پاک فوج اور نظریہ پاکستان

چند ہفتے قبل انتخابات کے پہلے مرحلے کے دوران ریٹرننگ افسران نے آئین کی دفعات 62 اور 63 پر ہلکا پھلکا عمل درآمد کرنے کی کوشش کی تو سیکولر حلقوں نے اودھم مچا دیا۔ ان آئینی دفعات میں کہا گیا ہے کہ کوئی ایسا شخص جو نظریہ پاکستان کے منافی کام کرتا ہو، اس کا چال چلن ٹھیک نہ ہو اور ضروری اسلامی معلومات نہ رکھتا ہو، وہ پارلیمان کا رکن نہیں بن سکتا۔ بلاشبہ بعض مقامات پر ریٹرننگ افسران نے اپنے اختیارات سے تجاوز بھی کیا لیکن بہرحال امیدواروں کی چھان پھٹک ایک آئینی تقاضا تھا، جس پر کچھ نہ کچھ ضرور عمل درآمد ہورہا تھا۔ سیکولر طبقے نے میڈیا کے ایک بڑے حصے کی مدد سے اس سارے عمل کو متنازع بنادیا۔ بدقسمتی سے کسی بھی مذہبی یا سیاسی جماعت کو ان دفعات کے حق میں بولنے کی توفیق نہیں ہوئی، صرف ایک سینئر اور جرات مند صحافی انصارعباسی تھے، جو سےکولر قوتوں کو دندان شکن جواب دیتے رہے۔ مذہبی طبقے کی خاموشی کا نتیجہ یہ نکلا کہ عدلیہ میڈیا اور سیکولر قوتوں کے دباؤ میں آگئی، جس کی وجہ سے نااہل قرار پانے والے لوگوں کو ایک، ایک کرکے اہلیت کے سرٹیفکیٹ ملتے گئے۔ ایسے شخص کو بھی اچھے کردار کا حامل قرار دے دیا گیا، جس نے بھری عدالت میں شرابی ہونے کا اعتراف کیا تھا۔

سیکولر طبقے نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نظریہ پاکستان کے خلاف بھی خوب دل کی بھڑاس نکالی۔ یہاں تک ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اسلام اور پاکستان دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں، عوام کے ذہنوں میں یہ بھی ٹھونسا گیا کہ تحریک پاکستان کے دوران اسلام کی کوئی بات نہیں ہوتی تھی۔ پاکستان کا مطلب کیا.... لاالہ الااﷲ جیسے نعروں کا آزادی کی تحریک سے کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ یہ سب بعد کی پیداوار ہے۔سیکولروں نے اس پر بس نہیں کیا بلکہ یہ تاثر بھی دیا کہ پاک فوج بھی نظریہ پاکستان کی اس تشریح کی حامی ہے، جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اﷲ کے نعرے سے وجود پانے والی فوج کے بارے میں ایسا تاثر قائم ہونا یقینا ملک وقوم کے لیے انتہائی خطرناک تھا۔

عام لوگ پاک فوج سے متعلق سیکولر حلقوں کی اس رائے کو درست نہیں سمجھتے تھے لیکن پرویزمشرف کے دور میں فوج کی جس طرح نظریاتی سمت بدلنے کی ناپاک جسارت کی گئی تھی، اس سے یہ خدشات ضرور پیدا ہوگئے تھے کہ کہیں فوج کی نظریاتی اساس پر پرویزی کلہاڑا چلنے میں کامیاب تو نہیں ہوگیا ہے۔ سابق فوجی صدر نے پاک فوج کو جس طرح اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف استعمال کیا، اس سے ان خدشات کو تقویت ملتی تھی۔ پاک فوج کو جس طرح امریکی جنگ میں جھونکا گیا، کمانڈوز کے ذریعے لال مسجد کو ”فتح“ کرایاگیا، پاک سرزمین اللہ اور رسول کا نام لینے والوں پر تنگ کردی گئی، خاص طور پر فوجیوں کے لیے مذہب سے وابستگی کو جرم بنادیا گیا، باریش ہونا مشکوک ہونے کی علامت قرار پایا۔ ان چیزوں سے پاک فوج کی اسلامی شناخت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔

بلاشبہ جنرل اشفاق پرویزکیانی نے فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد کئی ایسے اقدامات کیے ہیں جس سے اس کی ساکھ مےں کسی قدر بہتری آئی ہے۔ بالخصوص مسائل کو طاقت کی بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی پالیسی کو ہرطرف سے سراہا گیا ہے، اگر سویلین حکومت بھی فعال کردار ادا کرتی تو ملک کے کئی حصوں میں جاری خانہ جنگی کی صورت حال پر کنٹرول پایا جاسکتا تھا۔ اسی طرح جنرل کیانی کی افغان پالیسی کے ملکی اور علاقائی صورت حال پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ پرویزمشرف کے دور میں افغانستان میں پاکستان کو دشمن ملک کے طور پر لیا جاتا تھا، آج وہاں پاکستان کے دوستوں کی تعداد دشمنوں سے کہیں زےادہ ہے۔جمہوری حکومت کے معاملات مےں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند رہنا ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن جنرل کیانی نے کبھی حکومت کی راہ میں روڑے نہیں اٹکائے۔ بعض لوگوں نے ان پر ستو پی کر سونے جیسے جملے بھی کسے مگر آرمی چیف نے جمہوری حکومت کو کام کرنے کا پورا پورا موقع دیا۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن پاک فوج کی نظریاتی پالیسی کے حوالے سے بہرحال سوالات اور اشکالات اپنی جگہ موجود تھے۔ اتوار کے اخبارات میں چھپنے والے جنرل کیانی کے دوٹوک بیان نے پاک فوج کی نظریاتی پالیسی بھی واضح کردی ہے۔

پاک فوج کے سربراہ نے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول (جو فوجی افسران کی بنیادی تربیت گاہ ہے)میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور اسلام کو کبھی بھی پاکستان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔“ جنرل کیانی کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ پاک فوج کے نزدیک اسلام ہی نظریہ پاکستان ہے اور یہ بھی کہ پاکستان کی بقا کا راز اسلام ہی میں مضمر ہے۔ یقینا آرمی چیف کا یہ بیان ان لوگوں پر بجلی بن کر گرا ہوگا جو پاکستان کو اسلام سے کاٹنا چاہتے ہیں۔ محب وطن حلقے جنرل کیانی کے بیان پر شاداں وفرحاں ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ پاک فوج پاکستان کے اسلامی تشخص کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔

دل جلے ”ملاملٹری الائنس“ جیسے جملوں سے فوج اور مذہبی طبقے کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ فوج اور مذہبی حلقے فطری اتحادی ہیں، ملک پر جب بھی برا وقت آیا، دفاع کے لیے سب سے پہلے مذہبی لوگ آگے بڑھے۔ 48ءکا کشمیر محاذ ہو یا 65ءاور 71ءکی جنگیں، مذہبی نوجوان ملکی سا لمیت کے لیے فوج کے ساتھ کھڑے تھے۔ جب روس نے افغانستان پر یلغار کی اور اس جارحیت سے پاکستان کی سلامتی داؤ پر لگ گئی تو یہ مذہبی لوگ ہی تھے جو دفاع وطن کے لیے سپرپاور سے ٹکراگئے۔ مقبوضہ کشمیر اور دیگر محاذوں پر مذہبی نوجوان جو کردار ادا کرتے رہے ہیں اور اب بھی کررہے ہیں، اس سے پاک فوج کی اعلیٰ قیادت بخوبی واقف ہے۔ ملک دشمنوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ فوج اور مذہبی طبقے کو ایک دوسرے سے لڑادیا جائے، کیونکہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جب تک فوج اور مذہبی طبقہ ایک ساتھ رہے گا پاکستان کا ایک بال بھی بےکا نہیں کیا جاسکتا۔ بدقسمتی سے پرویزمشرف کے دور میں فوج اور مذہبی لوگوں کو ایک دوسرے سے بدگمان کرنے کی سازش کسی حد تک کام دکھاگئی ہے، جس کا خمیازہ آج ملک وقوم بھگت رہی ہے۔

نظریہ پاکستان جوکہ نظریہ اسلام ہی ہے، اس سے مضبوط وابستگی ملکی سلامتی کی ضامن ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ پاک فوج سمیت ملکی ادارے جتنے اسلام اور اسلامی قوتوں کے قریب ہوں گے، اتنا ہی ملک مضبوط اور محفوظ ہوگا۔
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 102852 views i am a working journalist ,.. View More