کیا اور اُس کی موت کی خبر دیتے ہوئے نیوز کا سٹر منصور علی خان نے اُسے بھارتی جا سوس کہا۔ جاسوس اور دہشت گرد میں کچھ زیادہ فرق نہیں وہ بھی کسی عمارت کی بنیاد میں چوٹ لگاتا ہے اور عمارت کو نقصان پہنچاتا ہے لیکن دہشت گرد اس کام کے ساتھ ببانگ دہل خون بھی بہاتا ہے اور آج کے دور میں جس طرح دہشت گردی کو مسلمانوں سے منسوب کرنے کی مذموم سازش جاری ہے بلکہ اس لفظ کو اسلام کے مترادف ثابت کرنے کے لیے امریکہ اور اس کے حواری ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ایسے میں ایک سقہ اور ثابت شدہ دہشت گرد کے ساتھ نرمی روا رکھنا ان خاندانوں کا دکھ بڑھانا ہے جن کے افراد اِس دہشت گردی کا نشانہ بنے اور اس جرم میں شریک ہونے کے بھی مترادف ہے۔ دشمن سے ہاتھ ملانے میں مضائقہ نہیں لیکن یہ دھیان رہے کہ وہ آپ کی انگلیاں نہ کاٹ لے جائے یا گلے ملتے ملتے سینہ میں چھرانہ گھونپ دے۔ سربجیت سنگھ نے 1990 میں لاہور اور فیصل آباد میں دھما کے کیے جن میں چودہ افراد شہید ہوئے یعنی چودہ خاندان اجڑے اور اس مکروہ فعل کے بعد وہ بھارت فرار ہوتے ہوئے28 اگست 1990 کو گرفتار ہوا اور چونکہ اس وقت دہشت گرد ی اور دہشت گرد کی اصطلاح ابھی متعارف ہوئی تھی نہ عام یوں بھارت کاشماراولین دہشت گردوں میں ہو نا چاہیے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے سر بجیت سنگھ کو طویل قانونی کا روائی کے بعد مجرم قرار دیا۔ وہ سزائے موت کا قیدی تھا اس کے باوجود جیل میں اُس کے ساتھ جو ہوا اس کو کسی نے اچھا نہ سمجھا نہ کہا کیونکہ سزا اسے قانون دیتا تو زیادہ بہتر تھا لیکن بھارت اور اُس کے میڈیا نے اس سارے معا ملے کو یوں اچھا لا جیسے اس فعل کا کوئی خاص مقصد ہو بلکہ اس کے ڈانڈے افضل گرو سے ملا دئیے۔ سر بجیت سنگھ کے تو زخمی ہوتے ہی اُس کی بیوی، بہن اور بیٹیوں کو پاکستان آنے دیا گیا اُنہوں نے اپنے مقدس مقامات پر جاکر اپنی دعائیں کیں اور انہیں یہاں پوری عزت دی گئی جبکہ افضل گرو کے ساتھ جو ہوا وہ دنیا جانتی ہے اس کی پھانسی اور تدفین جس طرح ہوئی وہ جمہوری بھارت کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔

سر بجیت سنگھ کی ہلاکت کے بعد بھارت کی شر پسندانہ ہندو ذہنیت سے پوری طرح یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ اپنی مجرمانہ خصلت کا ثبوت دے گا اسی لیے پاکستانی دفتر خارجہ نے سربجیت سنگھ کے زخمی ہونے اور ہلاکت کے ساتھ ہی کہہ دیا تھا کہ بھارت میں پاکستانی قیدیوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے لیکن سیالکوٹ کا ثنا اللہ رانجھے ہندو ظلم کا شکار ہو ہی گیا۔ اس کے ساتھ عمر قید کا قیدی ونود کمارجو ایک سابق بھارتی فوجی ہے نے اس پر حملہ کیا اور اسے شدید زخمی کر دیا جس کے جانبر ہونے کی توقع بہت کم ہے بلکہ درحقیقت نہیں ہے۔ ونود نے خود اپنے ایک فوجی ساتھی کو قتل کیا تھا اور اپنے خونی ہونے کا ثبوت دے چکا تھا تو کیا سچ یہ نہیں ہے کہ اُسے استعمال کیا گیا کہ سر بجیت سنگھ کے قتل کا بدلہ لے۔ اشک شوئی کے لیے بھارت نے جموں کی کوٹ بھلوال جیل کے جیلر کو تو معطل کر دیا لیکن کیا وہ دنیا کو یقین دلادے گا کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ تھا اور سر بجیت سنگھ کی ہلاکت کے ساتھ ہی جموں کی جیل میںایک پاکستانی اور ایک بھارتی قیدی کے تعلقات خراب ہوگئے اور عین وہی واقعہ دہرایا گیا جو کوٹ لکھپت لاہور میں پیش آیا۔ ثنا اللہ رانجھے پر بھی بھارت نے دہشت گردی کا الزام لگا یا تھا کہ اُس نے ایک الیکٹرک ٹاور اور سرکاری عمارتوں پر حملہ کیا تھا۔ 1999 میں ہونے والے اس جرم کی سزا اُسے 2008 میں سنا ئی گئی یعنی نو سال تو سزا کے انتظار میں ہی کٹ گئے یہی حال دوسرے پاکستانی قیدیوں کا ہے اِس وقت بھارتی جیلوں میں 220 پاکستانی قید کاٹ رہے ہیں۔ غلطی سے سمندری حدود پار کرنے والے مچھیرے اس کے علاوہ ہیں اور کئی ایک تو اپنی قید کی مدت بھی پوری کر چکے ہیں ان میں ڈاکٹر خلیل چشتی کے ساتھ معمر بلکہ ضعیف ہونے کے باوجود جو سلوک کیا گیا وہ بھارت کے لیے خود باعث شرم ہے۔ پاکستانی جنگی قیدی مقبول حسین کو پنتالیس سال بعد رہا کیا گیا لیکن 1965 کے اِس جنگی قیدی کی زبان جیل میں کاٹ لی گئی تھی۔ آج یہ قیدی کسی کے ذہن میں بھی نہیں ہیں لیکن بھارت نے اپنے اس ثابت شدہ دہشت گرد کو جس طرح کا پروٹوکول دیا اُسکی چتا بندوقوں اور فوجی سلامی میں جلائی گئی بھارت کا یہ فعل بذات خود ہٹ دھرمی ہے کہ وہ دہشت گردی کرتا ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر کرتا ہے اور پھر دہشت گردوں کو اپنا ہیرو بنا کر انہیں عزت و توقیر بھی دیتا ہے اس کا میڈیا بھی اپنے دہشت گرد کے لیے چیخ اٹھتا ہے۔ خود ہمارے اپنے میڈیا نے بھی سربجیت سنگھ کی حالت سے لمحہ لمحہ پاکستانیوں کو باخبر رکھا لیکن پاکستانی قیدی کی خبر کو وہ اہمیت نہیں دی گئی۔ بھارت کے دہشت گرد کو جاسوس کہہ کر اُسکی دہشت گردی کا انکار کرنے والے میڈیا گروپ سے بھی اس بارے میں پوچھ گچھ ہونی چاہیے کہ آخر اس روئیے کی وجہ کیا ہے کیا عوام کا یہ خیال درست ہے کہ اس گروپ میں بھارت کے شیئرز ہیں اور انہی شیئرز پر یہ گروپ قومی مفاد کو بیچ ڈالتا ہے کیا یہ لوگ اس کی وضاحت دینا پسند کریں گے اور ہمارے وزیر اطلاعات عارف نظامی اُن سے یہ سوال پوچھ سکیں گے کہ اگر ہم اپنے قومی مفاد کو اپنی ذات اور کروڑوں اربوں کے بینک بیلنس کی بڑھوتی پر ترجیح دینے لگیں گے تو دنیا ہمارے قومی وقار سے کیوں نہ کھیلے گی۔ اگر چہ پاکستان نے ثنااللہ رانجھے کی پاکستان منتقلی اور پاکستانی قیدیوں کی حفاظت کا مطالبہ تو کر لیا ہے لیکن ضرورت ایک سخت لہجے کی ہے اگر ہمارا لہجہ سخت نہ ہوگا تو اسے ہماری کمزوری ہی سمجھا جائے گا اور کمزوروں کی اس دنیا میں نہ کوئی جگہ ہے نہ عزت اور جو قومیں اپنے قومی وقار کو مد نظر نہیں رکھتی دنیا اس کی عزت کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتی۔ سر بجیت سنگھ ایک دہشت گرد تھا یہ بات بھارت بھی جانتا ہے کیونکہ اُس نے اُسے پاکستان میں دہشت گردی کرنے بھیجا تھا اور پاکستان کا ہر ذمہ دار شخص بھی اس بات سے با خبر ہے کہ وہ ایک قاتل اور دہشت گرد تھا تو اُسے اور اس کے خاندان کو ا س قدر اہمیت دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی حکومت کی تو کوئی مجبوری ہوسکتی ہے آزاد میڈیا کی کیا مجبوری ہے۔

بہر حال معاملہ کچھ بھی ہو سربجیت سنگھ ایک دہشت گرد تھا اجمل قصاب اگر کسی ہمدردی کا حقدار نہیں تھا تو سر بجیت سنگھ کیسے اس سلوک کا حقدار ٹھہرا اگر بھارت نے اس کی آخری رسومات فوجی سلامی میں ادا کیں تو کیوں نہ ہمارا میڈیا بھارت کا اصل چہرہ دنیا کو دکھا دیتا تاکہ دنیاکو معلوم ہو تاکہ پاکستان جو کہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے اسکے عوام کن لوگوں اور ملکوں کی دہشت گردی اور شدت پسندی کا نشانہ بن رہے ہیں اور اس کے قبائلی علاقوں کو دہشت گردی کے لیے کون استعمال کر رہا ہے، کون اسلحہ وہاں تک پہنچا دیتا ہے۔ یقینا یہ کام کرنے والے سر بجیت سنگھ ہی ہیں تو پھران کو دہشت گرد کہنے میں آخر کونسا امر مانع ہے ۔ یاد رکھیے پاکستان ہی ہماری پہچان ہے اور اس کا حق ہم پر سب سے پہلا ہے لہٰذا اس کے مفادات ہر چیز پر مقدم ہونے چاہیے نہ کہ اپنی تجارت۔

Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 513340 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.