ڈاکٹر شریف احمد:بحیثیت استاد،محقق ،منتظم

ڈاکٹر شریف احمدکا شمار اردو کے ان اساتذہ میں ہوتاہے جنہوں نے اردو شعر وادب کو انگریزی اور دوسری زبانوں کے ادبیات اور ان کے فنی محاسن سے ہم آمیز کیا اور اردو کی اہمیت پرزور بھی دیا۔استاد محترم کی انہیں خصوصیات نے ان کو تحقیقی اور تنقیدی تحریروں کے تقاضوں سے قاصر رکھا۔یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر شریف احمد کی چند کتب ہی منظر عام پر آسکی ہیں جن میں’’عبدالحلیم شرر شخصیت اور فن ‘‘کو کافی اہمیت حاصل ہے ۔غالب کے سلسلے میں کہا جا تاہے کہ اگر ان کو کل ادبی سرمائے سے محروم کر دیا جائے اور صرف اردو کلیات کو ہی باقی رکھا جائے تو ان کی اہمیت اور افادیت میں کوئی کمی نہیں آئے گی یہی قول ڈاکٹر شریف احمد کی کتاب پر صادق آتا ہے ۔

ڈاکٹر شریف احمد کے سلسلے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ اسم بامسمی تھے ڈاکٹر شریف احمد یکم اپریل 1930کو امروہہ(اترپردیش)میں پیداہوئے ۔ابتدائی اورثانوی تعلیم اپنے آبائی وطن پر ہی حاصل کی اورپھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ممبئی منتقل ہوگئے۔انٹر میڈیٹ بی اے اور ایم اے کے امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کیا ۔تعلیم مکمل کرنے کے لیے 1950میں کرناٹک کالج دھاروارڈ میں اردواور فارسی کے اسسٹنٹ لیکچرر مقرر ہوئے اس کے بعد تقریباً ایک سال انفنٹسن کالج ممبئی میں تدریس کی خدمت انجام دی۔بعد آزاں 1958میں شعبہ اردو یونیورسٹی آف جموں اینڈ کشمیر سری نگر میں اردو کی تدریس کی۔ڈاکٹر شریف صاحب کی ہمیشہ خواہش رہی کہ وہ دہلی یونیورسٹی میں بحیثیت استاد وہ اپنی خدمات پیش کریں۔چنانچہ جنوری 1962 میں دہلی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف پوسٹ گریجویٹ اسٹیڈیز (ایوننگ کلاسیز) میں شعبہ اردو کے استادمقرر ہوئے اور 1995تک اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے۔

دوران تذکرہ اور ڈاکٹر فیروز دہلوی کے مضمون (شائع کردہ ایوان اردو دہلی ستمبر 2012)سے پتہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب کو موسیقی سے کافی شغف تھا۔اپنے طالب علمی کے زمانے سے ہی ممبئی میں منعقد ہونے والے متعدد پروگراموں میں حصہ لیتے تھے ۔1953میں کاؤس جی جیانگر ہال(ممبئی)میں ہندوستانی موسیقی کے سالانہ میلے میں ایکسپرٹ کے ساتھ اپنی غزل سرائی کا مظاہرہ بھی کیا۔اس بات کا انکشاف ڈاکٹر مظہر نے شعبہ اردو کے تعزیتی جلسے میں کی تھی کہ کلاسیکی موسیقی کا اتنا لگاؤ تھا کہ جب ہم لوگ ان کے گھر کبھی جاتے تو دیکھتے کہ گھنٹوں وہ موسیقی کے کیسٹ سن رہے ہیں ۔

ڈاکٹر شریف صاحب استاد تو اردو کے تھے مگر ان کی دلچسپیاں دیگر میدانوں میں بھی تھیں اس میں ایک میدان تھیئٹر کا ہے ۔وہ 1952سے 1954تک انڈین پیوپلز تھیئٹر ایسو سی ایشن کے ممبر بھی رہے۔ اس کے علاوہ 1969میں غالب صدی کے موقع پر دہلی یونیورسٹی میں غالب پر اسٹیج کئے گئے ایک ڈرامے میں انہوں نے بطور اداکارحصہ لیا۔

ڈاکٹر صاحب کے بارے میں یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ان کی چند تصانیف ہی منظر عام پرآسکی تھیں۔ انہوں نے تحقیقی مقالہ عبدالحلیم شرر شخصیت وفن کے علاوہ متعدد تنقیدی مضامین قلمبند کئے جوکہ 1977میں ’’مشاہدے‘‘کے نام سے شائع ہوئے۔ان کی ایک اہم کتاب عالمی تہذیب وتمدن سے متعلق ’’تہذیب کی منزلیں ‘‘کے عنوان سے منظر عام پر آئی ۔ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کاایک پہلو ان کا مترجم ہونا بھی ہے۔ انہوں نے جتیندر کمار کے ناولٹ’’تیاگ پتری کا اردو میں ترجمہ ’’استعفیٰ’’ کے نام سے کیا۔یہ ترجمہ پہلے رسالہ ’’شاہراہ‘‘دہلی کے ناولٹ نمبر میں شائع ہوا، بعدمیں ممبئی سے کتابی شکل میں منظر عام پرآیا۔اس کے بعد 1955امریکی ناولٹ نگار ہمینگوے کے معروف ناول’’Old man and she sea‘‘کا ترجمہ ’’ساحل اور سمندر ‘‘کے نام سے کیا۔

’’عبدالحلیم شرر شخصیت وفن‘‘ سے متعلق ڈاکٹر فیروز دہلوی لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے مقالے کی تکمیل کے بعد کئی لوگ اس موضوع کی طرف متوجہ ہوئے۔اورانہوں نے ڈاکٹر صاحب کے تحقیقی مطالعے سے بھر پور فائدہ اٹھا یا اوراس چراغ سے اپنے چراغ روشن کئے۔دوران تدریس سری نگر کشمیرکے دوماہی رسالہ’’نیا شعور‘‘مرتب کیا۔دہلی یونیورسٹی کے ایوننگ انسٹی ٹیوٹ کے رسالے Eventaileکے آٹھ سال ایڈیٹر رہے۔اس کے علاوہ کتابوں پر تبصرہ سے متعلق رسالہ’’ادبی تبصرے‘‘ڈاکٹر صاحب نے چند اشخاص کے ساتھ مل کر شائع کیا۔

ڈاکٹر صاحب کے تصنیفی میدان کا ایک اہم حصہ متعدد کتابوں پرپیش لفظ کا بھی ہے۔اس کے علاوہ سو سے زائد ریڈیائی تقریریں اور تبصرے ہیں ۔اس کے علاوہ متعدداداروں کے رکن بھی رہے جن میں اردو اکادمی، دہلی شامل ہے۔

ڈاکٹر شریف احمد کی عبدالحلیم شرر پر ادبی کاوش کی اہمیت یوں بھی ہے کہ محققین نے شرر پر بہت کم دھیان دیا ان کی بیش بہا نگارشات کی قدر ومنزلت کو جس طرح منظرعام پر لانا چاہئے وہ کام نہیں ہوسکا تھا ۔ڈاکٹر شریف احمد صاحب نے اس کام کا بیڑا اٹھا یا اورشرر کی تمام نگارشات کو کما حقہ چھان پھٹک کرکے ایک ایسی کتاب تصنیف کی جس سے عبدالحلیم شرر کی زندگی اوران کے تمام فنی گوشے منظر عام پر آسکے ۔

ان کے مطالعے سے یہ بات ہم پر عیاں ہوتی ہے کہ آٹھ ابواب پر اس کو تقسیم کیا گیا ہے جس میں پہلے باب میں مصنف کے زمانی، سیاسی وسماجی حالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔باب دوم میں حیات وشخصیت کے تمام ضروری اورنمایاں پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔باب سوم کے تحت ان کی تصانیف کو فہرست کے اعتبار سے نقل کئے گئے ہیں ۔چوتھے باب میں ناول پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔پانچویں باب میں شرر کے انشائیوں سے متعارف کرایاگیا ہے ۔چھٹا باب تاریخ وسوانح کے عنوان سے لکھاگیا ہے جبکہ ساتویں باب میں شاعری ،تراجم اور ان کی دوسری فنی سرمایہ پر گفتگو کی گئی ہے ۔

آخری اور آٹھواں باب اسلوب واثر ات کے عنوان سے ہے جوکہ کسی بھی ادبی کاوش کا اہم حصہ ہوتا ہے ۔اس باب کے تحت شررکے کردار کو اردو شعروادب میں نمایاں کیا گیا ہے اوران کے منفرد انداز واسلوب کو اردو کی بدلتی ہوئی قدروں کی اہمیت اور ضرورت پر زوردیاگیا ہے ۔

ڈاکٹر شریف احمدکی یہ تصنیف معلومات کا ایسا ذخیرہ ہے کہ اس کے مطالعے سے ایک دور کے ادبی رنگ وآہنگ کا بخوبی اندازہ لگانے کے ساتھ ساتھ اردوادب وفکشن سے دلچسپی پیدا ہوجاتی ہے کسی بھی تحریر کا یہ کمال ہے کہ قارئین کے اندر مطالعے کا شوق و جذبہ پیدا کردے اور یہی کام اپنی تصنیف کے ذریعے ڈاکٹر شریف احمد کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اوراپنی گفتگو میں بھی یہی مقصد رکھتے تھے ۔

ڈاکٹر صاحب کی آزاد طبیعت نے تنقید وتحقیق کے تمام اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے ایک ادبی نقطۂ نظر سے بھی اپنا ایک اندازواسلوب قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ان کی یہ تصنیف اساتذہ اور تحقیق کے طالب علموں کے لیے ایک مقامی نومنہ ثابت ہوسکتی ہے اس کتاب کی تیاری میں جوبھی کمیاں اور نقص رہ گیا ہے اس کا اعتراف اس کتاب کے ویباچہ میں مصنف نے کیا ہے ۔

’’زیر نظر مقالہ جیسا کہ کتاب کی لوح پر مرقوم کیاگیا،۱۹۷۷ء میں پی ایچ ڈی کے لیے دہلی یونیورسٹی میں پیش کیا گیاتھا اور آج تقریباً بارہ سال کے بعد شائع ہورہا ہے۔ گزشتہ بارہ سال میں ’’شرریات ‘‘ سے متعلق کچھ مضامین اور کتابیں بھی منظر عام پرآچکی ہیں۔۔ایک طریقہ یہ تھا کہ ان سے بھی استفادہ کیا جاتا۔۔ لیکن یہ طریقہ کار مجھے علمی دیانت کے خلاف معلوم ہوا۔ چنانچہ مقالہ کسی طرح کی ترمیم،تنسیخ یا اضافہ کے بغیر ہی قارئین کرام کی
خدمت میں پیش کیا جاتاہے‘‘
۔ ش۔ا۔، ۲۰؍مارچ ۱۹۸۹ء
بحوالہ ،تقریب ، عبدالحلیم شرر شخصیت وفن،ڈاکٹر شریف احمد ۔

جیسا کہ پہلے ہی کہا جا چکا ہے کہ ڈاکٹر شریف کی تمام تر صلاحتیں درس وتدریس کی نذر ہوگئیں اور تصنیف وتالیف کے میدان میں کوئی بڑا ذخیرہ چھوڑ کر نہیں گئے صرف چند کتابیں اور چند مضامین ہی ان کی ادبی وفنی حیثیت مسلم کرنے کے لیے کافی ہیں ۔اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک استاد نے اپنے فرائض انجام دئیے ۔

ہم ہندستانیوں نے بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر غالب کو ہندوستان میں اردوکی قومی شاعر کا خطاب عطاکیااور بعد موصوف کے ارتحال کے ان کی شخصیت کو خوب سراہا ۔زمانہ قدیم سے ہم سب اس قدیم اور کہنہ روایت کی پاسداری کرتے آرہے ہیں اور کسی بھی بڑے ادیب وشاعر کو ان کے موت کے بعد ہی ان کی قدروں کو سراہتے ہیں جو ادبی کفر نہیں تو تسامح ضرور ہے ۔

شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کے سابق صدرو استاد ڈاکٹر شریف احمد کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ان کے انتقال پر پورے عالم میں نشستیں ہوئیں ۔شعبہ اردو کروڑی مل کالج میں مجھ سے بھی نہیں رہا گیا لہٰذا میں نے بھی اپنے قیام گاہ پر تعزیتی جلسے کا انعقاد ۔جس میں شرکاء نے ان کے علمی وادبی خدمات کا اعتراف کیا اوران کی مغفرت کے لیے دعا کی ۔

اس تعزیتی جلسہ میں میں نے پروفیسر شریف احمد کی درس وتدریس کو ماضی کے جھروکوں کی روشنی میں پیش کرتے ہوئے مغفور کی تعلیمی اور دانشورانہ صلاحیتوں کا حوالہ دیا اور اپنے ایک سبق کا ذکرتے ہوئے پروفیسر شریف احمد کی تحریروں کے بارے میں کہا۔’’میری تحریریں ہمیشہ عدل،انصاف،صداقت کا مرقع،انسان دوستی قومی یکجہتی ،اخوت و مروت،شجاعت،بھائی چار گی اورسیکولر زم پر مبنی ہوتی ہیں میں نے اسی لیے اپنی یہ تحریریں آپ کی خدمت میں پیش کی ہیں اگر اس تحریر نے آپ کا جذبہ اندرون بیدار کردیا اوراگر ایک شاندار مستقبل کے لیے آپ کی امنگوں نے نئی کروٹ لی تو میں سمجھوں گا کہ میرے قلم نے جسے میں قوم کی مقدس امانت سمجھتا ہوں اپنی حرمت باقی رکھی اوراپنا فرض ادا کردیا۔

پروفیسر شریف احمد صاحب بچوں کی تعلیم و تربیت اور اساتذہ کی ذمہ داریوں کے بارے میں بخو بی واقف تھے۔ انسانی دماغ معاشرے کے لیے ایک راہ متعین کرتی ہے ۔فطرت نے انسانی دماغ کی تشکیل کچھ اس طرح کی ہے کہ ابتدا سے ہی بچہ اپنے آس پاس اوراپنے بڑوں سے سیکھتا ہے ۔ماہرین تعلیم میں ایک پرانی بحث ہے اوراس کا فیصلہ آج تک نہیں ہوسکا کہ آیا بچہ اپنی زندگی کی راہ اپنی وراثت میں لے کر دنیا میں آتا ہے یا ماحول کے اثرات سے یہ راہ متعین ہوتی ہے ۔میرا ذاتی خیال ہے کہ ہر بچہ فطری نظام کی مشین کا ایک پرزہ ہے اور کار ساز فطرت خود جانتا ہے کہ کون سا پرزہ کس جگہ فٹ ہوگا بچپن کے نامساعد حالات اور غلط ماحول کے اثرات کے باوجود کچھ کو جو کچھ ہونا ہوتا ہے بن جا تا ہے۔ تاہم ماحول کے اثرات اورتعلیمی تاثرات کونظر انداز نہیں کیا جاتا ہے ۔کسی قوم کے لیے ایک لائحہ عمل ایک مخصوص قسم کی تعلیم سے ہی بن سکتا ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ علمی سرگرمیاں ہر دور میں انسان کی توجہ کا مرکز بنی رہی ہے ۔لیکن علمی سرمایہ کسی ایک ملک یا کسی ایک قوم کے پاس مقیدنہیں رہا ۔بلکہ بڑھتا رہا پھیلتا رہا۔کبھی ایک قوم نے سرپرستی کی کبھی دوسری قوم نے تاریخ کا مطالعہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ جس قوم نے علوم وفنون کی قدردانی کی اوران سے صحیح معنوں میں استفادہ کیا وہ امامت کے منصب پرفائز رہیں۔اورجن قوموں نے انہیں نظر انداز کیا یا ان سے غلط استفادہ کیا وہ اپنے بلند مقام کو بہت جلدکھو بیٹھیں اورانہیں دوسروں کا مطیع بن کر رہنا پڑا ۔مصر کی تہذیب ،چین کا تمدن،یونان کی شائستگی ،روما کی عظمت ان سب نے اپنے دور میں علم کی سرپرستی کی اور بام عروج پرپہنچیں اور جب وہ قومیں عیش وعشرت اور رقص وسرود کی محفلوں میں کھو کر علمی کاوشوں سے دور ہوگئیں تو ان کی امامت اوران کی بلندی قصۂ پارینہ بن کر رہ گئی۔

امامت کا دامن ہمیشہ علم سے وابستہ رہے گا ۔جو طبقہ یا گروہ علم کی صفت میں دوسرے طبقے یاگروہوں سے آگے بڑھ جائے گا ۔ وہ اسی طرح ان سب کا امام بنے گا جس طرح انسان من حیثیت النوع دوسری انواع ارضی پر اسی چیز کی وجہ سے خلیفہ بننے کا اہل ہوا ہے۔

ایسے اساتذہ کو زمانہ ہمیشہ اپنے دلوں میں زندہ رکھے گا ۔جنہوں نے اس نکتے کا پاس رکھا ۔پروفیسر شریف احمد نے اپنے تعلیمی وتربیتی کاوشوں سے ایک پوری نسل کی آبیاری کی ہے ۔ موصوف کی چند تصنیفات ہی منظرعام پرآسکی ہیں ۔لیکن ایک مدرس کی حیثیت سے وہ کامیاب اور مفید ثابت ہوئے۔

ڈاکٹر فیروز دہلوی کے ایک مضمون کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ استاد محترم ایک اعلیٰ پایہ کے خطیب ہونے کے باوجود تصنیفی میدان میں کوئی بڑا ذخیرہ چھوڑ کر نہیں گئے۔ اس کی وجہ دریافت کی جائے تو استاد محترم کی ذاتی زندگی میں درپیش مسائل نے ان کی نفسیاتی گوشوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بچپن میں والد محترم کے والدہ اور نوخیز بچے کو چھوڑ کر پاکستان ہجرت کرنے کے صدمے نے ان کو زندگی بھر متاثر رکھا۔ جبکہ ماں نے اس دھرتی کی ماں (مادرہند) کی آغوش میں ہی پناہ لینی ضروری سمجھی اور ڈاکٹر شریف صاحب نے پیروی کی لیکن باپ کے سایہ عاطفت سے محروم ہونے پر زندگی جن مسائل سے دوچار ہوئی ہے ممبئی امروہہ اوردہلی کی سفر اور دربدری سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

تقسیم ہند تاریخ کا المیہ ڈاکٹر شریف احمد ایک کثیر آبادی کا جوکہ تقسیم ملک کے وقت دوچار ہوئے استعارہ ہے۔ لہٰذا کہاجا سکتا ہے کہ موصوف تقسیم ہند کے المیہ کا متحرک اور فعال شخصیت کے مالک ر ہے۔ یعنی تقسیم میں وہ ماں کے حصے میں ماں کے ساتھ ہندوستان میں رہ گئے اور والد پاکستان چلے گئے۔ لیکن صداقت وشرافت، علم ویانت داری اور تلاش وجستجو سے اگر پوری زندگی میں اگر صرف ایک اچھا کام بھی ہوسکا تو میں سمجھتا ہوں کہ تھوڑا بہت حق ادا کردیا۔ ورنہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔

میرے موصوف سے دیرینہ تعلق تھے۔ استاد اپنے اور دوسرے شعبہ کے طلبا کے ساتھ یکساں طور پر پیش آتے تھے وہ اکثرکہا کرتے تھے کہ اگر کامیا بی حاصل کرنی ہو تو دوزبانوں پر کمال حاصل کرنا ضروری ہے۔وہ خود انگریزی شعروادب میں مہارت رکھتے تھے جس کی وجہ سے انگریزی زبان کے ذریعہ اردو کو بہت فائدہ پہنچایا۔اس دوران ایک واقعہ کا ذکرکرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ شعبہ کے اساتذہ اورطلبا کی موجودگی میں اس وقت کے صدر شعبہ نے انگریزی میں لکھا ہوا ایک رقعہ اصلاح کے لیے استاد محترم کو دیا ۔استاد محترم نے ایک بار دیکھا اور واپس کرتے ہوئے بولے کہ میں سمجھ گیا ہو جو آپ لکھنا چاہتے ہیں میں اسے لکھ کر آپ کے حوالے کردوں گا ۔شریف احمد صاحب کی موت اد ب کے لیے تو نقصاندہ ہے ہی لیکن وہ محفلوں کی جان بھی تھے ۔پروفیسر شریف احمد ایک باہمت بلند حوصلہ اورزندہ دل انسان تھے۔ انسانی اقدار کی عظمت جو ان کے خیال میں تھی وہ بے حد اہم اور بابرکت تھی ۔ان کے ادبی کارنامے کا تعین آنے والا وقت کرے گا۔ لیکن ان کی درس وتدریس انتہائی احترام کے ساتھ یاد کی جائے گی۔وہ باصلاحیت انسان تھے زبان وبیان پر انہیں دسترس حاصل تھی ۔وہ کسی کی دل آزاری نہیں کرتے تھے وہ جس محفل میں ہوتے اسے زعفران زار بنا دیا کرتے تھے ۔ وہ ایک عمدہ استاد اور بہترین ادیب ودانشور کے علاوہ اچھے انسان بھی تھے ۔نئے اور با صلاحیت لوگوں کے حوصلہ افزائی کیا کرتے وہ بڑے پارکھ انسان تھے ۔ طالب علموں کی صلاحیت کے معیار کے مطابق درس وتدریس دیا کرتے تھے ان کی رحلت ایک ایسا خلاء ہے جو اردو ادب میں جلدی نہیں بھرا جا سکتا ۔ شریف احمد صاحب کے درس کا عالم میں نے دیکھا ہے کہ جب وہ کسی سمینار میں خطبہ دیا کرتے تھے تو ان کے ہمعصر ہی نہیں بلکہ ان کے وقت کے اکابرین ان کی طرف متوجہ ہوجا یا کرتے تھے اور ہمہ تن گوش ہو کر تقریر کوسنتے۔

ڈاکٹر شریف احمد کی علمیت کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر ریاض احمد(جموں)نے فون پر کہاکہ جب وہ درس کے دوران بول رہے ہوتے تو ایسا لگتا کہ علم کا دریا ٹھاٹھیں ماررہاہو اور گھنٹوں گزرنے کے بعد بھی وہ تازگی اور تشنگی باقی رہتی ۔خدا ان کی مغفرت کرے اورجنت میں ان کے درجات بلند کرے ۔ ساتھ ہی میں شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کے اساتذہ اور ڈاکٹر شریف احمد صاحب کے طلبا جو پورے دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں سے درخواست کرتا ہوں کہ موصوف کا جو بھی غیر مطبوعہ سرمایہ ہے ان کو تلاش کریں اور کتابی شکل میں منظر عام پر لائیں،تاکہ اردو زبان وادب اور اس کے طلبا کا موصوف کے ادبی کارنامے سے فائدہ ہو ۔
Dr. Mohammad Yahya Saba
About the Author: Dr. Mohammad Yahya Saba Read More Articles by Dr. Mohammad Yahya Saba: 40 Articles with 121950 views I have Good academic record with a Ph.D. Degree in Urdu “Specialization A critical study of Delhi comprising of romantic verse, earned Master’s Degree.. View More