علوم قرآنی کی شمع فروزاں:مدرسہ حسینیہ رانچی

رانچی میں بھی ایک تاج محل ہے۔ اس تاج محل میں سے بہت مختلف جس کے بارے میں ساحر لدھیانوی ایسےحساس شاعرنے کہا تھا:
اک شہنشاہ نے دولت کا سہاارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
اکبرآباد کا تاج محل کیا ہے؟بس نمونہ سنگ و خشت۔سفید پتھروں کی ایک پر شکوہ اور خوش نما تعمیرجسے کسی خاکی انسان کی دل لگی کے لئے کئے گئے وعدے کے ایفاء میں تعمیر کیا گیا تھا۔سیاحین کے لئے محض ایک خوبصورت عمارت اور سامان تفریح جس میں زندگی ہے نہ زندگی کی کوئی ادنی رمق۔ مردنی، پژمردگی اور یاس انگیز کیفیات سے جس کی فضائیں بوجھل اور ہوائیں ماتم کناں ہیں۔

مگر رانچی کے اس تاج محل کی اساس علم،معرفت اور آگہی کے اینٹوں پر ہے۔اس میں زندگی ہے،زندگی کی تابندگی اور تابانی ہے جو فکر و نظر کے لئے سر چشمہئ حیات اور پژمردہ قلوب کے لئے فرحت ونشاط سے مملوء ابلتا ہوا ایک سوتا ہے جس میں زنگ آلود ذہنوں کو صیقل کر کے آئینے کی طرح شفاف اور بے داغ بنانے کی تاثیر ہے۔جو امت مسلمہ کے خوابوں کی حسیں تعبیر،آرزؤوں کی تکمیل اور اس کا بیش قیمت اثاثہ ہے۔یہ نونہالان امت کی آدم گری کا وہ کارخانہ ہے جہاں جہالت و لاعلمی کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں سے پرظلمت کدے کو بقعہئ نور میں تبدیل کرنے کی خاطر قندیل رہبانی فراہم کی جاتی ہے اور کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا کر کے اس احساس کو جلا بخشی جاتی ہے کہ:
ان ہی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
تیرے آ گے زمان و مکاں اور بھی ہیں

ملت اسلامیہ کے وہ دل شکستہ اور حرماں نصیب نو نہالان کہ جنہیں حالات کی ستم ظریفی کے باعث نان شبینہ کی تحصیل کے لئے شب و روز کد وکاوش اور محنت و مشقت سے دو چار رہنا پڑتا ہے اور شمع آگہی سے قربت کا تصور بھی کم مائیگی کے سبب ان کے لئے شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے،اس کارخانہ مردم سازی میں انہیں اپنی آغوش میں لے کر ان کی خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے اور موجود لیاقتوں کو بالیدگی عطا کرنے میں وقت کثیر اور مدت مدید صرف کیا جاتا ہے پھر دنیا دیکھتی ہے کہ وہ سماعتیں جو علم آگہی کے نام سے نا آشنائے محض اور وہ دامن جو اس کے بابرکت وجود سے خالی وعاری تھے،علم وادب کے تابندہ یواقت و جواہر سے مملوء اور پر ہیں۔وہ فریب خوردہ شاہیں جنہیں کرگسوں کی نا مسعود صحبت نے کوتاہ پرواز اور علاج تنگیئ داماں کے بجائے چند کلیوں پر قانع رہنا سکھلا دیا تھا انہیں ان کے اڑان کی بلندی اور قوت پرواز سے آشنائی عطا کی جاتی ہے۔جہاں بے نشان ذروں کو تراش و خراش دے کر ”کوہ نور“ کی شکل دی جاتی ہے۔

علوم قرآنی کی وہ شمع جسے آج سے تقریباََ چھ دہائی قبل دل دردمند اور فکر ارجمند کے ساتھ روشن کیا گیا تھا،دیکھتے ہی دیکھتے اس کی فیض رساں کرنیں جہالت و شقاوت کی تاریکیوں کے سینے کو چاک کرتے ہوئے نہ صرف اطراف ہند بلکہ اکناف عالم میں پھیل گئیں اور سیکڑوں بلکہ ہزارہا ہزار کی تعداد میں تشنگان علوم قرآنی اس سے سیراب ہوتے رہے جس کا مبارک و مسعود سلسلہ از آں دم تا ایں دم اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ جاری و ساری ہے۔
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن ہوتے ہیں جس سے تہ و بالا
یہی وجہ ہے کہ:
کہسار یہاں دب جاتے ہیں طوفان یہاں رک جاتے ہیں
اس کاخ فقیری کے آگے شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں

اس دانش گاہ کو روز اول سے ہی عالی مرتبت اسلاف سے تعلق اور ان کی سرپرستی و معاونت حاصل رہی ہے چنانچہ اس کے نام کا انتساب شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی معروف بہ”شیخ الاسلام“ کی ذات بابرکات کی جانب استبراک کرتے ہوئے ”مدرسہ حسینیہ“تجویز کیا گیا۔ایک طویل مدت تک جانشین ِشیخ الاسلام فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی رحمہ اللہ نے بھی اس ادارے کی سرپرستی فرمائی اور تا دم واپسیں موقع بموقع قدم رنجہ ہوتے رہے اور اب سلسلۃ الذہب کی یہ کڑی دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم،جمعیۃعلماء ہند کے صدر ذی وقار حضرت مولا ناسید عثمان منصورپوری حفظہ اللہ اور قائد ملت حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی حفظہ اللہ جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہندوسابق رکن پارلیمنٹ(راجیہ سبھا)ودیگر اساطین امت سے منسلک ہے۔

اس گلستان علم وفن کی زینت جہاں عالی مقصد،بلند حوصلہ؛باذوق اور شب وروز خود کو لگا بلکہ کھپا دینے والے اساتذہئ کرام کے دم سے وہیں اس کی خوب صورتی،شادابی،بوقلمونی،رنگارنگی؛دل کشی اور جاذبیت میں اس چمن کے باغبان حقیقی اور اس دانش گاہ کے بانی ورئیس الاہتمام، خلیفہئ شیخ الاسلام حضرت مولانا ازہر صاحب دام ظلہم کی کاوش پیہم،جہد مسلسل،دعاء نیم شبی اور آہ سحرگاہی کے ساتھ ساتھ ان کے خون جگر اور وسعت نظر کو بھی دخل ہے۔

حضرت مہتمم صاحب دامت دام ظلہم کی سن رسیدگی،ضعف،کثرت کار اور ہجوم امراض کے سبب اس کی نیابت ان کے فرزند ہنرمند حضرت مولانا محمد صاحب حفظہ اللہ(فاضل دارالعلوم دیوبند)کے ہاتھوں سپرد ہے جو بلا شبہ ایک بیدار مغز منتظم،صاحب تاثیر مربی،پیکرنظافت و نفاست کے علاوہ ڈھیروں خوبیوں کے حامل ہیں خصوصاََ ان نا گزیر صفات کے ساتھ متصف ہیں جو کسی بھی ادارے کے ذمہ دار کے لئے جزو لاینفک درجہ رکھتی ہے۔

سطور بالا میں میں نے ان ہی احساسات وتاثرات کو سپرد قرطاس کرنے کی کوشش کی ہے جو میں نے اس وقت محسوس کیا جب کہ نور علم و آگہی سے پر اس کی پاکیزہ فضا میں راہ تعلم پر محو سفر تھا کہ:
میں نے اپنے آشیانے کے لئے
جو چبھے دل میں وہی تنکے لئے
اور جو کچھ میں نے اپنے زاویہئ نگاہ دیکھا وہی تحریر کیا ہے کیونکہ:
لے دے کے اک نظر تو ہے ہی اپنے پاس
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم

ممکن ہے بعض صاحبان نظر کو اس سے اختلاف ہو اور وہ اسے محض الفاظ کی صناعی،جملوں کی کاری گری،قصیدہ نگاری،ثناخوانی اور مدح سرائی سمجھتے ہوں مگر یہ ایک حقیقت اور ناقابل انکار صداقت ہے جس کا مشاہدہ دیدہئ بینا رکھنے والا ہر شخص ان کھلی آنکھوں سے کر سکتا ہے۔ہر دیکھنے والے کے لئے اس میں نشان موعظت بھی ہے،تسکین قلب کا وسیلہ بھی اور قابل تقلید نمونہ بھی!

31/مارچ 2013ء کو مدرسہ حسینیہ سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے رعنائیوں اور تابناکیوں کے ساتھ اپنا اکتیسواں جلسہئ دستاربندی منعقد کر رہا ہے جس میں 714/قراء عظام وحفاظ کرام کو امیر الہند حضرت مولانا سید عثمان منصور پوری اورقائد ملت حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی حفظہمااللہ کے دستہائے مبارک دستار فضیلت و عزیمت عطا کی جائے گی۔مدرسہ حسینیہ کا ماضی تابناک،حال روشن اور مستقبل امید افزاء ہے۔
بعمق قلب دعا ہے کہ:
جلتی رہے یہ روشنی، بڑھتا رہے یہ کارواں!
٭٭٭

Ahmad Bin Nazar
About the Author: Ahmad Bin Nazar Read More Articles by Ahmad Bin Nazar: 3 Articles with 4930 views میـــری ذات کیا،میرے صــفات کیا
اک ذرہءبےنشاں کی ہے اوقات کیا
.. View More