عربی کی ضرورت اور اہمیت(حصہ اول)

 دنیا کے اندر جتنے بھی انقلابات آئے ان انقلابات کے پیچھے کچھ قوتیں کار فرما ہوتی ہیں ، ان قوتوں میں تحریر ایک اساسی اور بنیادی حیثیت رکھتی ہے،کیونکہ انسان اس تحریر کے ذریعے اپنے احساسات،نظریات اور اپنے فکری رجحانات بآسانی دوسروں تک منتقل کرتا ہے،جسکی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں سوئے ہوئے ا فکار جاگنے لگ جاتے ہے،اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتے ہے،پھرتحریر کا اثر بہت دیر پابھی ہوتا ہے۔

ایک باشعور اور صاحب علم انسان کا تعلق تحریر سے ناگزیر ہے ،خصوصاًجب وہ ایک نظریاتی سوچ اور گہرے افکارکا مالک ہو،وہ اپنی سوچ اور اپنے نظریے کوایک امانت سمجھ کر تحریر کو آگے منتقل کرنے کی سعی کرتا ہے،تاکہ یہ امانت آنے والی نسل کے لیے ایک رخ متعین کرتی جائے،وہ اپنی ذات اور شخصیت سے بڑھ کر اسی سعی میں لگ جا تا ہے،اور قدرتی نظام کے بمقتضا ایسا کرنا ضروری بھی ہے،کیونکہ انسانی زندگی حوادثات سے عبارت ہے ،اس لیے نظریاتی انسان جانے سے پہلے ا پنا نظریہ دوسروں تک پہچاناچاہتا ہے ،ورنہ اسکی محنت،جدوجہد،سوچ اور فکر اس کے ساتھ ہی دفن ہوجاتی ہے، یوں ایک عرصہ دراز کی محنت ضائع ہو جاتی ہے، نظریاتی انسان کو کبھی موت نہیں آتی،وہ مر کر بھی زندہ رہتا ہے،اسکے افکا رو نظریات اسے ہمیشہ زندہ رکھتے ہیں ،آنے والی نسلیں اسکے افکار سے مستفید ہوتی رہتی ہیں،جس کی وجہ سے وہ زندہ وجاید رہتا ہے۔

ہمارے استاذ شیخ ولی خان المظفربھی ایک ایسے ہی صاحب فکر شخصیت ہیں ،حالات وواقعات پران کی گہری نظر ہے ،امت مسلمہ کی ہی فکر انکے قلب واعصاب پر چھائی رہتی ہے،اللہ تعالیٰ نے انکو خداد اد صلاحیتوں سے نوازا ہے،عربی کے حوالے سے پاکستان میں ان کا کردار محتاج بیان نہیں،معھد کا قیام آپ ہی کی انتھک کوششوں اور مخلصانہ محنتوں کا نتیجہ ہے،پھر وفاق المدار س کی ذمہ داریاں ،درس وتدریس ،تصنیف وتالیف پھر سماحةالعلامہ الشیخ سلیم اللہ خان کی صحبت نے انہیں چار چاند لگا دیے۔

مولانا عزیزالرحمن عظیمی مظفریات کے مقدمے میں شیخ ولی خان المظفر کے بارے رقم طراز ہیں۔

”تعلیم وتربیت کے میدان میں انہیں خداداد ذوق اور حیرت انگیز ملکہ ملا ہے ، اس حوالے سے ان کی ناقابل فراموش خدمات و مساعی ہیں، عربی زبان و ادب میں جواں عمری میں ان کا شمار پاک و ہند کے اُن چند گنے چنے افراد میں ہوتا ہے ،جو بلامبالغہ سَند کی حیثیت رکھتے ہیں، مولانا نے اپنے اس ذوقِ عربیت کی بڑی جان توڑ محنت و لگن، اور راحتوں اور آسائشوں کی بھاری قربانی دے کر آبیاری کی ہے، انہوں نے دورانِ تعلیم اور ابتدائی زمانہ تدریس میں اردو لٹریچر کا بھی خوب مطالعہ کیا، خصوصاً مسالک و مذاہب کا، تاریخ و جغرافیے کا اور اسلامی تحریکات کا، اور اس زمانے میں وہ اپنے تاثرات اور حاصل مطالعہ کو قلمبند اور زیورِ طباعت سے آراستہ بھی کرتے رہے، تاہم پھر ”الفاروق عربی“ اور جامعہ کے ”معہدِ عربی“ کی دوہری ذمہ داریوں کے باعث ان کی مکمل توجہ فقط عربی کی طرف ہوگئی اور اردو مطالعہ بھی انہوں نے اگر کیا تو عربی میں رسوخ پیدا کرنے کی غرض سے کیا یعنی وہ اردو لٹریچر ہی ان کے مطالعہ میں رہا، جو ”عربی“ کے حوالے سے ہے۔

نابغہ ہند علامہ انور شاہ کشمیری نے کسی زمانے میں اردو پڑھت لکھت اس لئے ترک کی تھی کہ اس سے ان کو اپنا ذوق عربی متاثر ہونے کا اندیشہ تھا، اور اس تاثر کا ان پر ایسا غلبہ ہوگیا تھا کہ طلبہ اور اپنے احباب کو بھی وہ اردو پڑھت لکھت سے منع فرماتے تھے، تاہم کشمیری صاحب نے جیسے آخر میں اس خیال سے رجوع کیا تھا اور ہندوستان میں دین کی خدمت کے لئے اردو زبان کو ناگزیر قرار دیا تھا ، مولانا نے بھی ایک خاصا طویل عرصہ بعد پھر سے اردو سے ناتہ جوڑا ہے اور اب جوں توں اس کی ناگزیریت کے قائل ہوگئے ہیں، گزشتہ دو تین سال میں مختلف موضوعات پر مولانا زیدمجدہ کے بڑے وقیع اور قیمتی مضامین اخبارات اور مختلف رسائل میں شائع ہوئے، ان مضامین کے نہایت حاملِ اہمیت ووقعت ہونے کی بڑی وجہ خود صاحبِ مضامین کی ”غیر معمولی“ شخصیت ہے۔

فطری سعادت مندی اور وہبی کمالات کے علاوہ حضرت مولانا کو امام المحدثین، عبقری زمان مرشد الطائفہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب جیسے رجال ساز، مردم شناس اور کیمیا اثر شیخ کی دیرینہ اور ہمہ جہت صحبت، اور پھر آپ کا اعتماد اور اِشراف حاصل رہا ہے، پھر کچھ ان کے طفیل اور کچھ اپنی خداداد ذوق کی بدولت عرب وعجم کے مشاہیر رجالِ دین اور اصحابِ نظر سے کسبِ فیض کا انہیں موقع ملا ہے،جب کہ مکاتبِ فکر، سلاسلِ طریقت، نظامہائے حیات اور سوانح ومناقب تو ہیں ہی ان کے مطالعے کا خاص موضوع، پھر ان کی نظر ایک عامی کی نظر کیوں کر ہوگی....؟“
zubair
About the Author: zubair Read More Articles by zubair: 40 Articles with 65589 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.