توانائی کا بحران کب حل ہوگا ؟

گیس اور بجلی سمیت توانائی کے بحران نے اگرچہ اس وقت پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے مگر سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں مہینوں سے صورتحال بہت زیادہ گھمبیر چلی آرہی ہے۔خاص طور سے فیصل آباد میں، جو کپڑے کی صنعت کا مرکز ہونے کی وجہ سے بجا طور پر پاکستان کا مانچسٹر کہلاتا ہے، گیس لوڈشیڈنگ کے بڑھتے ہوئے دورانیے نے اس شہر کی صنعتی زندگی کو تباہی کے کنارے تک پہنچادیا ہے۔لاکھوں مزدور فاقہ کشی کا شکار ہیں ۔ گیس فراہم کرنے والی کمپنیوں کی طرف سے پنجاب بھر کی فیکٹریوں کو ہفتے میں پانچ دن گیس کی بندش کے اعلان نے تو گویا دھماکہ ہی کردیا تھا ۔صنعتکاروں کی انجمنیں سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوگئی تھیں۔ کئی مقامات پر احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے۔ فیصل آباد میں مل مالکان نے تالہ بندی اور دھرنوں کا اعلان بھی کیا۔ گیس اور بجلی کی فراہمی کا تعلق خواہ پنجاب کی فیکٹریوں سے ہو یا کراچی کی انڈسٹریل اسٹیٹس سے ، اس کا تعلق بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے صنعتی اداروں سے ہو یا ملک کے دیگر علاقوں سے ، یہ معاملہ چونکہ ملکی معیشت ، عام لوگوں کے روزگار، صنعتی اشیاءکی پیداواری لاگت اور عالمی منڈی میں روز بروز بڑھتی ہوئی مسابقت سے جڑا ہوا ہے اس لئے اس آنکھیں چرا کر کوئی بھی حکمت عملی نہیں بنائی جاسکتی ۔ طلب اور رسد کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے یقینی انتظامات کئے جانے چاہیئں جن سے ملکی معیشت کا پہیہ چلتا رہے۔بجلی، گیس ،پیٹرول اور پانی کی مہنگائی کے باعث ہماری صنعتوں کے لئے بیرونی منڈی میں اپنی جگہ بنانا پہلے ہی مشکل تر ہوچکا ہے۔ اب اگر صنعتوں تک توانائی پہنچنے کے راستے پانچ یا چھ دن کی لوڈ شیڈنگ کی عملی صورت میں بند نظر آنے لگیں تو برسوں سے ظاہر کئے جانے والے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ داخلی صنعتوں کو لپیٹ کر ملک کو بیرونی مال کی منڈی میں تبدیل کرنے کے کسی منصوبے پر کام ہورہا ہے۔ملک کو بلاشبہ توانائی کے بحران کا سامنا ہے مگر اس پر قابو پانے کی جو کوششیں نئے ڈیموں کی تعمیر، کوئلے کے ذخائر سے بجلی پیدا کرنے، سورج کی روشنی کو ایندھن میں تبدیل کرنے اور ہوا سے توانائی حاصل کرنے کی صورت میں نظر آنی چاہئے تھیں وہ کہیں نظر نہیں آتیں ۔ دنیا کے کئی ملکوں نے نہروں پر چھوٹے جنریٹر نصب کرکے بجلی کی پیداوار سے اپنے اہداف حاصل کرلئے مگر ہمارے ہاں کثیر قومی کمپنیوں کی خوشنودی کے لئے باربار ایسی مفید تجاویز کو نظر انداز کیا گیا۔ متبادل توانائی کے بورڈ کو اربوں روپے کے کرپشن کا ذریعہ بنا کر توانائی کے حصول سے مجرمانہ غفلت برتی گئی ۔ تیل اور گیس کے نئے کنوﺅں کی کھدائی میں تاخیر نہ کی جاتی اور باہر سے بڑے پیمانے پر مائع گیس کی درآمد کا انتظام کرلیا جاتا تو ملکی صنعتوں کا پہیہ رواں رکھنے میںوہ مشکلات پیش نہ آتیں جو آج نظر آرہی ہیں۔بجلی کی پیداوار میں جو کمی واقع ہوئی ہے، اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ توانائی کے شعبے میں برسوں سے کسی قابل ذکر سرمایہ کاری کا فقدان اور آئی پی پیز (انڈی پنڈنٹ پاور پروڈیوسرز) کے واجبات وقت پر ادا نہیں ہوئے اور وہ صرف اپنی استعداد سے30 سے 35 فیصد بجلی پیدا کررہے ہیں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جب دوسری بار حکومت میں آئیں تو توانائی کے شعبے میں قلت کے آثار نمایاں تھے ۔ انہوں نے کالا باغ ڈیم کے بجائے غازی بروتھا ہائیڈل پاور پراجیکٹ تعمیر کرنے کا اعلان کیا اور اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ قرار دیا لیکن اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے پانچ سال درکار تھے ، اس لئے انہوں نے تھرمل پاور کا راستہ اختیار کیا جس میں تین سال کے اندر بجلی گھر تیار ہوجاتے ہیں ، تاہم اس کا پیداواری یونٹ ہائیڈل پاور کے مقابلے میں بہت مہنگا تھا ۔ اسی زمانے میں کوٹ ادو پاور اسٹیشن جو بڑے منافع میں چل رہا تھا ، اونے پونے فروخت کردیا گیا جس کی پیشہ وارانہ تنظیموں نے سخت مخالفت بھی کی اور عوامی حلقوں میں یہ تاثر بھی قائم ہوا کہ آئی پی پیز کے کئے جانے والے معاہدے واپڈا پر بہت بوجھ ثابت ہوں گے اور اس ڈیل میں بڑا کمیشن کھایا گیا ہے۔ چنانچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار میں پن بجلی کا حصہ جو70 فیصد سے زیادہ تھا اس میں کمی آتی گئی اور تھر مل بجلی کا تناسب بڑھتا گیا۔ ایک وقت تھا کہ ہائیڈل پاور 70 فیصد اور تھرمل صرف30 فیصد تھی مگر آج تناسب یکسر تبدیل ہوگیا ہے ، اب ہائیڈل صرف 34 فیصد اور تھرمل پاور 66 فیصد ہے۔ اسی لئے بجلی کی لاگت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔توانائی کے بحران کا ایک اور اہم سبب وہ گردشی قرضہ بھی ہے جس کی بنیاد سابق دور میں رکھی گئی تھی جس کا حجم اب 300ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ اس کی زد میں پیپکو، بجلی پیدا کرنے والے نجی ادارے، پاکستان اسٹیٹ آئل اور تیل و گیس پیدا کرنے والی کمپنیاں آتی ہیں۔ بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات میں مسلسل اضافے نے اگرچہ وقتی طور پر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے تناسب کو روک رکھا ہے ، مگر کب تک ؟ کیونکہ برآمدات میں مسلسل کمی ایک ایسا خطرناک چیلنج ہے جو تجارتی خسارے میں اضافے کے علاوہ قومی معیشت کو بھی بری طرح متاثر کررہا ہے اور زرمبادلہ کمانے کی صلاحیت بھی متاثر ہورہی ہے۔پاکستان ہر قسم کے قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے ، کوئلے سے لیکر تانبے ، سونے اور یورینیم تک کے ذخائر ہمارے ہاں بڑی مقدار میں موجود ہیں۔ہمارے ماہرین دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ملکوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہے ہیں، اگر ہم کرپشن کے زریعے ضائع ہونے والے وسائل کو عوام کے حالات زندگی کو بہتر بنانے ، توانائی کے وسائل میں اضافے ، تعلیم ، صحت ، شہری سہولتوں کی فراہمی ، معیشت کی ترقی اور نئی صنعتوں کے قیام وغیرہ پر استعمال کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بہت جلد اپنی موجودہ زبوں حالی کو خوش حالی اور ترقی سے نہ بدل سکیں۔توانائی کے بحران نے پیداواری استعداد میں کمی اور مصنوعات کی پیداواری لاگت میں اضافہ کرکے گرانی کا گراف اتنا بلند کردیا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی سے بیرونی قرضے بڑھ رہے ہیں ۔حال ہی میں اسٹیٹ بینک نے بھی توانائی کے بحران سے پیدا ہونے والے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے جامع مالیاتی اصلاحات ، ٹیکس بنیاد کو وسیع کرنے اور غیر ضروری سبسڈیز میں کمی اور ان معاملات کے حوالے سے وفاق اور صوبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیا ہے۔ملک میں جاری توانائی کے سنگین بحران نے عام لوگوں کے مصائب میں اس قدر اضافہ کیا ہے کہ گھروں کے چولہے جلانے سے لیکر آمدورفت تک کے مسائل سنگین تر ہوچکے ہیں ۔ پبلک ٹرانسپورٹ سمیت ہر مد میں غریبوں پر بھاری بوجھ آپڑا ہے ، بجلی کا شارٹ فال ساڑھے پانچ ہزار میگا واٹ تک پہنچ گیا ہے اور سی این جی کی ہفتہ واری بندش اس کے سوا ہے۔ توانائی کی یہ صورتحال اچانک پیدا نہیں ہوئی ، برسوں پہلے سے بجلی کی نسبتا کم لوڈشیڈنگ چل رہی تھی ، پانچ سال سے سی این جی بحران کی پیش گوئیوں کا سلسلہ جاری تھا لیکن اس پر توجہ دی گئی نہ ہی اس دوران متبادل انتظامات سے غفلت برتنے والوں کا محاسبہ کیا گیا۔انتہا یہ ہے کہ عدالت عظمی نے گیس کی قیمتوں میں بلاجواز اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے قیمتیں کم کرنے پر زور دیا تھا مگر اس کے جواب میں ہوا یہ کہ شہریوں کو سی این جی کی فراہمی روک دی گئی اور ہفتے میں کئی کئی دن بغیر اطلاع کے سی این جی اسٹیشنز بند کردیے گئے۔ اس وقت ملک کے 70فیصد صنعتی یونٹس گیس پر چل رہے ہیں اور گیس ہے کہ ناپید کردی گئی ہے۔ ملک میں گیس کے ذخائر کی کمی نہیں لیکن ان کی تلاش میں حکمرانوں نے ہمیشہ عدم توجہی اور لاپرواہی کا ثبوت دیا ہے۔ حال ہی میں ڈیرہ بگٹی بلوچستان میں گیس کا ایک عظیم ذخیرہ دریافت ہوا ، اگر ان ذخائر کی تلاش میں غفلت کا مظاہرہ نہ کیا جاتا تو ملک کواس سنگین بحران سے بچایا جاسکتا تھا۔ابھی گیس کی یومیہ قلت ڈیڑھ ارب کیوبک فٹ تک پہنچ گئی ہے ۔ گیس ایران اور وسطی ایشیا کے ملکوں سے بھی سستے نرخوں پر حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایک معاہدے کے تحت ایران2014ءسے پاکستان کو 21.5 ملین کیوبک میٹر گیس یومیہ فراہم کریگا مگر اس کے لئے بھی پائپ لائن کی تعمیر ضروری ہے۔ ایران نے اپنے حصے کی پائپ لائن تو مکمل کرلی ہے مگر پاکستان نے عملی طور پر ابھی تک کچھ نہیں کیا ، حالانکہ ایران اس مقصد کے لئے پاکستان کو 500 ملین ڈالر فراہم کرنے پر بھی آمادہ ہے لیکن واضح طور پر دکھائی یہ دیتا ہے کہ ہمارے حکمران اس اہم ترین مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہی نہیں ہیں ورنہ ان وسیع و عریض خزانوں کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے جو قدرت نے ہمیں پانی ، دھوپ، ہوا اور دیگر بیش قیمت قدرتی عناصر کی صورت میں ودیعت کئے ہوئے ہیں۔ ہائیڈل پاور جنریشن کے مراحل طے کرنے میں وقت تو لگے گا مگر اس سے ہمیں عالمی منڈیوں میں اپنی برآمدات کے لئے جگہ بنانے کی خاطر کم لاگت بجلی کی اشد ضرورت ہے جو صرف ہم اسی صورت پیدا کرسکتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ پوری دیانتداری سے ہمارے سائنسدان ، ماہرین اور منصوبہ ساز عملی ذہانت کا ثبوت دیں اور پاکستان جو معاشی دلدل میں پھنستا جارہا ہے ، کو مشکلات سے نکالنے کے لئے شب و روز کام کریں ، حکومت بھی اب عوام کو مزید سبز باغ دکھانا بند کرے اور توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کرے۔
Asher Najmi
About the Author: Asher Najmi Read More Articles by Asher Najmi: 13 Articles with 8298 views I m a very simple person, like simplicity & reality.. View More