سیاسی جماعتوں کے منشور کا موازنہ اور مشترکہ منشور

الیکشن کے انعقاد سے قبل سیاسی جماعتیں اپنا اپنا منشور جاری کرتی ہیں۔ جس میںوہ بتایا جاتا ہے کہ یہ جماعت عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آگئی تو ملک و قوم کی تعمیر وترقی کیلئے کیا کیا کام کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ کون کون سے محکمہ میں کیا کیا اقدامات کرے گی۔اورکون کون سے نئے منصوبے لے آئے گی ۔ ہم نے مختلف سیاسی جماعتوں کے جاری کردہ منشورز سے اہم نکات منتخب کیے ہیں۔ تاکہ یہ موازنہ کیا جاسکے کہ کون سی سیاسی جماعت نے اپنے منشور میں کیا کہا ہے اور کس کی بات میں کتنا وزن ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے مضبوط معیشت، مضبوط پاکستان اور ہم بدلیں گے پاکستان کا انتخابی نعرہ لگایا ہے۔ پیپلزپارٹی نے الیکشن میں عوام کی توجہ اپنی طرف متوجہ کرانے کیلئے روٹی کپڑا اور مکان، دہشت سے محفوظ عوام ، اونچا ہو جمہور کا نام کا سلوگن اپنا یا ہے ۔ جبکہ عمران خان نے نیا پاکستان کا نعرہ بھی لگا یا ہے اور پاکستان کو قائد اعظم رحمة اللہ علیہ ، علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ کے وژن کے مطابق چلانے اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن)نے اپنے منشور میں کہاہے کہ مختلف شعبوں میں تیس ہزار افراد کیلئے روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں گے۔ کم آمدنی والے اور متوسط طبقہ کیلئے سرکاری اور نجی شعبہ کے اشتراک سے پانچ سو گھروں پر مشتمل ایک ہزار بستیاں تعمیر کی جائیں گی۔ اسی سلسلہ میں پیپلز پارٹی کے منشور میں ہے کہ روزگارکے مواقع میں اضافہ کیلئے چھوٹے تجارتی اداروں کو سہولتیں دی جائیں گی۔ تحریک انصاف کہتی ہے کہ وہ اقتدار میں آکر بیس لاکھ افراد کو روزگار دے گی۔ ٹیکس کی بات کی جائے تو مسلم لیگ (ن) کہتی ہے کہ تمام آمدنیوں پر منصفانہ ٹیکس لگا کر زیادہ آمدنی حاصل کی جائے گی۔ پر تعیش اور غیر ضروری اشیاءکی درآمدپر بھاری ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔ پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ مجموعی قومی پیداوار اور ٹیکسوں کے تناسب میںاضافہ کیلئے پچاس لاکھ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ ٹیکسوں کا تناسب 9.5 فیصد سے بڑھا کر پندرہ فیصد کیا جائے گا۔ تحریک انصاف کے منشور میں ملک میں پانچ شعبوں ہیلتھ، ایجوکیشن، انرجی،میشت ، کرپشن ٹیکس چوری کے خاتمہ کیلئے ایمرجنسی نافذ کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ ریونیو میں اضافہ اور ٹیکس چوری کا خاتمہ کیا جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کا منشور کہتا ہے کہ پی آئی اے ،ریلوے، پاکستان سٹیل ملز، واپڈااور دیگر اداروں کی نجکاری اور تشکیل نو کے ذریعے اصلاح کی جائے گی۔ وذیراعظم کی سربراہی میں بزنس اینڈ اکنامکس کونسل قائم کی جائے گی۔ پیپلز پارٹی کے منشور میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی۔ تحریک انصاف کا منشور بھی اس سلسلہ میں خاموش ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں ہے کہ نیشنل ایجوکیشن ایمر جنسی نافذ کرکے ملک سے ناخواندگی کا خاتمہ کیا جائے گا۔تمام صوبوں میں دانش سکول قائم کیے جائیں گے۔ دینی مدارس کے نصاب اور معیار کومرکزی تعلیمی دھارے کے مطابق بنانے کیلئے مالی امداد اور مطلوبہ سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔ پیپلز پارٹی کا منشور اس سلسلہ میں یوں ہے کہ تعلیم اور روزگار کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ اگلی مدت کے اختتام تک مجموعی قومی پیداوارکا ساڑھے چار فیصد تعلیم پر خرچ کیا جائے گا۔ 2018ءتک لازمی پرائمری تعلیم کو یقینی بنایا جائے گا۔ تحریک انصاف کے منشور میں ایسی کوئی بات نہیں دکھائی دی۔ مسلم لیگ ن کا منشور کہتا ہے کہ صحت کے شعبہ میں موجودہ بجٹ میں تین گنا اضافہ کرکے اسے دوہزار اٹھارہ تک مجموعی قومی پیداوار کا دوفیصد کر دیا جائے گا۔ صنعت وتجارت کے شعبے میں اپرنٹس شپ کی دس لاکھ نوکریاں نکالی جائیں گی۔ کم آمدنی والے ہر کنبہ کیلئے کم ازکم ایک ملازمت یقینی بنائی جائے گی۔ پیپلزپارٹی کے منشور میں ہے کہ زچہ بچہ کی صحت اور بہبود کیلئے خصوصی مراکز قائم کیے جائیں گے۔ دوہزار اٹھارہ تک پولیوکا خاتمہ کردیا جائے گا اور پولیوورکرز کو سیکورٹی فراہم کی جائے گی۔ تحریک انصاف کا منشور کہتا ہے کہ صحت اور تعلیم سمیت شہریوں کو تمام سہولتیں دیں گے۔ انصاف کی بات کی جائے تو مسلم لیگ (ن) کے منشور میں ہے کہ فوری اور سستے انصاف کیلئے ابتدائی مرحلہ میں دیوانی مقدمات کا فیصلہ ایک سال اپیلوں کا مرحلہ اگلے ایک سال میں مکمل کیا جائے گا۔عدلیہ کی مشاورت سے جہاں ضروری ہواعدالتی اوقات کار میں اضافہ کرتے ہوئے شام کی عدالتوں کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔ پیپلزپارٹی کے منشور میں ہم نے ایسی کوئی بات نہیں پڑھی۔ پی ٹی آئی کا منشور کہتا ہے کہ انصاف کی فراہمی بنیادی ترجیح ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں ہے کہ صحت کے شعبہ میں میڈیکل انشورنس کارڈ سکیم متعارف کرائی جائے گی۔ جس سے غریب مریضوں کو معیاری علاج کی سہولتیں دستیاب ہوں گی۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے منشورز میں ایسی کوئی کسی پالیسی کا ذکر نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں ہے کہ پنجاب ، سندھ ،بلوچستان، اور خیبرپختون خوا میں ہم آہنگی ہماری منزل ہے۔ پیپلزپارٹی کے منشور میں ہے کہ آئنی ترامیم کے ذریعے صوبوں کو انتظامی اور مالی خود مختیاری دی۔ جبکہ تحریک انصاف کے منشور میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں کہا گیا ہے کہ فاٹا کے عوام سے پوچھا جائے گا کہ وہ الگ صوبہ چاہتے ہیں یا خیبر پختون خوا میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ فاٹا میں آئین کے تحت عدالتی نظام قائم کیا جائے گا۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے منشور اس سلسلہ میں خاموش ہیں۔ ملک میں بجلی کابحران کسی کے قابو میں نہیں آرہا اس سلسلہ میں ان تینوںسیاسی جماعتوںکے منشور کیا کہتے ہیں۔ آئیے خود پڑھ لیں۔ نوازشریف کہتے ہیں کہ توانائی کے درپیش بحران سے نمٹنے کیلئے پاک ایران گیس منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچنا چاہیے۔ ملک وقوم کے مفاد کیلئے کسی بھی ملک سے معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ انہوںنے کہا اگر دس ہزار میگاواٹ کمی کا سامنا ہوا تو پچیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کریں گے۔اس کے علاوہ اس سلسلہ میںکہا گیا کہ دوسال میں توانائی کے بحران کا خاتمہ کیا جائے گا۔ پیپلزپارٹی کے منشور میں کہا گیا ہے کہ توانائی بحران پر قابوپاکر عوام کوسستی بجلی اور گیس فراہم کی جائے گی۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ سستی توانائی کیلئے پانی ،ہوا، سورج سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر توجہ دی جائے گی۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پیپلزپارٹی نے تین ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کی۔ تحریک انصاف کے منشور میں کہا گیا ہے کہ دوسے تین سال میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ بجلی نرخوں میں کمی کی جائے گی۔ مقامی سطح پر تعمیر وترقی میں بلدیاتی نظام اہمیت رکھتا ہے۔ سابقہ دور حکومت میں ان اداروں کو عضو معطل بنا دیا گیا ۔ بلدیاتی اداروں کے بارے میں یہ سیاسی پارٹیاں کیا کہتی ہیں۔ آیئے ان کے منشور سے ہی پوچھ لیتے ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے منشور سے پوچھا تو جواب ملا کہ اقتدار میں آنے کے چھ ماہ بعد بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں گے۔ پیپلزپارٹی کے منشور نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ تحریک انصاف کے منشور نے کہا کہ اقتدار میں آنے کے نوے دن بعد بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں گے۔ سابقہ دور حکومت میں نئے صوبوں کے بارے میں مطالبات نے زور پکڑا ۔حکومت بھی کہتی رہی کہ ہم نیا صوبہ بنائیں گے۔ آیئے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس سلسلہ میں ان کے منشور کیا کہتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں کہا گیا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد ہزارہ ، جنوبی پنجاب اور بہاولپور نئے صوبے بنائے جائیں گے۔ پیپلزپارٹی کے منشور میں کہا گیا ہے کہ بہاولپور جنوبی پنجاب صوبہ قائم کرنے کیلئے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔ تحریک انصاف کے منشور میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثے قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ ان کے بارے میں غیر ملکی طاقتیں افواہیں پھیلاتی رہتی ہیں کہ اب یہ غیر محفوظ ہیں ۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثے دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں تینوں سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے منشور میں کیا کہتی ہیں ۔ آئیے پڑھ لیجئے۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میںہے کہ انتخابات کا تعلق پاکستان کے مستقبل ہماری قومی سلامتی سے ہے۔ اس کے علاوہ اس منشور میں ایسی کوئی بات دکھائی نہیں دی۔ پیپلزپارٹی کے منشور میں ہے کہ قومی سلامتی کیلئے شخصی سلامتی لازمی ہے۔ یہ منشور اس سلسلہ اور کچھ نہیں بتاتا۔ تحریک انصاف کے منشور میں کہا گیا ہے کہ ایٹمی اثاثوں کے تحفظ ، جوہری ہتھیاروں کے بارے میں بڑی قوتوں کی پیروی کی جائے گی۔ اس میں مزید یہ کہاگیا ہے کہ پوری دنیا جوہری ہتھیاروں کو ترک کرے گی تو تحریک انصاف بھی ایسا ہی کرے گی۔ پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ ڈرون حملے بند ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں تینوں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور میں کیا کہتی ہیں ۔ اس بارے جانتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے منشور خاموش ہیں۔ تحریک انصاف کا منشور بھی خاموش ہے۔ کراچی مسلسل لہو لہان ہے ۔ کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا اب قاتلوں کا شہر بن چکا ہے۔ اس شہر میں امن قائم کرنے کیلئے کس سیاسی پارٹی کے پاس کیا ایجنڈا ہے ۔ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں کہا گیا ہے کہ کراچی پاکستان اقتصادی دارلخلافہ ہے ۔ پولیس کی تطہیر اور اصلاحات اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف بلا امتیاز آپریشن کے ذریعہ سے کراچی میں امن بحال کیا جائے گا۔ پیپلزپارٹی کے منشور میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی۔ تحریک انصاف کے منشور میں ہے کہ کراچی سمیت پورے ملک کو اسلحہ سے پاک کریں گے۔ کراچی میں مسلح ونگ اور پارٹیوں کے خلاف مہم چلائیں گے۔ بلوچستان کی صورتحال بھی سب جانتے ہیں۔ سابقہ حکومت نے بلوچستان کی محرومیاں ختم کرنے کیلئے آغاز حقوق بلوچستان پیکج متعارف کرایا ۔ بلوچستان کے بارے تینوں سیاسی جماعتوں کے منشور کیا کہتے ہیں۔ پوچھ لیتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم نے مسلم لیگ (ن) کے منشور سے پوچھا کہ وہ بلوچستان کے بارے میں کیا کہتا ہے تواس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے حوالے سے تمام سیاسی پارٹیوں اور سٹیک ہولڈرز کے ساتھ صلاح مشورے کے ذریعے ایک جامع پالیسی تشکیل دی جائے گی۔ پیپلزپارٹی کے منشور سے پوچھا تو اس نے کہا کہ بلوچستان کو قومی دھارے میں لانے کیلئے صوبہ کی جائز شکایات کا ازالہ ہوگا۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے اقدامات جاری رہیں گے۔ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ گزشتہ انتخابات کے باعث اس دفعہ بلوچستان کی ساری سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ ہم نے تحریک انصاف کے منشور سے پوچھا کہ وہ اس بارے کیا کہتا ہے تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے ان تینوں سیاسی پارٹیوں کے منشور میں کیا کہا گیا ہے ۔ اس کے بارے میں بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں ہے کہ ملکی سلامتی اور خارجہ پالیسی کا جائزہ لے کر از سرنو خارجہ پالیسی تشکیل دی جائے گی۔ پیپلزپارٹی کے منشور میںکہا گیا ہے کہ خارجہ پالیسی کا محور تجارت ، توانائی اور مواصلات کے شعبوں میں تعاون ہوگا۔ بھارت ،افغانستان اور ایران سے بات چیت جاری رہے گی۔ منشور میں کہا گیا ہے افغانستان اور اس کے نواح میں امن چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف کے منشور نے اس سلسلہ میںکوئی بات نہیں بتائی۔ مسئلہ کشمیر میں اگرچہ سیاستدانوں اور حکمرانوں کی وہ دلچسپی نہیں رہی جو پہلے کبھی ہوا کرتی تھی۔ تاہم اب یہ مسئلہ ہماری توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس مسئلہ کے بارے میں سیاسی جماعتوں کا کیا منشور ہے۔ پڑھ لیجئے۔ تینوں سیاسی پارٹیوں کے منشور میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی واضح بات نہیں کی گئی ہے۔ پاکستان کو معاشی ترقی دینے یا ملک کو معیشت میں ترقی کی منزلوں کی طرف لے جانے کیلئے یہ سیاسی جماعتیں کیا پلان رکھتی ہیں۔ یہ ان کے منشو ر سے معلوم ہوجائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں ہے کہ مالیاتی خسارہ کم کرنے کیلئے سادگی مہم شروع کی جائے گی۔ اس منشور میں مسلم لیگ (ن)ن نے کہا ہے کہ دوہزارتیرہ میں ہمیںدو تہائی مینڈیٹ ملا توپاکستان کی معیشت کو زندہ کرکے ناقابل تسخیر اقتصادی قوت میں ڈھال دیں گے۔ ہمارا ہدف پاکستان کی برآمدات کو نجی شعبہ کے اشتراک سے مرحلہ وار سوارب ڈالر سے تجاوزکرنا ہے۔ ہمارا ہدف ترقی کی شرح نمو کو بڑھا کر چھ فیصد تک لے جانا ہے۔ اورافراط زر کو گھٹا کر آٹھ فیصد تک لانا ہے۔ پیپلزپارٹی کے منشور میں ہے کہ تجارتی شعبہ میں خواتین کو خصوصی مراعات دی جائیں گی۔ تجارت میں اضافہ کیلئے مزید ممالک سے کرنسی میں تبادلے کے معاہدے ہوں گے۔ حکومتی قرضوں میں کمی اور بجٹ خسارہ پانچ فیصد سے کم کیا جائے گا۔ افراط زر دس فیصد سے نیچے آگئی ہے۔ برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے منشور میں ہے کہ ٹیکس چوری کا خاتمہ کیا جائے گا۔ ریونیو میں اضافہ کیا جائے گا۔ کونسی سیاسی پارٹی کے اقتدار میں آنے کی صورت میں اس کی کابینہ کا حجم کیا رہے گا۔ اس بارے مسلم لیگ (ن) کے منشور میں ہے کہ اگر ہمیں اقتدار ملا تو ہم اپنی کابینہ کو انتہائی مختصر رکھیں گے۔ پیپلزپارٹی کا منشور اس سلسلہ میں خاموش ہے۔ تحریک انصاف کے منشور میں ہے کہ تحریک انصاف اقتدار میں آکر ریلوے کی وزارت ختم کردے گی۔ 65 ختم کرکے اٹھارہ کردیں گے۔ اب ہم تینوں سیاسی پارٹیوں کے منشور سے وہ باتین لکھنے جارہے ہیں جن کا دوسری جماعتوں کے منشور سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ سب سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے منشور کی بات کرتے ہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ سمندرپار اور دہری شہریت رکھنے والے شہریوں کو ووٹ کا حق دیا جائے گا۔ آﺅ بدلیں پاکستان کے نام سے پروگرام کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کوقومی دھارے میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے گا۔ ماضی کی غلطیوں کی نشاندہی کیلئے سچائی اور مصالحت کا کمیشن قائم کیا جائے گا۔ دہلیز پر انصاف کی فراہمی کیلئے دیہی پنچائت اور جرگہ سسٹم متعارف کرایا جائے گا۔تقریباً صوابدیدی اختیارات ختم کر دیے جائیں گے۔ دس لاکھ روپے سے زیادہ کے سرکاری اخراجات کی تفصیلات ہرسرکاری محکمہ اپنی ویب سائٹ پر ڈالے گا۔ خواہش ہے کہ کراچی اور پشاور تک بلٹ ٹرین چلائیں۔ اور اگر موقع ملا چین اور ترکی سے بات کریں گے۔ پیپلزپارٹی کے منشور میں کہا گیا ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے غربت کے خاتمہ کی کوششیں جاری رہیں گی۔ بی آئی ایس پی کے ذریعے ماہانہ امداد ایک ہزار سے بڑھا کر دوہزار کردی جائے گی۔ خواتین ،نوجوانوں اور اقلیتوں اور مستحق افراد کو قومی دھارے میں لایا جائے گا۔ انصاف پر مبنی اجرت کو یقینی بنانے کیلئے ادارہ جاتی نظام قائم ہوگا۔ کراچی ، حیدر آباد ،فیصل آباد ،ملتان ،رتوڈیرو موٹر ویز بنیں گی۔ پانی کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے آبی وسائل کو ترقی دی جائے گی۔ بڑے شہروں میں سفری سہولتوں اور صفائی کا جدید نظام متعارف کرایا جائے گا۔ اب تحریک انصاف کے منشور کی بات کرتے ہیں۔ اس میں ہے کہ پاکستان میں امیر اور غریب کا فرق ختم کردیں گے۔ تمام شہریوں کومساوی حقوق ملیں گے۔ شہریوں کے درمیان برداشت اور تحمل قائم کیا جائے گا۔ گورنر اور وزیراعلیٰ ہاﺅسز کو ختم کرکے تعلیمی اداروں اور لائبریریوں میںتبدیل کر دیں گے۔ پاکستان دوسروں کی جنگ نہیں لڑے گا۔ بجلی اور گیس چوری کے خلاف سخت قوانین بنائے جائیں گے۔ ملک کو سیکیورٹی سٹیٹ کی بجائے معاشی پاور بنائیں گے۔ عوام کو بتائیں گے ایک جج ،وزیر اورجنرل پر کتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے ۔ کسی جج اور جنرل کو مفت میں پلاٹ نہیں ملے گا۔ عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کسی سے اتحاد نہیں کرے گی۔ اتحادیوں کی بلیک میلنگ سے بچنے کیلئے تنہا حکومت بنائیں گے۔ ان تینوں سیاسی پارٹیوں کے علاوہ بھی تمام سیاسی پارٹیوں نے اپنا اپنا منشور جاری کردیا ہے۔ ہم نے ان تینوں سیاسی جماعتوں کے منشور کا موازنہ اس لیے کیا ہے کہ الیکشن میں ان کے درمیان ہی مقابلہ ہورہا ہے۔ اس میں چند باتیں غور طلب ہیں کہ موٹر وے کی موجد مسلم لیگ (ن) ہے اس کے منشور میں اس کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔ جبکہ پیپلزپارٹی نے اس کو اپنے منشور میں شامل کیا ہوا ہے۔ جنوبی پنجاب صوبہ کو دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں نے اپنے منشور میں شامل کر لیا ہے۔ اب یہ صرف ووٹ لینے کیلئے ہی ہے یا عمل بھی کیا جائے گا ۔ یہ حکومت بننے کے بعد معلوم ہو سکے گا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ ریلوے کی وزارت ختم کردیں گے ۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس کے بعد یہ محکمہ کس وزیر کے ماتحت کام کرے گا۔ یا وزارت کے ساتھ محکمہ ہی ختم کر دیا جائے گا؟ اس کے علاوہ وہ کہتے ہیں کہ کسی سے اتحادنہیں کریں گے ۔ اتحادیوں کی بلیک ملنگ سے بچنے کیلئے تنہا حکومت بنائیں گے۔ موجودہ سیاسی حالات میں کیا ایسا ممکن ہے اور اگر نہیں تو ایسا دعویٰ کیوں کیا جارہا ہے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور میں ایسی کوئی بات نہیں کی۔ یہ تو تھے وہ منشور جو ان سیاسی جماعتوں نے جاری کیے۔ ایک منشور وہ ہوتا ہے جو عوام کیلئے جاری کردیا جاتا ہے اورایک منشور وہ ہوات ہے جو جاری نہیںکیا جاتا ہے۔ ایسے منشور کو خفیہ رکھا جاتا ہے۔ اور یہ تمام سیاسی جماعتوں کا مشترکہ منشور ہوتا ہے۔ ایسا منشور تمام سیاسی جماعتیں مشترکہ طور پر مل کر نہیں بناتیںبلکہ ان کے نکات ایک جیسے ہوتے ہیں۔ جس طرح سابقہ دور حکومت میں نواز شریف اور صدر زرداری کا مشترکہ منشور تھا کہ میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا اور تم مجھے کچھ نہ کہو گے۔ ان کا مشترکہ منشور یہ ہے کہ عوام کو بیوقوف بنایا جاتا رہے گا۔ ہم جو چاہیں گے وہی کریں گے۔ جب چاہیں گے اپنی تنخواہوں ا ور مراعات میں اضافہ کردیںگے۔ امریکہ سے تعلقات قائم رکھیں گے اور اپنے کردار سے اس کو یقین دلاتے رہیں گے وہی اس کے سب سے بڑے تابعدار ہیں۔ عوام کیلئے اپنے دروازے کھلے رکھیں گے اور خود غائب ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ بھی اس منشور میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ قارئین خوب جانتے ہیں کہ سیاستدانوں کے مشترکہ منشور میں کیا کیا ہوتا ہے۔

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 306736 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.