اُف یہ بیس کا نوٹ

کسی بھی ملک کی پہچان وہاں کا لباس ،طرزِمعاشرت،خوراک اور اس ملک کی کرنسی ہوا کرتی ہے ،جیسا کہ عرب ممالک میں ریال چلتا ہے مغربی ممالک میں ڈالر اور یورو بھا گتا ہے ،جبکہ اپنے وطن،عزیز میں روپیہ کچھ عرصہ قبل تو اچھا خاصا چلا کرتا تھا،مگر اب نہ صرف سُست روی سے رینگتا ہے بلکہ آئے دن اس کا کاغذی پیرہن ،گرگٹ کی طرح رنگ اور فیشن کی طرح سائز بدلتا ہے۔

گزشتہ کچھ سالوں میں تو ہمارے ان نوٹوں نے اس قدر رنگ ،سائز،انداز اور تیور بدلے ہیں کہ اتنی دیر میں تو ہمارے حکمران ملک کی تقدیر بدلنے کاصرف سوچ ہی سکتے ہیں۔فیصلہ کرکے اس پر عمل کرنا تو کہیں دُور کی بات ہے۔ہمارے ملک کی کرنسی اچھے بھلے سائز اور شوخ رنگوں کی ہوا کرتی تھی، سب ایک دوسرے سے مختلف تھے ،اس وجہ سے باآسانی ان میں تمیز ہو جایا کرتی تھی۔

اب 20اور 5000کے نوٹ کو ہی لے لیں،دونوں کے رنگ ڈھنگ اور سائز میں معمولی سا ہی فرق ہے ،جس کی وجہ سے غریب عوام الناس کی اکثریت کئی دفعہ نقصان بھی اُٹھا چکی ہے ۔فائدہ عوام کی خاطرچند سبق آموز آبیتیاں اکھٹی کی ہیں ،جو آپ کی نظر کرتے ہیں۔۔کسی مشاعرے میں شامل امیرِمشاعرہ کی طرح ہم اپنا تازہ کلام۔۔اہو!معاف کیجیے گا،تروتازہ واقعہ ،آپ کے گوش گزار کرتے ہیں۔

ہوا کچھ یوں تھا کہ ہم راولپنڈی کی جانب محوپرواز تھے،یہ اور بات تھی کی کہ ہمارا سفر ۔۔ با ئی روڈ تھا۔موٹر وے پر تو ایسا ہی لگ رہا تھا کہ جیسے ہم ہواﺅں میں اُڑ رہے ہیں ۔سفر کا مزہ اس وقت آتا تھا ،جب بس ،۔۔موٹر وے سے اُترتی ، ہچکولے کھاتی ،لہراتی مسافروں کو اچھل کود کرواتی،خراماں خراماں چلتی چلی جاتی ہے۔ہمیں تو تب ہی پتہ چلتا کہ لو جی!۔ اصل سفر تو اب شروع ہوا ہے۔

سفر کے دوران ایک جگہ بس رکی۔چنے بیچنے والا بس میں داخل ہوا۔۔ہم نے سوچا کیوں نہ سفر کو مزید خوشگوار بنانے کے لئے چنے چبائے جائیں،ویسے بھی حکومت ہمیں گزشتہ پانچ سالوں میں خوب ناکوں چنے چبوا چکی ہے۔۔اسی روشن خیالی کے تحت ہم نے چنے لینے کا پختہ ارادہ کر لیا ۔۔اور چنے لے لئے۔۔پھر ایک شانِ بے نیازی اور لاپر واہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے ہاتھ پر 30 روپے تھمادیئے۔۔10 کا نوٹ تو اس نے رکھ لیا۔۔مگر ۔۔۔اُف وہ 20کا نوٹ (جسے ہم20 کا ہی سمجھ رہے تھے)ہمارے سامنے لہرا کے بولا،”اے کی دے رہے اوجی!“ہم اس کی طرف متوجہ ہوئے۔۔،غور سے جو دیکھا،۔۔۔۔تو پہلے ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی، پھر ہمارے اوسان خطا ہو گئے،فوراََ اس کے ہاتھ سے 5000کا نوٹ اُچک لیا۔۔حالانکہ اس کی ضرورت نہیں تھی ۔کیونکہ وہ بیچارہ تو خود ہمیں ہمارا نوٹ واپس کر رہا تھا۔۔۔خیر جناب ہم نے سردی میں بھی ماتھے پر آئے پسینے کو پونچھا۔۔اور اس کی ایمانتداری سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ،ابھی کچھ انعام دینے کا سوچ ہی رہے تھے کہ بس چل پڑی اور چنے بیچنے والا بس سے اتر گیا۔۔اسی لئے تو کہتے ہیں کہ نیکی کے کاموں میں دیر نہیں کرنی چاہیے،درآصل ہم اس سوچ میں غلطاں تھے کہ اس دَور میں کہ جہاں کرپشن ،لوٹ کھسوٹ ،حرص و ہوس کا دور دورہ ہے ۔۔کیسے ایمانداری کی ایسی شاندار مثال قا ئم ہو سکتی ہے۔۔؟؟

اب ہم ان وقعات کا ذکر کرتے ہیں کہ جن میں رقم کی ادائیگی کی نیت تو 20 روپے دینے کی تھی ،مگر دے دئیے گئے پورے5000 روپے سکہ رائج الوقت۔۔جو کبھی واپس نہ ملے، اس سلسلے کا پہلا واقع کچھ یوں ہے کہ ہماری ایک جاننے والی کی والدہ محترمہ ٹرین میں سفر کر رہیں تھیں،ایک اسٹیشن پر جب آکے گاڑی رکی تو ساتھ ہی کھڑکی سے ایک فقیر نے صدا لگائی۔ازراہِ ہمدردی انہوں نے پرس سے ۔۔اپنی طرف سے تو 20 کا نوٹ ہی دیا مگر گھر آکر پتہ چلا کہ کچھ زیادہ ہی فیاضی کا مظاہرہ ہو گیا ہے۔۔وہ 20کا نہیں بلکہ 5000 کا نوٹ تھا۔۔اب اس فقیر کو فقیر کہنا کہاں کی عقلمندی ہے۔

ہم تو یہ سوچ رہے ہیں کہ کا ش اس فقیر کو بھی پتہ چل گیا ہو کہ اُس کے دن بھی پھر گئے ہیں دو یا تین دن کے لئے ہی سہی۔۔یہ بھی عین ممکن ہے کہ مفت لگی دولت ہاتھ آنے پراسی ریلوے اسٹیشن پر کہیں دھمال ہی نہ ڈال رہا ہو، اسی طرح ایک گھر میں پلمبر جب کام ختم کر کے جانے لگا تو اتفاق سے اس کی مزدوری مبلغ 20 روپے بنی۔۔خاتونِ خانہ نے بغیر دیکھے 20کا نوٹ اس کو تھما دیا۔۔۔یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ ان کی صاحبزادی نے5000 کا نوٹ ان کے پرس میں رکھ دیا تھا۔۔جو کہ اب پلمبر کے پاس جا چکا تھا۔۔ان کو آج تک یہ ہی خوش فہمی ہے کہ انہوں نے20 کا نوٹ ہی دیا ہے،ان کی بیٹی نے ڈانٹ ڈپٹ کے ڈر سے یہ بات اپنی والدہ کے گوش گزار ہی نہیں کی ،اب ہو سکتا ہے کہ یہ مضمون پڑھنے کے بعدان کو علم ہو جائے۔مگر اب ان کو اطمینان کا سانس لینا چاہیے۔کہ اور بھی بہت سے اسی قسم کے واقعات و حادثات ہو چکے ہیں۔۔وہ پنجابی میں کہتے ہیں ناکہ ”ہتھ ہوگیا۔۔اس لئے ایک تو حکومت سے گزارش ہے کہ20 اور5000کے نوٹ کا رنگ تبدیل کیا جائے،اور معصوم عوام سے درخواست ہے کہ آنکھیں کھول کراور بغور دیکھنے کے بعد ہی ادائیگی کیا کریں۔ خدانخواستہ ،کہیں مستقبل قریب میں آپ کے ساتھ بھی کوئی ہتھ نہ ہو جائے۔
مریم ثمر

Saima Maryam
About the Author: Saima Maryam Read More Articles by Saima Maryam: 49 Articles with 48526 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.