خواب دیکھنے پر پابندی ہے کیا؟

ہم لوگ اپنے گھر میں پڑے ہوئے مٹی کے برتنوں سے سبق نہیں سیکھتے حالانکہ ہمارے خواب ان سے بھی کہیں نازک ہوتے ہیں،نجانے کب گر کر چکنا چور ہوجائیں۔شعور کی حدوں میں داخل ہونے سے پہلے ہی ہمارے لامتناعی خوابوں کی طویل فہرست ہمارے سامنے ہوتی ہے۔ہم لوگ سوچتے ہی نہیں کہ ہمارے یہ خواب ایک دن خدانخواستہ عذاب کی صورت میں ہم سب کی تباہی کا سبب بن جائیں گے۔کوئی پڑھ لکھ کے سول اورآرمی افسر بننے کاخواب آنکھوں میں سجائے ساری عمر ان پڑھوں کے ساتھ معمولی ملازم بن کے ساری عمر گزارنے پر مجبور ہو جاتاہے توکوئی بے روزگاری کے عذاب سے دوچار رہتا ہے۔حالات و واقعات اور انسانی قسمت انسان کے ساتھ نجانے کیا سے کیا کھیل کھیلتے ہیں۔کئی اپنی ایمانداری اور اصول پرستی کا رگٹرا کھاتے ہیں اور کئی اپنی ایمانداری کے بل بوتے پر کامران و کامیاب رہتے ہیں۔کئی بے ایمان اپنی بے ایمانیوں پر ان گنت عیاشیاں سمیٹ لیتے ہیں اور کئی بے ایمان ہونے پر رسوائیوں کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔

کئی اصلی ڈاکٹر بنننے کا خواب لئے دن رات محنت کرتے ہیں اور ان کے والدین اپنا تن من ،دھن تک لٹا دیتے ہیں مگر جعلی ڈاکٹر اپنی ہوشیاری سے انہیں مات دیکر نامور ہو جاتے ہیں۔ کئی دولت کے حصول کے لئے جان تک وقف کر دیتے ہیں مگر ناکام و بے کامران ہو کر اس دنیا سے چلے جاتے ہیں اور کئی ایسے بھی خوش قسمت ہوتے ہیں کہ سونے کے نوالوں میں پلتے ہیں اور دولت ان کے پیچھے پیچھے ان کی خادمہ بن کر ساری عمر ان پر نچھاور رہتی ہے۔کئی سیاستدان گراس لیول سے اپنی محنت اور اصول پرستی سے نامور ہو جاتے ہیں ۔کئی ساری عمر سیاستدانوں کی دہلیز پر مقامی ناظم بنننے کے لئے گزار دیتے ہیںمگر ان کی نصرت نصیب نہیں ہوتی۔یہ سیاست بھی بڑی بری چیز ہے انسان ہمیشہ خوش فہمی میں رہتا ہے اور دن رات یہی سوچتا کہ شاید عوام کو ان کے بغیر نیند نہیں آتی مگر یہی سیاست ایک دن ان کے پورے خاندان کو ایسے نگل جاتی ہے کہ جیسے وہ اس دنیا میں تھے ہی نہیں۔

احقر کی طرح کے نکمے لکھاری ساری عمر لکھ لکھ کے کاغذ،قلم،سیاہی ،اپنی صحت اور نظر ضائع کر دیتے ہیں لیکن کئی لوگ ایک دو سالوں میں خوشامدی گیت گیت لکھ کر اتنے مشہور ہو جاتے ہیں کہ انہیں صحافتی میدان تو کیا سیاسی میدان میں بھی کوئی پچھاڑ نہیں سکتا۔کئی زمیندار/جاگیر دار یا کچھ لوگ ساری عمر کنجوس رہتے ہیں،اپنے مزارعوں کا دن رات خون چوستے ہیں،بے ایمانی سے مال اکٹھے کرتے ہیںلیکن جب موت آتی ہے تو نہایت ہی افسوسناک۔ان کی اولاد اسی دولت پر گھتما گتھا ہوتی ہے اور وہی اولاد والدین پر ان کا ذاتی پیسہ تک خرچ نہیں کرتے اور ان کی موت پر کوئی بھی افسردہ نہیں ہوتا۔

ایسے بھی اللہ لوگ ہوتے ہیں کہ ساری عمر دولت کی ریل پیل ہوتی ہے خود درویش صفت رہتے ہیں۔دوسروں کی مدد کرتے ہیں،خود بھوکے پیاسے رہتے ہیں ،جب کی ان جان نکلتی ہے بغیر کسی تکلیف کے ۔ان کا جینا اپنے لئے نہیں ہوتا انہیں صرف دوسروں کی فکر ہوتی ہے۔ان کی موت پردنیا ان کے لئے روتی ہے۔جان دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو ازلی و ابدی دنیا میں خالی ہوتے ہیں مگر اپنے ساتھ دنیا سے نیکیاں سمیت کر جاتے ہیں۔

ایسی باتیں لکھتے لکھتے صفحے بھر جاتے ہیں مگر اثر لینے والے ایک دو لائینوں سے سبق سیکھ جاتے ہیں۔جماعت اسلامی کے نام پر ووٹ لینے والوں سے کون پوچھے کہ بھائی صاحب آپ نے اسلام کے لئے کون سی نمایاں خدمات سر انجام دیں۔یہ ملک ہی اسلام کے لئے اور اسلام پر قائم ہوا تھا مگر 65سال گزرنے کے باوجود یہ لوگ عام لوگوں میں اپنا مقام کیوں نہیں بنا سکے۔اسلام کے نام پر ووٹ مانگتے ہیں لیکن میں نے ذاتی طور پرقاضی حسین احمد مرحوم جیسے چند جماعت اسلامی کے لیڈران کے باقی سب کو متنازعہ اور دوغلا پایا ہے۔ان کے اپنے بچے لندن یا یورپ میں پڑھائی مکمل کرتے ہیں،ان کے جلسوں میں بھی میوزک چل رہا ہوتا ہے حالانکہ ایسا کرنا انہیں زیب نہیں دیتا۔چندہ کے نام پر ان کی پارٹی بھی روایتی انداز سے چلتی ہے۔

روٹی ،کپڑا اور مکان کے نعرے سے پاپولر ہونے والی جماعت نے ہی عوام سے یہ تینوں چیزیں چھین لیں۔پیپلز پارٹی کو ہی دیکھ لیں ،پاکستانی سیاست میں بلیک میلنگ اور کرپشن کی ایک بہت بڑی مثال ہیں۔آجکل میڈیا پرا نہوں نے عدلیہ اور بجلی کے حوالے سے ن لیگ کے خلاف جو ڈبنگ یا ریکارڈنگ چلا رکھی ہے اس کے مطابق ان کی پوری کی پوری پارٹی ہی قانونی لحاظ سے نا اہل ہے اگر الیکشن کمیشن سیریس ایکشن لے تو پاکستان پیپلز پارٹی الیکشن2013سے بالکل باہر ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ ہوتا کیا ہے۔اپنی نیک نامی کے خواب دیکھنے پر پابندی نہیں۔عوام کے پاس اس وقت دو ہی آپشن ہیں اگر عوام بھی اپنی سنجیدگی دکھائے تو۔ن لیگ سب سے بہتر ہے کیونکہ اس نے ہر دور میں عوام کے لئے کچھ نہ کچھ بہتر ہی کیا ہے یا پھر عمران خان کی پارٹی 2ndچوائس ہے جو کہ چینچ کے نام پر شاید کچھ تبدیلی لا سکے مگر اس کا پیپلز پارٹی کے خلاف نہ بولنا ایک بہت بڑا سوال ہے۔باقی سائیکل جو مونس الٰہی کو بچانے کے لئے پیپلز پارٹی میں ایس ضم ہوئی کہ تاحال پنکچر ہے،تیرجو لکٹری کا ہے جو کرپشن اور بلیک میلنگ سے اٹا ہوا ہے اور ترازوجو عوام کو ٹھیک اسلامی ماحول دینے سے یکسر عاری ہے (وغیرہ وغیرہ) روایتی ہتھیار ہیں عوام کو ملک کی تقدیر کے لئے اصل نقل کی پہچان کرنا ہوگی۔باقی خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں احقر سمیت کئی لوگ راجہ پرویز اشرف کی طرح کسی اقتدار پر فیض یاب ہونے کے خواب دیکھ سکتے ہیں۔
Mumtaz Amir Ranjha
About the Author: Mumtaz Amir Ranjha Read More Articles by Mumtaz Amir Ranjha: 90 Articles with 60361 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.