انصاف اور علم

عجیب الیکشن ہیں، گھٹی گھٹی الیکشن مہم، سہمے سہمے امید وار، جوش اور جذبے کا فقدان، دو تین پارٹیوں کے علاوہ باقیوں کا میدان میں آنا بھی دشوار۔ ایم کیو ایم سندھ میں اور اے این پی خیبر پختونخواہ میں لاچار اور مجبور۔ پاکستان پیپلز پارٹی تو پورے ملک میں مجبور ہی مجبور ہے۔ اُس کی کارکردگی اُسے عوام کا سامنا کرنے نہیں دیتے اور طالبان کی طرف سے دہشتگردی کا خوف اس کے اُمیدواروں کو گھر سے نکلنے نہیں دیتا۔ لیکن الیکشن رک نہیں سکتے۔ ان کا روکنا شاید موجودہ حالات کو سنگین تر کر دے۔ یہ عمل جیسے بھی ہو جاری اور ساری رہنا چاہیے۔ اس ساری صورتحال کے باوجود آج کا نوجوان تبدیلی کی اُمید پر اپنا سب کچھ دا٧ پر لگائے بیٹھا نظر آتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس ملک کی بقا صرف اور صرف تبدیلی میں ہے۔ اُس کی آنکھوں کی چمک اور جذبوں کی اُٹھان بتا رہی ہے کہ تبدیلی آئے گی۔ ضروری آئے گی۔ کوئی ظالم ، کوئی جابر اور کوئی فنکار اُس تبدیلی کا راستہ نہیں روک سکتا۔

طالبان مدرسوں کے طالب علم تھے۔ انصاف کے طلبگار ۔ انہیں انصاف نہیں ملا۔ اپنائیت نہیں ملی، پیار نہیں ملا۔ انہوں نے بندوق اٹھا لی۔ ایک غلط راستے کا انتخاب کر لیا جس راستے پر بربادی کے سوا کچھ نہں۔ وہ خود کو بھی برباد کر رہے ہیں اور اس ملک کو بھی۔ تشدد اور دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔ ایسی چیز جسے دنیا کا کوئی مذہب اور کوئی ملک اچھا نہیں مانتا۔ آج کے پرعزم نوجوان کالجوں اور یونیورسٹیوں سے پڑھے ہیں ۔ خدا نہ کرے ان کے ارادوں کو شکست ہو۔ ان کا عزم متزلزل ہو۔ ان کے ارمان لٹ جائیں۔ نہیں نہیں۔ ایسا سوچنا بھی نہیں چاہیے کیونکہ ایسی صورت میں یہ لوگ طالبان سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔ لیکن میرا ایمان ہے تبدیلی آئے گی۔ضرور آئے گی۔ اس ملک میں ہر آدمی کو انصاف ملے گا۔ اس ملک کے دو بنیادی مسئلے ہیں۔ انصاف اور تعلیم۔ یہ دو مسائل اگر حل ہو جائیں تو نہ کوئی تشدد نظر آئے گا او رنہ دہشت گردی۔ نوجوان تعلیم یافتہ ہیں اور اب اُن کا بنیادی مقصد انصاف کا وجود۔ انصاف کا راج اور انصاف کی بادشاہت کے سوا کچھ نہیں۔

انصاف کی بات ہو تو ہمارا ہر ادارہ اور ادارے سے متعلقہ لوگ یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ اُن کے ہاں انصاف کی فراوانی بھی ہے اور ارزانی بھی۔ مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جن کو واسطہ پڑتا ہے اُنہیں پتہ چلتا ہے کہ انصاف حاصل کرنا کس قدر مشکل اور مہنگا ہے۔ مہنگا اس لیے کہ عملاً اب کو انصاف خریدنا پڑتا ہے۔ تھانے میں ہر طرح کی خریداری ہوتی ہے۔ تھانے سے جان چھڑا کر عدالت چلے جائیں تو وکیلوں کے پیسے، تاریخوں کے پیسے۔ انسان کا اپنا وقت جو آج کے دور میں انتہائی قیمتی ہے اس کی اگر کوئی قیمت جان لے تو یہ عمل اس قدر مہنگا اور دشوار ہے کہ الامان۔ اب تو رشوت لینے والے بھی کہتے ہیں کہ تھوڑی سی رشوت لتیا ہوں۔ اس لیے کہ برے وقت میں کام آئے۔ پکڑے گئے تو کوئی بات نہیں۔ پاکستان میں سب اسی اصول پر عمل کر ہے ہیں کہ رشوت لے کر پھنس گیا ہے۔ رشوت دے کر چھوٹ جا۔ اور سچ یہی ہے کہ کسی ایماندار آدمی پر اگر کچھ الزامات آئیں تو اسے خود کو بچانا ممکن نہیں ہوتا۔ اس ملک میں اس کی ایمانداری کچھ کام نہیں آتی۔ اس کے حصے میں یا تو خود کشی ہوتی ہے یا پھر پاگل پن۔

غلطی سے یا کسی غلطی کی پاداش میں آپ کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے قابو آجائیں تو سب سے پہلے تو آپ کو خود کو بے گناہ ثابت کرنا بہت مہنگا پڑتا ہے۔ سیانے لوگ مک مکا کرنا بہتر سمجھتے ہیں۔ آپ حق پر سہی مگر قابو آنے کی معمولی قیمت آپ کی جان چھڑا دیتی ہے۔ اگر آپ منطق کا سہارا لینے لگیں تو اہلکاروں کو اس سے کچھ غرض نہیں وہ اپنا کام پورا کر دیں گے اور آپ کو عدالتوں کے سپرد کر دیں گے۔ آپ کو عدالت پہنچ کر اندازہ ہو گا کہ ایمانداری کا بھرم اور سچائی کا جوش آپ کو کس قدر مہنگا پڑنے لگا ہے۔ یہاں بات دنوں کی نہیں بلکہ مہینوں کی بھی نہیں برسوں کی ہوتی ہے۔ آپ کی عمر کا ایک بڑا حصہ انہی عدالتوں کی نذر ہو گا۔ آپ کو صرف تاریخ ملے گی۔ ہر مہینے کے تین چار دن عدالت میں خرچ ہوں گے۔ اپنا سچ ثابت کرنے کے لیے یہاں آپ کو ایک وکیل کی ضرورت بھی پڑے گی۔ وکیل سستا بھی مل جائے گا اور مہنگا بھی۔ وکیل سستا ہوگا تو تاریخیں زیادہ ہوں گی اور ہر تاریخ کا خرچہ بھی زیادہ۔ وکیل مہنگا ہو گا تو تاریخوں کی تعداد کم ہو گی اور خرچہ بھی کم۔ چھوٹے چھوٹے دیگر اخراجات کا کچھ شمار ہی نہیں۔ مہنگے اور سستے وکیل میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ جج مہنگے وکیلوں کی باتیں آسانی سے سمجھ لیتے اور سستے وکیل کی بات سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ حال ہی میں الیکشن سیکروٹنی کے دوران عدلیہ کی طرف سے دفعہ 62 اور 63کے استعمال میں ججوں کی طرف سے کیے گئے سوالات اور پھر جو لوگ وقتی طور پر نااہل قرار دیئے گئے ان کو دوبارہ الیکشن لڑنے کی عدلیہ کی طرف سے اجازت نے عدلیہ کی خامیوں کو پوری طرح بے نقاب کر دیا۔ سپریم کورٹ کے واضع احکامات کے باوجود بہت سے جعلی ڈگری والے اور بہت سے کرپٹ افراد الیکشن لڑ رہے ہیں جو مہنگے وکیلوں کاکمال ہے۔ یہ اعلیٰ عدلیہ کے لیے بھی فکر کی بات ہے اور ملکی مفاد بھی اس بارے میں ٹھوس اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔

باتیں بہت تلخ ہیں مگر ہر الیکشن ہمیں یہ دعوت دیتا ہے کہ سوچیں اور شخصیت پرستی کی بجائے اصول پرستی کو ووٹ دیں۔ آپ کا ووٹ فیصلہ کرے گا کہ آپ کے آئندہ آنے والے پانچ سال کیسے گزریں گے۔ وہ لوگ جنہوں نے ماضی میں خوش کن وعدے کیے مگر اُن میں سے کوئی بھی پورا نہیں کیا۔ وہ کچھ بھی کہیں۔ انہیں ووٹ دینا جرم سمجھا جائے۔ اگر قوم نے یہ روش اپنا لی تو تبدیلی کا سفر تیز ہی نہیں بہت تیز ہو جائے گا۔ انصاف اور علم کی منزلیں خود ہمارے پاس آجائیں گی اور یہ دونوں وہ چیزیں ہیں کہ یہ حاصل ہو جائیں تو دنیا کی ہر چیز حاصل ہو جاتی ہے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 575 Articles with 450587 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More