سیاسی ڈائیٹنگ

چوہدری کھاجا خان ملک صاحب کے دو ہی شوق ہیں ،ایک ڈائیٹنگ کرنا ،دوسرا سیاست میں آنا،اوّل الزکر شوق اس لئے ہے کہ موصوف ہر اس تاثر کو ختم کرنے کی جدوجہد میں ہیں کہ جو معاشرے میں عمومی طور پر پایا جاتا ہے ،پہلا یہ کہ ڈائیٹنگ کرنا صرف خواتین کا کام ہے ،دوسرا ، سیاست میں قو می یکجہتی کا فقدان ہے ۔ثبوت کے طور پر ان کا نام ہی کافی ہے۔چوہدری کھاجا خان ملک صاحب نوڈیرو نواب شاہ سندھ اور بلوچستان جھل مگسی (جسے روانی میں چل مگسی بھی کہہ دیتے ہیں )سے الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں،پنجاب اور خیبر پختون خواہ سے بھی ضرور حصہ لیتے ،مگر اس کا دارومدار کسی بھی نامزد امید وار کی نااہلی ،گرفتاری یا پھر طبعی عمر کے پورا ہوجانے پر ہے-

اس بات سے پر امید ہیں کہ ووہ جیت بھی جائیں گے ،اس لئے کہ موصوف ،بچپن سے ہی لڑنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، اس موضوع کو ان کی الیکشن کی کامیابی کے بعد تک کے لئے اٹھائے رکھتے ہیں ، جس کا ا ن کو تو پورا یقین ہے ۔مگر عوام کو نہیں ہے ۔اس لئے پہلے ان کی ڈائیٹنگ پر آتے ہیں ۔ ڈائیٹنگ سے مراد ہے کم کھانا،اب کتنا کم کھانا ،اس بات کا تعین کرنا ممکن ہی نہیں مشکل بھی ہے۔

کھاجا صاحب جب بڑے ہوئے اور ان کو اس بات کا علم ہوا کہ ملک کی 51 فی صدآبادی (جو کہ صنفِ نازک کہلاتی ہے)کا بھی نہ صرف یہ شوق ہے بلکہ ضرورت اور بعض حالات میں مجبوری بھی ہے تب انہوں نے سکھ کا سانس لیا کہ چلو،ان کی سوچ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہے۔،اور یہ بات وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اجتماعی شوق اور سوچ کا ہونا ،ملک و قوم کی بہتری اور ترقی کا باعث ہو تا ہے۔اب دیکھیں نا !اگر کھاجا صاحب اکیلے ہی کھانے پینے سے ہاتھ کھینچ رہے ہوتے تو اس سے صرف ان کو ہی فائدہ تھا اب اگر 51فی صد آبادی ڈائیٹنگ کے نت نئے طریقے اور ٹوٹکے آزما رہی ہے تو سوچیں اور غور کریں کہ اس سے کھانے پر کس قدر کم خرچ ہو رہا ہے ،اور قومی بچت میں بھی ا ضافہ ہو رہا ہے ۔

ان حالات و واقعات کودیکھتے ہوئے یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فی زمانہ حضرتِ انسان اس معاملہ میں بھی کافی حساس واقع ہوئے ہیں اب ان کے چھوٹے بھائی چوہدری میاں پی جا خان ملک صاحب کو دیکھ لیں کہ نہ صرف خود سلم و سمارٹ نظر آنا چاہتے ہیں بلکہ اپنی زوجہ محترمہ کو بھی اُکساتے رہتے ہیں،اور اس پر ظلم یہ کہ ہمیشہ دوسری خاتونِ خانہ کی مثال سامنے رکھتے ہیں کہ ’’میں چاہتا ہوں کہ تم فلاں کی طرح نازک اور سلم و سمارٹ نظر آؤ،تم نے فلاں عورت دیکھی ہے کتنی دبلی پتلی ہے ،چلو کرینہ کی طرح سا ئز زیرو ہی کر لو۔‘‘ایسے شوہروں سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں پوچھیں کہ ان بیچاری گھریلوں خواتین نے کون سا فلموں میں اینٹری دینی ہے کہ جو اپنی فگر کی فکر کریں ۔

یہاں گھریلو میاوؤں کی بات ہو رہی ہے ۔جو بھیگی بلی بنے ہوتے ہیں ،باہر شیر ہوتے ہیں گھر میں مٹی کا ڈھیر ہوتے ہیں خادمِ اعلی سمجھنے کی غلطی کو ئی نہ کرے۔میاں صاحب کی یہ باتیں بجائے مثبت تبدیلی لانے او ر اثر دکھانے کے بیگم صاحبہ کو ہی دکھی کر دیتی ہیں پھر وہ ٹینشن میں آکر رات کے کھانے میں ایک پلیٹ سالن اور دو روٹیوں کا مزید اضافہ کر دیتی ہیں،باوثوق زرائع کے مطابق سستی روٹی سکیم کی شروعات یہیں سے ہوئی،اور ناکامی کی وجہ بھی same ہی ہے ۔کیا تھا اگر دو کی بجائے چار روٹیاں ہوتیں اور وہ بھی چوپڑی ہوئی ویسے بھی اب تو سیاسی پارٹی کے جلسوں میں ہی کھانے کے تھال نظر آتے ہیں،جن کو دیکھ کر عوام بے قابو ہو جاتی ہے مردانہ وار آگے بڑھتی ہے اور ،مزید مردانگی کا ثبوت دیتے ہوئے دیوانہ وار کھانے پر ٹوٹ پڑتی ہے ، ایسے ہی موقع پر اپنے وطن کے ان نوجوان شیروں پر فخر ہوتا ہے،اقبال نے غالبا انہیں کے لئے کہا ہے کہ ،
جھپٹنا ، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

ہمیں اقبال کے شعر کی اب سمجھ آئی ہے اور ہم تو ان کے اس شعر کے قائل بھی ہو گئے ہیں ،شاعر کہتا ہے کہ کارنر میٹنگز میں اور جلسوں میں شرکت تو اک بہانہ ہے ،اصل مقصد تو گرم گرم کھانے پر جھپٹنا ،اور نہ ملنے کی صورت میں پھر پلٹنا ، عوامی ناتواں جسموں جاں کو گرم رکھنے کی اک زرا سی سازش ہے،اہو! معاف کیجیے گا کوشش ہے ۔

اپنے وطن میں جن کو تین چھوڑ چار وقت کا کھانا ملتا ہے وہ سکندر،جس غریب کو ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں وہ ہوتا ہے جیل کے اندر۔۔۔

ہاں تو ہم بتا رہے تھے کہ ملک کھاجا خان صاحب نے بچپن سے ڈائیٹنگ تو شروع کر رکھی تھی،مگر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکے،البتہ یہ ضرور تھا کہ جس رفتار سے اور جس مقدار میں وہ کھانا کھاتے تھے اس کے باوجود حیرت ہے ان پر اس قدر موٹاپا طاری نہیں ہوا تھا ،جتنا کہ ہونا چاہیے تھا۔موٹاپے کا شکار امریکیوں کے آگے تو یہ بالکل ہی کانگڑی لگتے تھے ،مگر افسوس کہ یہاں کی عوام کو اس بنیادی نقطے کا علم نہیں ہے موصوف کو گھر سے باہر اکثر کو قسطوں میں ہی نکلتے دیکھا گیاہے،پہلے توند باہر آتی پھر جہدِمسلسل سے خود باہر تشریف لاتے ہیں ، آخر ایسا کیوں نہ ہو خیر سے چاروں صوبوں کی نمائندگی جو کرتے ہیں ۔

ان کے سیاسی منشور میں یہ بات شامل ہے کہ اب روٹی کا نعرہ نہیں لگے گا۔جب ’’ ملک‘‘ کو کھانے کی سہولت موجود ہے تو سستی روٹی جیسی اسکیمیں شروع کر کے سستی شہرت حاصل کیوں کی جائے،جہاں تک کپڑے کی بات ہے تو لنڈے بازار بھرے پڑے ہیں کپڑوں سے ،اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ منشور میں ان کاذکر ہو،اب رہ گئی مکان کی بات تو اﷲ کی زمین بہت وسع ہے جس کا جدھر منہ اوردل کرتا ہے اپنے سینگ سما لے ۔۔

کھاجا صاحب ڈائیٹنگ کے معاملے میں اس قدر حساس ہیں کہ جب سے ان کو پتہ چلا ہے کہ ڈرپ لگوانے سے بھی جسم پھول جاتا ہے تب سے انہوں نے ہمیشہ ڈرپ لگوانے سے گریز کیا اور اس سے نا صرف خوفزدہ ہیں بلکہ گھبراتے بھی ہیں ۔اور اگر کبھی خدانخواسطہ اس کی ضرورت پڑتی بھی ہے تو ڈاکٹر صاحب سے مؤدبانہ گزارش کرتے ہیں کہ ڈرپ کا پانی گلاس میں ہی ڈال دیں،ویسے ہی پی لیں گے ، مگر خدارا ڈرپ نا لگائیں اس بات کو سیاسی بیان سمجھ کر ڈاکٹر صاحبان صرف مسکرانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں،شکر ہے احتجاج نہیں کرتے ۔

ماسی سیانی اکثر اس بات پر افسوس کرتی نظر آتی ہے کہ کہ مرد بیشک پڑولا ہی کیوں نہ ہو جائے ہمیشہ اہل سمجھا جاتا ہے خواہ یہ مرد سیاست میں ہو ں،بڑے عہدے پر فائز ہوں یا پھر مولوی ہی کیوں نہ ہو آئین کے ہر تناظرسے دیکھا جائے تو سب کامیاب ہیں۔اور اگر عورت زرا سی بھی موٹی ہو جائے تو اس کو شادی کے قابل بھی نہیں سمجھا جاتا ، اکثر ماسی اس کی ایک پرانی مثال دیتے ہوئے غصے سے کہتی ہے کہ اب اپنے ملک کے سپر سٹار کو ہی دیکھ لو،موصوف خاتون کی صرف خوبصورت آواز پر ہی فدا ہو گئے تھے ،بلکہ فورا نکاح بھی کر لیا،مگر جب جسمانی ساخت ملا حظہ کی تو چودہ طبق روشن ہو گئے،چٹ منگنی ،پٹ بیاہ اور جھٹ طلاق دے ڈالی ،اگر بچاری موٹی تھی تو کیا ہوا ،نازک سا دل بھی تو رکھتی تھی ،حضرت کچھ دیر انتظار ہی کر لیتے ہو سکتا ہے کہ ڈائیٹنگ کر کے خود کو سلم سمارٹ ہی کر لیتی ۔

ہم ماسی سیانی کو بہت دفعہ بتا چکے ہیں کہ یہ بات اب قصہء پارینہ ہو چکی ہے ۔چھوڑ دو اس بات کو، اب تو محترم شادی بھی کر چکے ہیں اور خوش و خرم اپنی زندگی گزار رہے ہیں ، مگر افسوس !کہ سیاست دانوں کی طرح بات نہ ماننا، اور گڑھے مردے اکھاڑنا اس کی بھی عادت بنتی جا رہی ہے۔
مریم ثمر
Saima Maryam
About the Author: Saima Maryam Read More Articles by Saima Maryam: 49 Articles with 48322 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.