ہمارا ووٹ اور ہمارا گلشن

ہمارے ہزاروں دوست آجکل فیس بُک کی جنگ لڑنے میں پیش پیش ہیں ایک دوسرے کے پارٹی رہنماﺅں کی توہین آمیز تصاویر بنا کر ایک دوسرے کے جذبات کو اُبھارتے ہیں اور اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کا دفاع کرنے میں مگن ہیں جو یقینا اُن تمام کارکنوں کی زہنی عکاسی کرتا ہے۔

یہ مملکتِ خداداد ہمارے بزرگوں کی بے شمار قربانیوں سے ملا ہے اور اُن کا خون ہمارے اُوپر قرض ہے اور اُس قرض کو چکانے کا ہمیں اللہ نے ایک موقع دیا ہے کہ اپنی عقل اور فہم و فراست سے گیارہ مئی کو فیصلہ کرنا ہے اور اگر ایک ووٹ کسی نے بھی غلط دیا کسی بھی پارٹی یا رہنما کو یا غلط ووٹ دِلوایا تو یقینا ووٹ دینے والا اور ووٹ دلوانے والا دونوں گناہ جاریہ کے مرتکب ہوں گے۔

یہ گلشنِ پاکستان اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے نام پر آزاد ہوا تھا اور اس کا ایک ایک صوبہ اللہ اور رسول کے حکم سے جڑا ہوا ہے اور امانت میں خیانت کرنے والوں سے اللہ خود انتقام لے گے۔

غدار ِ وطن سے وفا کرنے والو اہلِ وفا کی نظر میں بے توقیر ہو تم وطن کا پاس تمھیں تھا نہ ہوگا حرص کے بندے ہو تم بے ضمیر ہو تم ۔

انسان غلطی کرتا ہے اور انسان ہی غلطیوں سے سیکھتا بھی ہے اب کے بار اگر ہم نہ سمجھے یا غدارو ں کا ساتھ دیا چاہے اُس غدار کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو یاد رکھنا دنیا میں انسان جس کا ساتھ دے گا قیامت والے دن اُسی کے ساتھ اُٹھائے جایا گا۔

باالخصوص نوجوان طبقہ اپنی دانشمندی کو استعمال کرے اور صرف ووٹ کی اہمیت اور طاقت کو عام شہری تک پہنچائے اور اپنی آنے والی نسل کے سوال کا جواب تیار کریں یہ نہ ہو کہ کل کو تمھاری نسل تمھارے گریبان میں ہاتھ ڈالے اورتم سے ملک سے غداری کے سوال کرے ۔

اور میری ہمدردانہ اپیل ہے کہ پارٹیوں سے زیادہ گلشن ِ پاکستان سے پیار کریں یہ ملک ہے تو ہم ہیں پارٹیاں ملک میں بہت سی ہیں لیکن سر زمین صرف اور صرف ایک ہے اور وہ بھی اسلام کا آخری قلعہ ہے اور مادرِ وطن سے بے وفائی کی تو یا د رکھنا ہم نے اسی پاکستان کی گود میں آخری قیام کرنا ہے اور اگر ہمیں مادرِ وطن کی گود میں جگہ نہ ملی تو یہی ہماری عبرت کا پہلا نشانہ ہو گا اور قبر کی جگہ نہ دی پاکستان نے تولاشیں دنیا والوں کے سامنے گندگی اور بدبو کا ڈیر اور باقی ماندہ خاندان کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتی ہے ۔اللہ سے دعا ہے ہمیں درست فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

نوٹ : اس کالم کا تعلق کسی تنظیم یا پارٹی سے نہیں بلکہ یہ کالم نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہے۔

Prof Saeed Khalid
About the Author: Prof Saeed Khalid Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.