وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ

زندگی نشیب فراز سے عبارت ہے ۔ کبھی خوشی ، کبھی غم ۔ کبھی بیماری ، کبھی صحت ۔ کبھی جوانی ، کبھی بڑھاپا ۔ کبھی قوت ، کبھی ضعف۔ کبھی ثروت ، کبھی عسرت ۔ یہ سب کیفیات زندگی کے ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ہمارا طرز عمل کیا ہوتا ہے ؟ ناگوار حالات میں ہم بہت زیادہ بد دل ہو جاتے ہیں ۔ اور ایسا سوچنے لگ جاتے ہیں کہ میرے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے یہ سب کچھ ؟ یا یہ کہ میری تو قسمت ہی خراب ہے ۔وغیرہ وغیرہ ۔

لَّا يَسْأَمُ الْإِنسَانُ مِن دُعَاءِ الْخَيْرِ وَإِن مَّسَّهُ الشَّرُّ فَيَئُوسٌ قَنُوطٌ﴿٤٩﴾ وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَـٰذَا لِي وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّجِعْتُ إِلَىٰ رَبِّي إِنَّ لِي عِندَهُ لَلْحُسْنَىٰ ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ ﴿٥٠﴾ وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ فَذُو دُعَاءٍ عَرِيضٍ ﴿٥١﴾
انسان بھلائی کی دعائیں کرتا کرتا تو تھکتا نہیں اور اگر تکلیف پہنچ جاتی ہے تو ناامید ہوجاتا اور آس توڑ بیٹھتا ہے۔۔۔اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد ہم اس کو اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو میرا حق تھا اور میں نہیں خیال کرتا کہ قیامت برپا ہو۔ اور اگر (قیامت سچ مچ بھی ہو اور) میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا بھی جاؤں تو میرے لئے اس کے ہاں بھی خوشحالی ہے۔ پس کافر جو عمل کیا کرتے وہ ہم ان کو ضرور جتائیں گے اور ان کو سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔۔۔اور جب ہم انسان پر کرم کرتے ہیں تو منہ موڑ لیتا ہے اور پہلو پھیر کر چل دیتا ہے۔ اور جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے۔۔۔﴿فصلت ۔۔۔ ٤۹-۵۱﴾

ذرا دیکھئے گا ۔۔۔ کہیں ہمارا آپکا حال تو نہیں بیان کیا جا رہا ؟ بڑی دعائیں کرتے ہیں ہم کہ یا اللہ یہ دے دے ، یا اللہ وہ دےدے ۔ اور پھر جب وہ نہیں ملتا تو بجائے اس کے کہ اس کو حکمت ربانی پر محمول کریں ، ہم مایوسی کے عالم میں کہہ اٹھتے ہیں کہ اللہ تو ہماری سنتا ہی نہیں ۔ ہماری تو دعا ہی قبول نہیں ہوتی ۔ حالانکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ اخلاص سے کی ہوئی کوئی دعا کوئی عبادت رد نہیں ہوتی ۔ مومن کے نامہ اعمال میں لکھ دی جاتی ہے اور اس کے بدلے میں آخرت میں کیا ملنے والا ہے ، یہ علام الغیوب ہی بہتر جانتا ہے ۔ اور اس کی سنت ہے کہ وہ تو بہت بڑھا چڑھا کر جزا دیا کرتا ہے ۔ جیسا کہ ایک حدیث شریف میں بتایا گیا ہے کہ جو ادنیٰ درجے کا جنتی ہو گا اس کو دنیا سے دس گنا بڑی جنت عطا کی جائے گی ۔ اب سوچئے کہ ہم اور آپ بھلا کیا مانگتے ہیں ؟ اور آخرت میں کم سے کم کیا ملنے والا ہے ۔

اچھا ! دعا قبول ہو گئی اور جو مانگا مل گیا تو ہم کیا کرتے ہیں ؟ یا اللہ بیٹی کی شادی اچھی جگہ کرا دے ۔ اچھا رشتہ بھیج دے ۔ اور جب اچھا رشتہ آگیا تو پھر شادی کی تیاریوں اور تقریبات میں جو کچھ ہم کر رہے ہوتے ہیں وہ ہرگز اللہ کو راضی کرنے والے اعمال نہیں ہوتے ۔ گانا بجانا ، ڈانس پارٹیاں ، ہلڑ بازی ، نمود و نمائش ، اسراف ، نمازوں سے غفلت وغیرہ ۔ چلو بھئی شادی ہو گئی ۔ اب بچی اپنے گھر خوش نہیں تو پھر اللہ یاد آ گیا۔ اور خدانخواستہ بچی واپس گھر لوٹا دی گئی تو بجائے اپنی بد اعمالیوں کا محاسبہ کرنے کے اور شادی کے ہنگاموں کے دوران کی جانے والی خرافات کا جائزہ لینے کے ، اپنے رب اور تقدیر سے شاکی ۔ اسی طرح کامیابیوں پر لمبے چوڑے دعوے ۔۔۔ میں نے یہ کیا ۔۔۔ میں نے وہ کیا ۔۔۔ اور ناکامیوں پر ۔۔۔ اگر میں یوں نہ کرتا تو یہ نہ ہوتا ۔۔۔ اگر میں ایسا کر لیتا تو یہ ہو جاتا۔۔۔ کیا ہم مسلمان اس طرح کی باتیں نہیں کرتے ؟ کیا یہ سب تقدیر پر ایمان کے تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہے ؟ یاد کیجئے ! ایمان تو یہ ہے کہ بندہ اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پر ، آخرت پر اور ہر راحت یا مصیبت اللہ کے حکم سے نازل ہونے پر اور موت کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر ایمان لائے ۔ تو مذکورہ بالا کلمات زبان سے ادا کرنے والوں کو فوری طور پر اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے ۔

حضرت لقمان غلام تھے ۔ ان کا امیر ایک رحمدل شخص تھا اور ان سے بڑی محبت سے پیش آتا تھا ۔ ایک دن امیر کے پاس تحفے میں ایک بڑا خوش شکل خربوزہ آیا۔ امیر نے حضرت لقمان کو بلا بھیجا۔ امیر کا حکم پاتے ہی حضرت لقمان آئے اور ادب سے اس کے سا منے بیٹھ گئے۔ آقا نے ہاتھ میں چھری سنبھالی اور خربوزہ کاٹ کر ایک قاش حضرت لقمان کو دی ۔ انھوں نے مزے لے لے کر وہ قاش کھائی ۔امیر نے دوسری قاش کاٹ کر انھیں دی۔ وہ بھی لقمان نے نہایت ذوق و شوق سے کھائی۔ پھر اس نے تیسری قاش دی ،پھر چوتھی،یہاں تک کہ آقا نے سترہ قاشیں حضرت لقمان کو دیں اور انھوں نے ہر قاش بڑی رغبت سے کھائی۔ آخر میں ایک قاش باقی رہ گئی۔ آقا نے کہا “جی چاہتا ہے ،یہ قاش میں خود کھاؤں۔ معلوم ہوتا ہے خربوزہ بے حد شیریں ہے،جبھی تو نے سترہ قاشیں اتنے مزے لے لے کر کھائی ہیں۔” حضرت لقمان نے وہ آخری قاش بھی کھانے کی خواہش ظاہر کی، لیکن آقا نے نہ دی اور وہ اپنے منہ میں رکھ لی۔قاش کا منہ میں رکھنا تھا کہ سارا منہ حلق تک کڑواہو گیا۔اس نے جلدی سے تھوک دی اور پانی منگا کر خوب کُلیاں کیں۔لیکن دیر تک اس کی کڑواہٹ نہ گئی اور منہ کا مزا خراب رہا۔اس نے نہایت تعجب سے حضرت لقمان کی طرف دیکھا اور کہا:”لقمان! تو نے کمال کیا کہ یہ زہریلا خربوزہ اتنا شوق ورغبت سے کھایا اور اپنے چہرے سے ذرا خبر نہ ہونے دی کہ اس کی خوش رنگی اور خوش نمائی محض دھوکا ہے۔کیا یہ بھی صبر کی کوئی نرالی قسم ہے؟ حیرت ہے کہ تو نے کوئی اشارہ اس کڑوے خربوزے سے محفوظ رہنے کا نہ کیا۔اتنا ہی اشارہ کر دیا ہوتا کہ یہ نا پسندیدہ ہےاور مجھے اس کے کھانے میں عُذر ہے۔”حضرت لقمان نے ادب سے جواب دیا “اے آقا ، کیا عرض کروں۔کچھ کہتے ہوئے حیا آتی ہے ۔میں نے ہمیشہ تیرے نعمت بخشنے والے ہاتھ سے اتنا کھایا ہے کہ مارے شرم کے گردن نہیں اٹھا سکتا ۔ یہ سوچ کر تلخ قاشیں کھائیں کہ جب تمام عمر اس ہاتھ سے انواع و اقسام کی لذیذ لذیذ نعمتیں کھاتا رہا ہوں تو صد حیف ہے مجھ پر کہ صرف ایک کڑوا خربوزہ کھا کر شور مچانے لگوں اور نا شُکری کا اظہار کروں۔حقیقت یہ ہے کہ تیرے شیریں ہاتھ نے اس خربوزے میں تلخی چھوڑی ہی کہاں تھی کہ میں شکایت سے اپنی زبان کو آلودہ کرتا؟”

سبحان اللہ ! اللہ والوں کے سوچنے کا انداز ہی نرالا ہوتا ہے ۔ کیوں نہ ہم بھی ایک تجربہ کر کے دیکھیں ۔ ہفتے میں ایک دن دس منٹ کے لئے کاغذ قلم یا کمپیوٹر لے کر گوشہ تنہائی میں بیٹھ جائیے ۔ سب سے اوپر اس دن کی تاریخ درج کیجئے اور پھر ان تمام نعمتوں کا اندراج کرنا شروع کر دیجئے جو آپ کو میسر ہیں۔ یقیناً آپ سب کچھ تو نہیں لیکن بہت کچھ شمار کر سکتے ہیں ۔ اپنی ذات سے آغاز کیجئے ۔ مجھے میرے رب نے اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔ میں دیکھ سکتا ہوں ۔ میں سن سکتا ہوں ۔ میں بول سکتا ہوں ۔ میں چل سکتا ہوں ۔میں لکھ سکتا ہوں ۔ میں پڑھ سکتاہوں ۔ میں سانس لے سکتا ہوں ۔ میں عقل و سمجھ رکھتا ہوں ۔ میں کھا پی سکتا ہوں۔ وغیرہ ۔ اب اپنے کمرے کا جائزہ لیجئے ۔ پنکھا لگا ہوا ہے جو ہوا دے رہا ہے ۔ ایئر کنڈیشنر لگا ہوا ہے جو گرمی کی شدت محسوس ہی نہیں ہونے دے رہا ۔ لائٹ لگی ہوئی ہے جس سے روشنی نکل رہی ہے ۔ بجلی آ رہی ہے ۔ آرام دہ بستر موجود ہے ۔ اوڑھنے کو نرم ملائم کمبل میسر ہے ۔ الماری میں متعدد بیش قیمت اور آرام دہ ملبوسات موجود ہیں ۔ کئی جوڑی جوتے، چپل ، سینڈل موجود ہیں ۔ ڈریسنگ ٹیبل پر طرح طرح کے پرفیومز اور کریمز کا انبار موجود ہے ۔ لیپ ٹاپ موجود ہے جس پر میں نہ جانے کیا کیا کر سکتا ہوں ۔ ایک کِلک سے دنیا جہان کی معلومات تک رسائی حاصل کر سکتا ہوں ۔ موبائل فون موجود ہے جس پر لمحوں میں گھر بیٹھے ہی دنیا کے کسی بھی گوشے میں رابطہ کر سکتاہوں ۔ کمرے کے ساتھ ہی واش روم موجود ہے ۔ غسل اور طہارت کے حصول کے تمام اسباب موجود ہیں ۔ صابن ، شیمپو ، کنڈیشنر ، شاور جیل ، تولیہ وغیرہ سب کچھ موجود ہے ۔ نت نئے ڈیزائنز کے چمچماتے ہوئے نلکے لگے ہوئے ہیں ۔ جن میں پانی آ رہا ہے ۔ اس پانی پر ہی غور کیجئے ۔ ایک نلکے سے ٹھنڈا پانی نکل رہا ہے تو دوسرے میں گیزر سے گرم پانی آ رہا ہے ۔یہ پانی کہاں سے آ رہا ہے ؟اوپر ٹنکی سے ۔ اور اوپر ٹنکی میں کیسے جا رہا ہے ؟پانی کی موٹر سے ۔ جو کہ درست کام کر رہی ہے ۔ زیر زمین ٹینک میں بھی پانی بھرا ہوا ہے ۔ کمرے سے باہر دیگر کمرے ہیں ۔ ڈرائنگ روم میں قالین ، میز، صوفے ، پردے اور دیگر اشیاء موجود ہیں ۔ ساتھ ہی آرائش کا بہت سا سامان رکھا ہوا ہے ۔ سب کچھ نگاہوں کو کتنا بھلا لگ رہا ہے۔ باورچی خانے کا جائزہ لیجئے ۔ چولہا لگا ہوا ہے جس میں گیس آ رہی ہے ۔ یہ گیس کہاں سے آ رہی ہے ۔ سینکڑوں میل دور گیس کا کنواں ہے لیکن میں اپنے گھر پر چولہے کا ناب گھماتاہوں اور گیس آنے لگ جاتی ہے ۔ بے شمار قسم کے برتن موجود ہیں ۔ کھانے کی پلیٹیں ، پیالیاں ،پیالے ، چمچے، چھریاں ، کانٹے ، ڈونگے ، بھگونے وغیرہ ۔ پھر کیبنٹس میں کیا کیا جمع کر کے رکھا ہوا ہے ۔ دالیں ، آٹا ، گھی ، تیل ، چاول ، مصالحہ جات ، چائے کی پتی ، چینی ، دودھ وغیرہ ۔ فریج میں کیا کیا موجود ہے ۔ ٹھنڈا پانی ، کولڈ ڈرنک، مشروبات، مکھن ، پنیر ، کیچپ ، اچار ، چٹنیاں ، گوشت ، چکن ، مچھلی وغیرہ ۔ طرح طرح کے کھانے پکا سکتے ہیں ۔ انواع و اقسام کے ذائقے موجود ہیں۔ بریانی ، قورمہ ، پیزا، برگر ، پلاوَ ، نہاری ، کڑاہی گوشت ، بروسٹ وغیرہ ۔ گھر کے باہر گاڑی یا موٹرسائیکل یا دونوں موجود ہیں ۔ ان کو چلانے کے لئے ایندھن گیس پٹرول وغیرہ دستیاب ہے ۔ جب جہاں جی چاہتا ہے ، چلا جاتا ہوں ۔ بسوں، رکشہ ٹیکسی کے جھنجھٹ سے آزاد۔ پھر گھروالے ، بیوی بچے، اچھی ملازمت، اعلیٰ تعلیم، دوست احباب وغیرہ وغیرہ ۔ کیا کیا کچھ میسر ہے ! کیا یہ سب کچھ ہر کسی کو میسر ہے ؟ صرف دس منٹ کی اس مشق سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ آپ کو کون کون سی اور کتنی نعمتیں حاصل ہیں ۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿الرحمٰن﴾
تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟

اتنا سب کچھ میسر ہونے کے باوجود بھی باری تعالیٰ کا شکر ادا نہ کرنا، اس کی عبادت و بندگی اختیار نہ کرنا ، اور کڑوے خربوزے کی مانند اک ذرا سی مصیبت پر بلبلا جانا ، چلّا اٹھنا ، اسے کیا کہا جائے سوائے ناشکری کے ؟یہ دنیا راہگزر ہے ، منزل نہیں۔ ہم بہت مختصر سے وقت کے لئے دنیا میں بھیجے گئے ہیں۔ ذرا سوچئے ! کیا ہم اس بات کے متحمل ہو سکتے ہیں کہ جو کچھ ہمیں میسر نہیں ہے اس پرکف افسوس ملنے میں یہ مختصر سی زندگی گنوا دیں ؟ تو کیوں نہ ایسا کر لیا جائے کہ جو کچھ ہمیں میسر ہے ، اس کا بھرپور مزہ لیں اور اپنے رب کا شکر ادا کریں ۔

سلطان محمود غزنوی نے اپنے غلام ایاز کو ایک انگوٹھی دی اور کہا : “اس پر ایک ایسی عبارت تحریر کرو جسے اگر میں خوشی کے عالم میں دیکھوں تو غمگین ہو جاوَں اور اگر غم کے عالم میں دیکھوں تو خوش ہو جاوَں “۔ ایاز نے کچھ دن بعد انگوٹھی پر یہ عبارت لکھ کر واپس کر دی : “یہ وقت بھی گزر جائے گا۔”ایسی ایک انگوٹھی ہم بھی تو بنوا سکتے ہیں ! چلئے راحت کے عالم میں نہیں تو ابتلا کے وقت تو اس سے استفادہ حاصل کیا ہی جا سکتا ہے ۔ جب کوئی مصیبت یا پریشانی لاحق ہوئی تو اس انگوٹھی کو دیکھ لیا ۔ شاید ہم رب کریم کی ناشکری سے بچ جائیں ۔

کہیں پڑھا تھا کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک بدو کو دیکھا کہ دعا مانگ رہا ہے : یا اللہ ! مجھے اپنے قلیل بندوں میں شامل کر لے ۔ حضرت عمر ؓنے دریافت کیا کہ بھائی یہ کیا مانگ رہے ہو ؟ اس نے جواب دیا: امیر المومنین !اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا:
وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ ﴿ سبا: ١٣﴾
ترجمہ: اور میرے بندوں میں شکرگزار تھوڑے ہیں۔

تو میں بھی اپنے رب سے یہی دعا مانگ رہا ہوں کہ وہ مجھے اپنے قلیل بندوں میں شامل کر لے یعنی شکر گزاروں میں۔

آئیے ہم بھی اللہ تعالیٰ کے قلیل بندوں میں شامل ہو جائیں ۔ بہت آسان سا فارمولا ہے ۔
“خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے “۔
جو ہر حال میں یہی کہتا ہے ۔۔۔
اَلْحَمْدُ لِلَّـهِ عَلَىٰ كُلِّ حَالَ ۔۔۔
یا اللہ تیرا شکر ہے تو جس حال میں بھی رکھے ۔

https://abushaheer.wordpress.com/2012/06/06/132/

Abu Shaheer
About the Author: Abu Shaheer Read More Articles by Abu Shaheer: 5 Articles with 2900 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.