انتخابی منشور، سبزباغ یا ٹرک دی بتی!

انتخابات کیا شروع ہوئے سیاسی جماعتوں میں موجود مفکرین کی چاندی ہوگئی اور دھڑاڈھڑ ان ملکی مسائل کی فہرستیں بننے لگیں جو سابقہ حکومت حل نہیں کرسکی تھی یا جن مسائل کو تشکیل پاکستان کے بعد سے ابھی تک حل نہیں کیا جاسکا۔ ایسے ایسے مسائل اٹھائے جارہے ہیں جن کو دیکھ کو ہر شخص یہ تسلیم کرتا ہے کہ واقعی اگر یہ مسائل حل ہوجائیں تو ملک سدھر سکتا ہے اور بعض سادہ آدمی تو انہی انتخابانی منشوروں کو سن کر سابقہ حکومت ہی نہیں بلکہ سابقہ حکومتوں کو برابھلا کہہ رہے ہیں کہ ان لوگوں نے اتنے اہم مسائل کو اتنے آسان حل ہونے کے باوجود حل کیوں نہیں کیا؟

بجلی کا مسئلہ ہو یا گیس کی کمی کا عفریت ، امن امان کی مخدوش صورتحال ہو یا بے روزگاری کا جن، ٹیکس چوری کی مصیبت ہو یا اداروں میں کرپشن، طبقاتی نظام تعلیم پر واویلا ہو یا خواتین کے حقوق کا نوحہ، گرتی ہوئی اخلاقی قدریں ہوں یا فحاشی کا سیلاب، غرض ملک کے تمام سیاسی و سماجی مسائل کو انتخابی منشوروں کے ذریعہ چٹکیوں میں حل کیا جارہا ہے-

ہمیشہ کی طرح ہمارا پھر یہی سوال ہے کہ کیا واقعی معاملات اتنے آسان اور معمولی ہیں جتنے انتخابی منشوروں میں پیش کیے جارہے ہیں؟ لوڈشیڈنگ ہی کو لے لیں جس کے بارے میں تین مہینے سے لے کر تین سال تک کے دعوے کیے جارہے ہیں جبکہ ملک کے معتبر اور اسٹریٹجیک ادارے اور ماہرین بتا چکے ہیں کہ ۲۰۱۹ تک پاکستانی عوام اس مشکل سے جان نہیں چھڑا سکے گی۔ اسی طرح دہشت گردی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ہم مذاکرات کریں گے ان کے ساتھ بات کریں گے گویا تصور یہ ہے کہ ان پارٹیوں کی طرف سے بات کی جائے گی اور دوسری طرف دہشت گرد تنظیمیں آمنا و سملنا کہہ کر فورا ہی تخریب کاری سے باز آجائیں گی اور ملک میں امن و امان کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ دہشت گردی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں امریکہ سمیت بہت سے خلیجی ممالک ملوث ہیں اور بہت ہی دہشت گرد تنظیموں کو وہیں سے فنڈنگ ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر ہماری سیاسی تنظیمیں دہشت گرد تنظیموں سے مذاکرات کریں گی تو آپ کی رائے میں دہشت گرد تنظیموں کے مطالبات کیا ہونگے ؟ کیا وہ پاکستان کے دشمن یا دوست نما ممالک کے مفادات کے تحفظ کا مطالبہ نہیں کریں گی؟! خیر بات سے بات نکلتے ہوئے کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔

ایک اور مشکل جو ان منشوروں میں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ تمام انتخابی اور تنظیمی منشور اس پس منظر میں لکھے جاتے ہیں کہ ان کی پارٹی بھاری اکثریت سے جیت کر اپنے تمام وعدے پورے کرے گی اور انتخابی منشور کو جامہ عمل پہنائے گی۔ پاکستان کے معروضی حالات اس حقیقت کی نشان دہی کررہے ہیں کہ اگلی حکومت ہر صورت میں مخلوط حکومت ہوگی اور اگر واقعی ایسا ہوا تو ایسی صورت میں کس پارٹی کے انتخابی منشور پر عمل ہوگا؟ پانچ سال ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں گزر جائیگی اور اس کے بعد ایک دوسرے پر الزامات لگائے جائیں گے کہ فلاں شخص اور فلاں پارٹی نے ہمیں عوام کی مشکل حل نہیں کرنے دی۔

ملکی حالات اور سیاسی پارٹیوں کے رویے کو دیکھتے ہوئے ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ انتخابی منشور سبز باغ نہیں ہے بلکہ "ٹرک دی بتی" ہے -

جواد احمد
About the Author: جواد احمد Read More Articles by جواد احمد: 10 Articles with 6813 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.