کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال، جعلی ڈگری ہولڈرز کے خلاف کاروائی اور تعلیم یافتہ کابینہ

ہم جب اپنے گھر دکان یا دفتر کیلئے کوئی ملازم رکھتے ہیں۔ جو ہمارے کام کاج میں ہمارا ہاتھ بٹائے تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کسی اچھے کردارکے حامل شخص کو ہی رکھیں تاکہ بعد میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرناپڑے۔ یہ کوئی بھی نہیں چاہتااور نہ ہی کوئی ایسا چاہے گا کہ اس کے گھر ، دکان یا دفتر میں کوئی ایسا شخص یا نوجوان کام کرے جس کی شہرت اچھی نہ ہو۔ جو چوریاں کرتا ہو۔ جو دھوکہ دیتا ہو۔ جو کام چور ہو۔ جو کام میں بہت سستی کرتا ہو۔ بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے گھر، دکان اور دفتر میں ایسا نوجوان کام کرے جس میں یہ جرائم نہ ہوں ۔ جب ہم ان مزدوروں کو اپنے پاس کام کرنے کیلئے رکھتے ہیں تو پہلے ان کے بارے میں خوب اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان میں منفی کردار نہیں پایا جاتا ۔ اس کے بعد بھی ہم ان کی خفیہ نگرانی جاری رکھتے ہیں کہ ہوسکتا ہے یہ کبھی بھی اعتماد کو ٹھیس پہنچا دے۔ جب ہم اپنے دفتروں میںچپڑاسی تعینات کرتے ہیں تو ان کے بارے میں بھی کوشش کرتے ہیں کہ اچھے کردار کا چپڑاسی مل جائے ۔ جب ہم اپنی مسجد میںامام مسجد تعینات کرنے لگتے ہیں تو ہماری یہی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی اچھی شہرت کا حامل حافظ قرآن یا قاری قرآن یا عالم دین مل جائے۔ ہم اس مولانا کو کبھی بھی اپنی مسجد میں بطور امام مسجد یا خطیب تعینات نہیں کریں گے جس کی شہرت اچھی نہ ہو۔ ویسے بھی مصلیٰ امامت کوئی عام مسند نہیں اس کو مسند رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی کہتے ہیں۔ اس لیے مسند رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وارث منفی کردار یا شہرت کا حامل فرد نہیں ہو سکتا۔ جس طرح مصلیٰ امامت و منبر خطابت سرکار دوجہاں شاہ کون ومکاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مسند ہیں اسی طرح حکومت کی کرسی بھی نبی پاک صاحب لولاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہی مسند ہے۔ اس مسند کیلئے بھی کسی اچھے کردار اور اچھی شہرت کے حامل شخص کو ہی چننا چاہیے۔ ہم نے کیا ہی دوہرا معیار اپنا رکھا ہے کہ جب رسول کریم دریتیم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چھوٹی مسند کا وارث ڈھونڈنے لگتے ہیں تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کسی اچھے کرداراور اچھی شہرت کے حامل مولانا، حافظ، قاری یا عالم دین کو اس مسند کا وارث بنائیں۔ اس کے برعکس جب ہم محبوب خدا، حبیب کبریاءصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بڑی مسند کے وارث کی تلاش یا چناﺅ کرنے لگتے ہیں تو اس وقت ہماری ترجیحات اور ہمارے معیار کے پیمانے تبدیل ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کے آئین میں بھی یہی لکھا ہوا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بڑی مسند کا وارث اچھے کردار اور اچھی شہرت کا حامل شخص ہی بن سکے گا۔ پاکستان کے آئین میں یہ کسی جگہ نہیں لکھاہوا کہ کس کو ووٹ دیں کس کو نہ دیں۔ اس میں یہ بھی نہیں لکھا ہو ا کہ کونسی سیاسی پارٹی کو ووٹ دیا جائے اور کس سیاسی پارٹی کو ووٹ نہ دیا جائے۔ یہ عوام کا حق ہے وہ جس کو چاہے ووٹ دے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسا شخص انتخابات میں حصہ لینے کا اہل نہیں جس کا کردار اچھا نہ ہو جس کی شہرت اچھی نہ ہو۔ اس کا فیصلہ عوام نہیں الیکشن کمیشن اور اس کے معاون افسران کرتے ہیں۔ عوام کسی بھی امیدوار کے خلاف اعتراض لگا سکتے ہیں ۔ انتخابات میں حصہ لینے کیلئے امیدوار کیسا ہونا چاہیے۔ اس میں کونسی خوبیاں ہوں کہ وہ الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے اور اس میں کیا کیا خامیاں پائی جائیں تو اس کو الیکشن لڑنے سے روک دیا جائے یہ سب پاکستان کے آئین میں درج ہے ۔ تاہم اس پر کہاں تک عمل کیا جاتا ہے یا کہاں تک اس آئین پر عمل کرایا جاتا ہے۔ یہ انتخابی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں۔ اب اس آئین کی کچھ شقوں پر عمل نظر آرہا ہے۔ آئین کی ان شقوں پر ویسا عمل تو نظر نہیں آرہا جیسا ہونا چاہیے ۔تاہم جتنا عمل ہو رہا ہے یہ بھی کوئی کم نہیں ہے۔ منفی کردار اور منفی شہرت کے حامل سیاست دانوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کیلئے ان کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے ۔ اس مرحلہ میں کسی بھی شخص کو یہ اجازت ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی امیدوار کے خلاف اس کے کوئی پاس کوئی ثبوت ہے تو وہ ریٹرننگ آفیسر کے پاس جمع کر اسکتا ہے۔ حالیہ انتخابات کے سلسلہ میں امیدواروں کی جانچ پڑتال ، کاغذات نامزدگی کی منظوری اور مسترد ہونے اور ان کی اپیلوں کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔ اس مرحلہ کہاں کیا ہوتا رہا ۔ اور کس کے ساتھ کیا ہوا ۔ یہ سب آپ پہلے ہی جانتے ہیں تاہم ان باتوں کو ہم یکجا کردیا ہے ۔ تاکہ جس نے ابھی تک اس بارے کچھ نہیں پڑھا وہ اب ایک ساتھ پڑھ لیں۔ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے ساتھ ساتھ جعلی ڈگریوں کا معاملہ بھی ساتھ ساتھ چلتا رہا ۔ ہم اس بات کو بھی اپنی اس تحریر میں شامل کر رہے ہیں۔ سندھ میں صدارتی کیمپ آفس بلاول ہاﺅس میں گورنر سندھ نگران وزیر اعلیٰ سندھ اور کابینہ کے ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے صدر زراری نے کہا کہ ریٹرننگ افسران اور الیکشن کمیشن کے بعض ارکان کا رویہ نا مناسب ہے۔ آئینی طور پر مجھے جو اختیارات حاصل ہیںادارے انہیں فراموش نہ کریں۔ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران امیدواروں سے سوالات کیے گئے جن کے انہوں نے دلچسپ جوابات دیے ۔ ان جوابات کو پڑھ کر آپ بھی محظوظ ہو سکتے ہیں۔ جو یہ ہیں۔ جیکب آباد کے حلقہ پی ایس چودہ، پی ایس پندرہ اور پی ایس سولہ سے انتخابات میں حصہ لینے والے ایک امیدوار سے ریٹرننگ افسر نے پوچھا کہ علامہ اقبال کہاں پیدا ہوئے تو امیدوار نے جواب دیا کہ لاہو ر میں پیدا ہوئے ۔ جس پر ریٹرننگ افسر اور دیگر افراد کے قہقہے نہ رک سکے۔ ریٹرننگ افسر نے ایک اور امیدوار سے پوچھا کہ پاکستان میں کتنے صوبے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ چار اس پر ریٹرننگ افسر نے کہا کہ پانچواں کہا ں گیا تو امیدوار نے کہا کہ مجھے پتہ نہیں۔ حلقہ پی پی ایک سو ایک سے تحریک انصاف کے امیدوار پوری کوشش کے باوجود کلمہ طیبہ نہ سنا سکے۔ حلقہ پی پی ستانوے کے ایک امیدوار سے ریٹرننگ افسر نے سوال کیا کہ وہ اسلام کے متعلق کیا جانتا ہے ۔ جس پر امیدوار نے اسلام کو چیز قرار دے دیا اور تین دفعہ کہا کہ اسلام ایک ایسی چیز ہے۔ ایک اور امیدوار نے کہا کہ پارلیمنٹیرین کے پاس بیگ اور اس میں کیش ہونا چاہیے۔ ایک امیدوار نے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہر نماز میں سورة قل شریف پڑھی جاتی ہے۔ این اے ایک سو سترہ سے مسلم لیگ ن کے امیدوار احسن اقبال سے ریٹرننگ افسر نے فجر کی اذان سنی تو انہوں نے فجر کی اذان کے ساتھ دعائے قنوت بھی سنادی۔ اپنے دور کا کوئی اچھا کام بتائیں ریٹرننگ افسر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرزانہ راجہ نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے غریب اور مستحق لوگوں کی مالی کفالت اور انہیںفنی تربیت سے کر خود کفیل بنانے پر فخر ہے۔ ایک امیدوار نے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اسلام کے سات ارکان ہیں۔ ریٹرننگ افسر نے ایک امیدوار سے کلمہ سنانے کو کہا تو اس نے غلط سنا دیا۔ ایک امیدوار سے کہا گیا کہ بسم اللہ سناﺅ تو اس نے کہا کہ میرا نام ہی بسم اللہ ہے۔ ایک امیدوار بسم اللہ پوری نہ سنا سکا۔ ایک امیدوار نے قرآن پاک کے سپاروں کی تعداد 33بتائی۔ صوبائی اسمبلی کے امیدوار سے ریٹرننگ افسر نے کہا کہ ایمان مفصل سناﺅ تو اس کو پتہ ہی نہیں تھا کہ ایمان مفصل کیا ہے۔ ریٹرننگ افسر کے سوال پر ایک امیدوار نے کہا کہ عشاءکی نماز کی انیس رکعتیں ہیں۔ پیچھے کھڑے اس امیدوار کے حامی نے آواز لگائی کہ عشاءکی نماز کی سترہ رکعتیں ہیں۔ جس پر امیدوار نے آہستہ سے کہا کہ ریٹرننگ افسر عشاءکی نماز کی رکعتوں کی تعداد انیس نہیں مان رہا سترہ کیسے مانے گا۔ ایک امیدوار نے کہا کہ ساری نمازیں نہیں ایک دو پڑھتا ہوں۔ ریٹرننگ افسر نے کہا کہ کونسی نماز پڑھتے ہو تواس نے کہا عصر کی نماز روزانہ پڑھتا ہوں ۔ریٹرننگ افسر نے پوچھا کہ عصر کی کتنی رکعتیں ہیں تو اس نے جواب دیا کہ پانچ رکعتیں ہوتی ہیں۔ کراچی میں جماعت اسلامی کے ایک امیدوار اتنے دباﺅ میں آگئے کہ دوسرا کلمہ بھی یاد نہ آیا۔ نواب شاہ سے ایک امیدوار کو نہ یہ یاد تھا کہ قائد اعظم کب پیدا ہوئے اور نہ ہی اس کو یہ یاد تھا کہ قومی ترانہ کس نے لکھا۔ اس نے بتایا کہ قائداعظم 23مارچ کو پیدا ہوئے اور قومی ترانہ علا مہ اقبال نے لکھا ۔حلقہ این اے 32چترال سے پرویزمشرف کے کاغذات نامزدگی منظور ہو گئے۔ راجہ پرویزاشرف کے کاغذات مانزدگی این اے 51سے مسترد کر دیے گئے۔ این اے 148اور این اے 250سے پرویز مشرف کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے گئے۔ این اے 53سے چوہدری نثار کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے ۔ جبکہ این اے 52سے ان کے کاغذات نامزدگی منظور کر لیے گئے۔ این اے 178سے جمشید دستی کے کاغذات نامزدگی منظور نہ ہو سکے۔ این اے نواسی جھنگ سے سابق وفاقی وزیر تعلیم شیخ وقاص اکرم کے کاغذات نامزدگی جعلی تعلیمی اسناد کی وجہ سے مسترد کر دیے گئے۔ صوبہ خیبر پختون خواہ کے سابق وزیر خزانہ محسن علی خان خود بتیس کروڑ کے بینک نادہندہ نکل آئے۔ حلقہ پی ایس چالیس سے سابق صوبائی وزیر میر نادر مگسی جعلی ڈگری کے باعث آﺅٹ ہو گئے۔ احمد مختیار اور پرویز الٰہی کے کاغذات نامزدگی منظور ہو گئے ۔ دونوں ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں گے۔ این اے ایک سو ستتر سے نور ربانی کھر اور حنا ربانی کھر کے کاغذات نامزدگی منظور ہو گئے۔ این اے پچپن سے شیخ رشید کے کاغذات نامزدگی منظور ہوگئے۔ نواز شریف ،شہباز شریف اور عمران خان کے خلاف اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے ان کے کاغذات نامزدگی منظور کر لیے گئے۔ این اے دو سوسات سے فریال تالپور او ر غنویٰ بھٹو کے کاغذات نامزدگی منظور ہو گئے۔ این سے دو سو انسٹھ سے طلال اکبر بگٹی اور این اے دو سوتریسٹھ سے محمود خان اچکزئی کے کاغذات نامزدگی بھی منظور کر لیے گئے۔ این اے ایک سو انیس لاہور سے حمزہ شہباز کے کاغذات نامزدگی منظور ہو گئے۔ این اے 56میں شیخ رشید عمران خان کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ این اے بیاسی سے صاحبزادہ فضل کریم کے کاغذات نامزدگی منظور ہو گئے۔ میر بادشاہ قیصرانی کے کا غذات نامزدگی مسترد ہو گئے۔ اب بات ہو جائے جعلی ڈگری والوں کی۔ جعلی ڈگریوں کا معاملہ یوں تو پہلے سے ہی جاری ہے تاہم اب سپریم کورٹ کے حکم سے اس میں تیزی آگئی ہے۔ سابق وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیز کو سبی کے سیشن جج نے جعلی ڈگری کیس میں ایک سال قید اور پانچ ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی۔ جس کے بعد ان کو گرفتار کرکے جیل منتقل کر دیا گیا۔ ایڈیشنل سیشن جج ڈیرہ اسماعیل خان حیات خان نے جعلی ڈگری کیس میں خلیفہ عبد القیوم کو تین سال قید اور پانچ ہزار جرمانہ کی سزا سنائی۔ جس کے بعد ان کو بھی گرفتار کرکے جیل منتقل کر دیا گیا۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صوابی نے دہری شہریت کیس میں سابق ایم این اے جاوید ترکئی کو ایک سال قید اور پانچ ہزار جرمانہ کی سزا سنائی۔ ایڈیشنل سیشن جج مظفر گڑھ عبدالرحمن نیازی کی عدالت میں سابق ایم این اے جمشید دستی کی جعلی ڈگری کیس کی سماعت ہوئی۔ حلقہ پی پی 34سرگودھا سے مسلم لیگ ن کے امیدوار سابق ایم پی اے رضوان گل کو جعلی ڈگری کیس میں 9سال قید اور پانچ ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنادی گئی۔ سابق ایم اپی اے کمرہ عدالت سے فرار ہو گئے۔ پشاور ہائی کورٹ نے جعلی ڈگری کیس میں جمیعت علماءاسلام سے سابق اقلیتی رکن خیبر پختون خواہ اسمبلی کشور کمار کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ان کی سزا ایک سال قید اور پندرہ ہزار جرمانہ برقرار رکھی۔اور ان کی ضمانت خارج کردی۔ جعلی ڈگری کیس میںعامر یاروارن کو اشتہاری قرار دے دیاگیا۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ساہیوال نے جعلی ڈگری کیس میں سابق وزیر محنت ملک اقبال لنگڑیال کو عدالت میں حاضر نہ ہونے پر اشتہاری قرار دے دیا اور اس کے ضامن کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے بائیس ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریاں درست قرار دے دیں۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مظفر گڑھ کی عدالت نے جعلی ڈگری کیس میں سابق ایم این اے جمشید دستی کو الیکشن کیلئے نااہل قرار دیتے ہوئے ان کو تین سال قید اور پانچ ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی ۔ سزاسنتے ہی جمشید دستی زاروقطار رونے لگ گئے۔ جبکہ ان کو کمرہ عدالت سے گرفتار کے سنٹرل جیل منتقل کر دیا گیا۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پشاور نے سابق وزیر کھیل خیبر پختون خوا سید عاقل شاہ کو جعلی ڈگری کیس میں ایک سال قیداور تین ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی جس پر انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ پاک پتن میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت نے سابق ممبر قومی اسمبلی سلمان محسن کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کو ضبط کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے ان کے ضامن کو بھی عدالت میں پیش ہونے کا شوکاز نوٹس جاری کردیا۔پنجاب یونیورسٹی نے 98 سابق ارکان اسمبلی میں سے 82ارکان اسمبلی کی ڈگریوں کی تصدیق کردی ہے۔ ہائر ایجو کیشن کمیشن نے منظور وٹو کی ڈگری درست قرار دے دی۔ ایچ ای سی نے جاوید ہاشمی سمیت 58سابق ممبران اسمبلی کی ڈگریاں درست قرار دے دیں۔ ذرائع کے مطابق سیف الدین کھوسہ ، شمائلہ رانا فرخندہ امجد، غلام حیدر سمیجو ، فیصل صالح حیات ،ثناءاللہ زہری کی ڈگریوں کی تصدیق نہیں ہوئی۔ الیکشن کمیشن نے گیارہ سابق ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریاں جعلی قرار دے دیں۔ جن میں تین سابق سینیٹر اور آٹھ سابق ایم اپی ایز شامل ہیں۔ ریحانہ یحیٰ بلوچ، اسرار اللہ زہری ، محبت خان مری، ثمینہ خاور حیات، سیمل کامران، شبینہ خان، رانا اعجاز احمد نون،بشیر احمد خان اور نواب زادہ طارق مگسی جعلی ڈگری ہولڈر میں شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن نے جعلی ڈگری والے تمام سابق ممبران اسمبلی کی کامیابی کے نو ٹیفیکیشن واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ان اراکین کے خلاف فوجداری مقدمات بھی درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس دوست محمد خان کی عدالت نے جعلی ڈگری کیس میں سزا پانے والے سید عاقل شاہ، جاوید ترکئی اور سردار علی ضمانتیںمنظور کر لیں۔ سردار علی اور جاوید ترکئی کو چھ چھ لاکھ روپے اور تین شخصی ضمانتوں جبکہ عاقل شاہ کو تین شخصی ضمانتوں کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔ ضمانت منظور ہونے کے بعد عاقل شاہ کو رہا کردیا گیا۔ میر بادشاہ قیصرانی نے ہائی کورٹ لاہور سے عبوری ضمانت کرالی۔

انتخابات میں حصہ لینے کیلئے تعلیم کی شرط نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ سابق صدر پرویزمشرف نے جب بطور آرمی چیف اقتدار سنبھالا تو انہوں نے کچھ آئینی اصلاحات کیں۔ ان میں ضلعی نظام حکومت، تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر پابندی اور انتخابات میں حصہ لینے کیلئے بی اے کی تعلیم لازمی تھی۔ جو سیاستدان پہلے سے بی اے یا ایم اے تھے ان کیلئے تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اور جو اس سے محروم تھے ۔ ان کیلئے مسئلہ بن گیا۔ کیونکہ یہ سیاستدان عوام کی خدمت کو عبادت سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان کیلئے انتخابات میں حصہ نہ لینا اور اسمبلیوں میں نہ جانا ناقابل برداشت ہو گیا۔ اور ایسے ممبران اسمبلی ہر حال میں عوام کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے اس مسئلہ کا حل یہ ڈھونڈا کہ مختلف تعلیمی اداروں سے ان کے سربراہان کے پاﺅں پکڑ کر مطلوبہ معیار کی ڈگریاں حاصل کرلیں۔ ان کو بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو جرم ہے۔ انہوں نے جعلی ڈگریاں حاصل کرکے جرم کیا ہے۔ پہلے انہوں نے سن رکھا تھا کہ جنگ ، محبت اور سیاست میں سب جائز ہے۔ جعلی ڈگری ہولڈروں کے خلاف کاروائی سے سیاستدان یہ سوچتے تو ہوں گے کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہو نہ ہو سیاست میں سب جائز نہیں ہے۔ ملک میں دوبار عام انتخابات تعلیمی شرط پر منعقد ہوئے۔ پھر ممبران اسمبلی اور سیاستدانوں کو جعل سازی کے اس جرم سے آئندہ کیلئے محفوظ رکھنے کا انتظام بھی سابقہ حکومت کر چکی ہے کہ اس نے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے تعلیم کی شرط ہی ختم کردی ۔ کہ نہ انتخابات میں حصہ کیلئے بی اے کی شرط ہو گی نہ ہی کوئی سیاستدان جعلی ڈگری بنوائے گا۔ مشرف دور میں جن ماہرین نے یہ اصلاحات تیار کی تھیں۔ ان میں سے کسی ایک کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ انتخابات میں حصہ لینے کیلئے ان کی یہ شرط بہت سے سیاستدانوں کو مشکل میںڈال سکتی ہے۔ میڈیا نے بھی اس کی حمایت کی تھی۔ یوں تو بڑے بڑے تجزیے شائع ہوتے ہیں۔ یہ تجزیہ ہم نے نہیں پڑھا کہ تعلیم کی شرط سے جعلی ڈگریوںکو فروغ ملے گا۔ بی اے سے محروم کچھ سیاستدانوں اس مسئلہ کا ایک اور آسان حل بھی نکالا۔ کہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں بیٹوں ، بیٹیوں کو الیکشن لڑایا۔ یوں وہ جعلی ڈگری کیس میں جیل جانے اور شرمندہ ہونے سے بھی بچ گئے اور اقتدار بھی ان کے پاس رہا۔ جمشید دستی کی سزا ہائی کورت ملتان بنچ نے کالعدم قرار دے کر ان کو رہا کردیا ہے۔ جس طرح جعلی ڈگری لینا جرم ہے اسی طرح یہ جعلی ڈگریاں دینا بھی تو جرم ہے۔ جن اداروں نے یہ ڈگریاں جاری کی ہیں۔ وہ بھی تومجرم ہیں۔ جس طرح جعلی ڈگری ہولڈر سیاستدانوںن کے خلاف کاروائی کی گئی ہے اسی طرح ان کے خلاف بھی کاروائی کی جانی چاہیے ۔ جو یہ ڈگریاں جاری کرتے رہے۔ ان پڑھ اسمبلی بھی مناسب نہیںاور یکا یک تعلیم کی شرط سے یہ مسائل سامنے آئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جو سیاستدان مطلوبہ تعلیمی معیار کے نہیں تھے وہ خود بخود انتخابات میں حصہ لینے سے رک جاتے اور وہ ان تعلیم یافتہ پاکستانیوں کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع بھی دیتے ان کو اپنے تجربات سے آگاہ بھی کرتے اور ان سے ہر قسمی تعاون بھی کرتے۔ اس طرح وہ بھی شرمندگی سے بچ جاتے اور مشرف کی اصلاحات کا مقصد بھی حاصل ہو جاتا ۔ اب آئندہ اسمبلی میں ممبران اسمبلی کوان کی تعلیم جاری رکھنے کا کہا جائے کہ جو انڈر میٹرک ہیں ۔ وہ میڑک سے شروع کریں اور جو میڑک پاس ہیں وہ مزید تعلیم حاصل کریں ان کیلئے ان کی ضروریات کے مطابق نصاب بھی تیار کیا جائے ۔ اب انتخابات میں حصہ لینے کیلئے تعلیم کی شرط تو نہیں ہے تاہم ہمارا مشورہ ہے کہ جو پارٹی بھی حکومت بنائے وہ اپنی کابینہ میں تعلیم یافتہ ممبران اسمبلی کو ہی شامل کرے۔ اور وزیر اعظم وہ ہو جس کی تعلیم سب سے زیادہ ہو اگر اس طرح کے ایک سے زیادہ ممبران اسمبلی ہوں تو جس کے نمبر سب سے زیادہ ہوں وزیر اعظم وہ ہونا چاہیے۔ جس طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان نے امیدواروں کی سکروٹنی کی ہے۔ اس پر سیاسی جماعتوں نے عملاً خاموشی اختیار کیے رکھی۔ جب ان امیدواروں سے بنیادی اسلامی سوالات پوچھے گئے ۔ تو ایسے لگ رہا تھا جیسے ان سے مشکل سے مشکل سوال پوچھ لیے گئے ہوں۔ ان تمام امیدواروں سے اسلامی نوعیت کے جو بھی سوال پوچھے گئے وہ سب کے سب پرائمری کلاسوں میں پڑھائے بھی جاتے ہیں اور یاد بھی کرائے جاتے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کو تو چاہیے تھا کہ وہ خود بھی امیدواروں کی سکروٹنی الیکشن کمیشن سے بھی سخت کرتیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت نے یہ اعلان نہیں کیا کہ ہر اس امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیاجائے گا جو آئینی معیار پر پورا نہ اترتا ہو۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کی گئی سکروٹنی کی وجہ سے بڑے بڑے سیاستدان انتخابات کی دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں۔ چیف الیکشن کمیشن نے انتخابات کے بعد بھی سکروٹنی کا عمل جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس لیے سیاستدانوں کو اب سوچ سمجھ کر ہی میدان میں اترنا چاہیے۔ انتخابات میں حصہ لینے کیلئے نادہندگان اپنے ذمہ سرکاری واجبات جمع کر ارہے ہیں۔ یہ سب وصولیاں جمع کرکے آئی پی پیز کو دی جائیں تاکہ قوم کو لوڈشیڈنگ سے کچھ تو نجات مل سکے۔ سیاسی جماعتیں قوم کے مسائل کم کرنے میں واقعی دلچسپی رکھتی ہیں تو انہوں نے پارٹی فنڈ کی مد میں امیدواروں سے جو کچھ بھی وصول کیا ہے۔ سب سیاسی جماعتیں اس پارٹی فنڈ میں سے صرف دس فیصد آئی پی پیز کو دے دیں تاکہ لوڈشیڈنگ کم ہو سکے۔ جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اگر ازخود جانچ پڑتال کا عمل شروع کردیں تو پاکستانی سیاست دنیا کیلئے رول ماڈل بن جائے گی۔ الیکشن کمیشن نے بھی امیدواروں کی سکروٹنی کی ہے اب ووٹ دیتے وقت عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اپنے طورپر ان امیدواروں کی سکروٹنی کریں ۔خود جائزہ لیں ۔ ان کے سابقہ کردار کو دیکھیں پھر فیصلہ کریں کہ کس کو ووٹ دینا ہے۔ جب تک عوام بغیر سوچے سمجھے آنکھیں بند کرکے ووٹ دیتے رہیں گے ۔ اس وقت تک حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی۔

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 306727 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.