ایک روتا پیٹتا کالم

ابھی ہم خادمِ اعلیٰ کی ”جنگلا بس سروس“ کا ”نوحہ“ لکھنے کے منصوبے باندھ ہی رہے تھے کہ ہماری سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے ”قاضی“ صاحب نے ہمارے مُرشد سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔یہ دِل کے پھپھولے تو خیر ہم بعد میں پھوڑیں گے پہلے ذرا جنگلا بس سروس جسے مسلم لیگ (نواز) نے آمدہ الیکشن میں کامیابی کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنے کی ٹھان رکھی ہے ۔محترم میاں نواز شریف صاحب فرماتے ہیں ”ڈاکٹر طاہرالقادری کا طریقہ درست ہے نہ نیت“۔تو کیا چھوٹے میاں صاحب کی نیت اور طریقہ درست ہے ؟۔ایک ایسا منصوبہ جسے کم از کم ایک دہائی میں مکمل ہونا چاہیے تھا اُسے محض گیارہ ماہ میں مکمل کرکے اُنہوں نے ”Slow and steady wins the race“ جیسے تاریخی مقولے کوغلط ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی ہے جو ہر گز قابلِ قبول نہیں کیونکہ اگر وہ اسی طرح سے مقولے پہ مقولہ غلط ثابت کرتے چلے گئے تو ہماری ساری علمی ”تپسیا“ دریا بُرد ہو جائے گی اور ہم یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ
بہ عہدِ نَو ہوا سارا ہی کاذب
بزرگوں نے ہمیں جو کچھ کہا تھا

کوئی بتلائے کہ یہ کہاں کی ملک و قوم کی خدمت ہے کہ اربوں روپے کیڑے مکوڑوں پر صرف کرکے ہم جیسے دھرتی کے ماتھے کے جھومروں کو حسد کی آگ میں جھونک دیا جائے ۔پہلے جب ہم اپنی چمچماتی گاڑی میں کسی مصروف شاہراہ سے گزرتے تھے تو اطراف میں موجود ”حشرات الارض “ کو بسوں ، ویگنوں کی طرف لپکتے دیکھ کر ہماری گردن میں سریا آ جاتا اور احساسِ تفاخر سے ہمارا رواں رواں کانپنے لگتا ۔تب ہمیں یہ یقین بھی ہو جاتاکہ صرف ہم ہی وہ چیدہ اور چنیدہ لوگ ہیں جنہیں اشرف المخلوقات کہلانے کا حق ہے اِن ” فُٹ پاتھیوں“ کو نہیں۔لیکن ہماری ننھّی مُنی خوشیوں کے ازلی دُشمن بلکہ قاتل چھوٹے میاں صاحب کو یہ ایک آنکھ نہ بھایا ۔اب ہم نیچے سڑک پر بھیڑمیں خوار ہوتے پھریں گے اور ”ریپیڈ بس“ کیڑے مکوڑوں کو بھر کر ہمارے سَروں کے اوپر سے زوں زوں کرتی گزر جایا کرے گی۔یہ جنگلا سروس بنانے سے تو کہیں بہتر تھا کہ میاں برادران ”بلاول ہاؤس“ کراچی کے نواح میں اپنے لیے دس، دس ارب کے تین بُلٹ پروف گھر بنا لیتے جس سے ہماری عزتِ نفس مجروع ہونے سے بھی بچ جاتی اور نواز لیگ بھی اِس سے بھرپور سیاسی فائدہ بھی اِس طرح اٹھا سکتی کہ جنابِ آصف زرداری جو بحریہ ٹاو ¿ن لاہورمیں دس ارب کا گھر بنا کر اُن کے سینوں پر مونگ دَلنے آن وارد ہوئے ہیں ، یہ تین ، تین گھر بنا کر زرداری صاحب کے سینے پر ” مونگ ، ماش اور مسُور“ تینوں دلناشروع کر دیتے ۔لیکن میاں برادران بھلا ایسا کیوں کرتے ، اُنہوں نے تو بقولِ مُرشد پیپلز پارٹی سے ”مُک مُکا“ کر رکھا ہے ۔بہرحال عزت سب کی سانجھی ہو نہ ہو پیاری سب کو ہوتی ہے اِس لیے ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب ”فیروز پور روڈ“کو اپنے لیے شجرِ ممنوعہ قرار دے دیں گے۔ہمارا دوسرا فیصلہ یہ بھی ہے کہ یہ کیڑے مکوڑے لاکھ نواز لیگ کو ووٹ دیتے پھریں لیکن ہمارے ”پُرکھوں“ کی بھی توبہ جو پھر کبھی ایسی جماعت کا نام تک اپنی زبان پر لائیں جس نے ہماری ایک ”مقبوضہ سڑک“ کو ہمارے لیے واہگہ بارڈر بنا دیا۔ اب بھی اگر چھوٹے میاں صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اور وہ اپنے ”طبقہ اشرافیہ“ کی جانب پلٹنا چاہیں تو اُن کی درخواست پر ہمدردانہ غور کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ ریپڈ بس کے لیے بنائی گئی سڑک کو صرف اشرافیہ کے لیے مختص کر دیں۔اگر وہ ہر جگہ یہ گُنگناتے پھرتے ہیں کہ ۔۔۔ ایسے دستور کو ، صبحِ بے نور کو ۔۔۔ میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا ۔ تو ہم بھی میاں صاحب کے بنائے ہوئے ایسے دستور کو ماننے کے لئے ہر گز تیار نہیں جو ہماری عزتِ نفس مجروح کرے۔

ابھی ہم دِل کے پھپھولے ”ریپڈ بس“ کی وجہ سے پھوڑ ہی رہے تھے کہ اعلیٰ عدلیہ نے اُن پھپھولوںپر نمک پاشی بھی شروع کر دی اور ہمیشہ حکم دینے کے عادی ہمارے پیرِ طریقت و شریعت کو واشگاف الفاظ میں ”شیخ الاسلام “ تسلیم کرنے کے باوجود ، حکم دیا کہ پہلے وہ یہ ثابت کریں کہ وہ ”امپورٹڈ“ نہیں ہیں۔کوئی عدالتِ عظمیٰ سے پوچھے کہ کیا اُس نے ہمارے مُرشد کو ”لنڈے کا مال“ سمجھ رکھا ہے جو وہ یہ ثابت کرتے پھریں کہ وہ ”میڈ اِن پاکستان“ ہیں ”میڈ اِن کینیڈا“ نہیں ۔ ہمارے چیف صاحب کو شاید تجربہ نہیں کہ لنڈے کے مال کی مخصو ص مہک سے تو فضا متعفن ہو جاتی ہے جب کہ حضرتِ شیخ الاسلام جہاں جہاں سے گزرتے ہیں ، فضائیں عطر بیز ہوتی چلی جاتی ہیں۔اُنہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ کینیڈین شہریت کا حصول بہت جان جوکھم کا کام ہے ۔مُرشد کو تو 1999 ءمیں ہی کینیڈا کی مستقل سکونت مل چکی تھی ، وہ تو درمیان میں 2002ءکے انتخابات آن ٹپکے اور ”نا ہنجار آمر“ نے مُرشد کو دست بستہ کہا کہ وہ اُسے داغِ مفارقت دینے کی بجائے اپنی صلاحیتیں پاکستان کے لئے بطور وزیرِ اعظم وقف کر دیں ۔مُرشد نے کمال شفقتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس کی بات مان لی ، الیکشن لڑا اور قلندرانہ قناعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف اپنی ہی سیٹ جیتی۔لیکن بدبخت آمر غُچہ دے گیا اور مُرشد مستعفی ہو کر کینیڈا سدھارے۔کچھ بَد خواہوں کی شہ پا کر شاید اب کچھ بد باطن یہ سوال بھی کھڑا کر دیں کہ شیخ الاسلام تو 1997ءمیں ہی کینیڈین شہریت کے لئے درخواست دے چکے تھے اور اعمال کا دارومدار تو نیتوں پر ہوتا ہے جبکہ شیخ الاسلام کی ”مسلمہ نیّت“ ملک چھوڑ جانے کی تھی تو پھر وہ 2002ءکے انتخاب میں حصّہ لینے کے اہل کیسے ہو گئے ؟۔کسی بحث میں اُلجھے بغیر ایسی ”ابلیسانہ اور خبیثانہ“ سوچیں رکھنے والوں کے لیے یہی جواب کافی ہے کہ حضرتِ شیخ اُس وقت بھی اسمبلی کی نشست کو لات مار کر باہر چلے گئے تھے اور اب بھی وہ ایسی کرپٹ اسمبلی کا حصّہ بننے کو تیار نہیں ۔

لگتا ہے کہ ہمارے چیف جسٹس صاحب اور اُن کے ساتھی جج صاحبان مُرشد کے کشف وکرامات اور جلا ل سے آگاہ نہیں تھے اگر ایسا ہوتا تو وہ مُرشد سے ایسے ”اوکھے اوکھے “ سوالات کرتے نہ مُرشد کی درخواست کو ردی کی ٹوکری کی نظرکر تے۔شاید اعلیٰ عدلیہ کی اسی کم علمی اور بھولپن کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے مُرشد تھوڑی دیر کے لیے جلال میں آئے اور پھر ٹھنڈے ٹھار ہو کر لاہور سدھارے۔البتہ یہ طے ہے کہ مُرشد الیکٹرانک میڈیا کو معاف کرنے کا ہر گز کوئی ارادہ نہیں رکھتے ۔اِس احسان نا سپاس میڈیا نے اُن سے اربوں روپے کے اشتہارات بھی ہتھیا لیے اور اب طوطا چشمی کی انتہا کرتے ہوئے اُنہی کا ”میڈیا ٹرائل“ بھی کر رہے ہیں۔ہر نیوز چینل گڑے مُردے اُکھاڑرہا ہے۔ ایک معروف اینکر نے یہ شوشہ چھوڑ ا کہ 1990ءمیں نیک نام جسٹس اختر حسن ایک مقدمے میں مُرشد کو ”نفسیاتی مریض“ قرار دے چکے ہیں جبکہ آج ایک معروف لکھاری اُسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ شیخ الاسلام نے سپریم کورٹ کے باہر اعلیٰ عدلیہ کے خلاف جوزہر اُگلا ہے اُس کو مدّ ِ نظررکھتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ اُنہیں توہینِ عدالت کا نوٹس دینے کی بجائے کسی ماہرِ نفسیات کے پاس بھیج دے۔سچ تو یہ ہے کہ ایسی باتیں کرنے والے بذاتِ خود نفسیاتی مریض ہیں جو مُرشد کی معرفت کی باتیں سمجھ ہی نہیں پائے۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 867 Articles with 563019 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More