مافیائی نظام

جس طرح سے ایک اِدارہ کو تعمیر کرنے کیلئے یا ادارہ سازی کیلئے کچھ مراحل کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح سے معاشرہ تعمیر کرنے کیلئے یا معاشرہ سازی کیلئے بھی کچھ مراحل طے کرنا بہت ضروری ہے۔اگر ہم کسی معاشرے کی تعمیر کیلئے اُسکے بنیادی تقاضوں سے صرفِ نظر کریں یا پھر غیر مرئی چیزوں سے پورا کرنے کی کوشش کریں تو نتائج بھی اُسی نوعیت کے ہونگے۔

عام طور پر کسی بھی معاشرہ کو تعمیر کرنے کیلئے نظریہ کی ضرورت ہوتی ہے۔نظریہ کی بنیاد پر اقدار (Values) بنائی جاتی ہیں۔ اُن اِقدار کی بنیاد پرڈھانچہ(Structure ) قائم کیا جاتا ہے۔اور اُس ڈھانچہ کی بنیاد پر نظام (System ) بنائے جاتے ہیں۔معاشرہ سازی کیلئے یہ تمام مراحل طے کرنا بہت ضروری ہیں ورنہ اُلجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔بیرونی مداخلت شروع ہو جاتی ہے اور معاشرہ اِنحطاط کا شکار ہو جاتا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں پہلا مرحلہ یعنی نظریاتی مرحلہ کو ہی بائی پاس کیا گیا اور اُسے فراموش کر دیا گیا۔ہم نے تمام نظریے چوری کیے خود غور و خوض نہیں کیا۔حتیٰ ہم نے 73 ءکا آئین بنانے میں بھی نقالی کی۔بدقسمتی سے 73ءکا آئین بھی اُن لوگوں نے بنایا جن میں کوئی سردار تھا تو کوئی retired فوجی اور کوئی میٹرک فیل ۔ایسے لوگوں نے پاکستان کا آئین بنایا۔اِسی طرح سے عدالتی آئین اور قانون میں جب بھی کوئی اِبہام پیدا ہوتا ہے فوراََ برطانیہ کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ فلاں سال میں فلاں برطانوی جج نے اِس قانونی نقطہ کی وضاحت اِس طرح سے کی تھی۔ غرض دیگر تمام شعبہ جات اسی طرح کی مشکلات کا شکار ہیں۔

چونکہ پاکستان میں معاشرہ سازی کا مطلوبہ سفر طے نہیں کیا گیالہذا بدقسمتی سے پاکستانی معاشرہ باقاعدہ طور پر اپنی civilization کھو چکا ہے۔آج پاکستان میں قوم پرستی ،علاقہ پرستی،لسان پرستی اور فرقہ پرستی جوان اور زور آور ہو گئی ہے۔ یہ پاکستان کا المیہ ہے کہ جو حالات پاکستان میں نظر آ رہے ہیں۔آپ دیکھ لیں اِس وقت قوم پرستی کی کیا صورتحال ہے؟ سیاسی پارٹیوں کی کیا صورتحال ہے؟ فرقوں کی کیا صورتحال ہے؟ افسرِشاہی کن حالات سے دوچار ہے؟ثقافتی شعبہ کس مشکل میں پڑ چکا ہے؟جوان کدھر جا رہے ہیں؟خواتین کدھر جا رہی ہیں؟

غرض پاکستان اِس وقت ایک ایسی مملکت ہے جسکی باگ ڈورکسی کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ملک کدھر جا رہا ہے کوئی نہیں کہ سکتا! موجودہ حکومت جس طرح سے اپنے آپ کوسنبھالے ہوئے ہے ایسی مثالیں کم ملتی ہیں۔عالمی سطح پر پاکستان اپنا اعتماد کھو چکا ہے۔اور یہ کسی مملکت کی ناکامی ہوتی ہے کہ جب وہ سیاست میں،لین دین میں،اداروں میںاور معیشت وغیرہ میں عالمی اعتبار کھو بیٹھے۔(اِس وقت افغانستان کا عالمی اعتبار پاکستان سے کہیں بہتر ہے)-

ایک ایسا ملک جسکی معیشت مکمل طور پر قرض پر چل رہی ہوجو معیشت کے اعتبار سے ایک دیوالیہ ملک قرار دیا جا چکا ہو۔دفاعی لحاظ سے وہ مراکز جن پر قوم حفاظت کی اُمید لگائے بیٹھی ہو وہ خود غیر محفوظ ہوں۔تعلیمی نظام ایک صنعت و تجارت بن گیا ہو۔جہاں ہر پاکستانی کا مقصد تعلیم نہیں بلکہ ڈگری ہو۔مذہب جسکا ملکی حالات میں اہم ترین رول ہے اُسکی صورتحال اِس وقت سب سے بدتر ہو۔اُس ملک کو ہم کیا کہیں گے؟میں پاکستان کو ایک ناکام ریاست تو نہیں کہوں گا برحال یہ ایک کامیاب ریاست بھی نہیں ہے۔اِس ابتری کی وجہ غیر متوازن اور ناکام سسٹم ہے۔

ہماری یہ سیاسی پارٹیاں سب دھمال کیلئے ہیں۔الیکشن کے دنوں میں میلا لگتا ہے اور یہ سب دھمال ڈالتی ہیں۔کسی کے پاس کوئی نظریہ نہیں ہیں۔ کسی کے پاس کوئی نظام اور سسٹم نہیں ہے۔کسی کے پاس کوئی مقصد نہیں ہے کہ یہ بتا سکیں کہ اِس قوم کا حدف کیا ہے؟مقصد کیا ہے؟ اور کہاں جانا ہے؟

پاکستان اس وقت ایک آشفتہ ریاست ہے۔جسکا سب سے بڑا مسئلہ امن عامہ ہے۔ پاکستان کے اندر یہ حالات کیوں پیدا ہوئے کیونکہ ہم نے معاشرہ سازی کے اُن فطری مراحل کو طے نہیں کیا۔ہم نے اپنانظریہ نہیں بنایا اور اُس نظریہ کی بنیاد پر اِقدار نہیں بنائیں۔اُن اقدارکی بنیا د پر اسٹریکچر نہیں کھڑا کیا اور اُس اسٹریکچر کی بنیاد پر سسٹم نہیں بنایا۔ہم نے یہ سفر طے نہیں کیا۔ہم نے ایک خلا پیدا کیا لہذا ہر جگہ پر ایک نا مناسب اور نا موزوں مخلوق آ کر بیٹھ گئی بقول شاعر
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام ِ گلستاں کیا ہوگا۔

جس معاشرے کے فطری سفر میں خلا پیدا ہو جائے تو وہاں مافیا جنم لیتی ہے۔ مافیا اِٹلی کی اصطلاح ہے مافیا یعنی وہ گینگزجنہوں نے قانون کو اپنی گرفت میں لیکر غیر قانونی کام کرنے ہوتے ہیں۔مثلاََ اسمگلنگ،انسانی اسمگلنگ،اسلحہ اسمگلنگ اور ڈرگ اسمگلنگ وغیرہ۔ یہ مافیا قانون سے بالا تر ہو کر طاقت کی بنیاد پر ہر مسئلے کو حل کرتے ہیں۔چناچہ پاکستان میں اُس خلا کی وجہ سے یہ گینگز پیدا ہوئیں اور یہاں مافیائی نظام بن گیا۔اِسوقت پاکستان کا تقریباََ ہر اِدارہ،ہر پارٹی،ہر مذہبی اور سیاسی جماعت مافیائی بن گئی ہے اور مافیائی اسٹائل میں چل رہی ہے۔جس ملک کی اعلیٰ قیادت اپنے آپ کو قانون سے اعلیٰ تصور کرے اور قانونی استثنیٰ کا نعرہ لگائے اور اپوزیشن لیڈر الیکشن کمیشن کے احکامات کو کوئی گھاس نہ ڈالے اور ملکی آئین اور قوانین کا مذاق اُڑاتے پھریں البتہ دھجیاں اُڑاتے پھریں اور پورے ملک کی عوام سے مینیڈیٹ حاصل کر نے والے پھر بھی اُنکی پشت بانی کریں تُف ہے اِن سب پر۔یہ سیاسی پارٹیاں جن میں آئین اور اساس نام کی کوئی چیز نہیں ہے یہ صرف مافیائی اسٹائل میں چلتے ہیں۔یہ مافیا باس(Boss ) چنتے ہیں نا کہ لیڈر۔۔مافیائی گینگز میں بگ باس ہوتے ہیں اسی طرح سے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے بھی بگ باس ہوتے ہیں۔انکے ایریاز بھی تقسیم ہوتے ہیں۔آپ معاشرہ میں نظر اُٹھا کر دیکھ لیں آپکو اِسکی کئی مثالیں مل جائیں گی۔مثلاََ آیا یہ امر افسوس ناک نہیں ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ جو کہ اپنے آپ کو دینی اور نظریاتی متعارف کراتے ہیںملک بھر کی یونیورسٹیوں خصوصاََپنجاب یونیورسٹی پر اپنی ٹھیکہ داری کا اظہار کرتے ہیں اور کسی دوسرے طلبہ ونگ کو کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔چاہے اِس کام کیلئے اُنکو لڑائی جھگڑے کرنے پڑیں،ہراساں کرنا پڑے یا کو ئی دوسرے ہتھکنڈے استعمال کرنے پڑیں۔اِسی طرح سے پاکستان میں ایسی جماعتیں جنہوں نے دن دیہاڑے دہشت گردی کی،دہشت پھیلائی،دہشتگردوں کا ساتھ دیا،قتلِ عام کیااورجرائم سے آغاز کیا آج وہ اپنے اِس مافیائی طریقے سے پاکستان کے اسٹریکچر کا اہم ترین حصہ بن چکے ہیں اور کوئی حکومت اُنکے بغیر نہیں چل سکتی۔

ایک ایسا ملک جو مافیائی بن گیا ہو۔جسکے حکمران مافیا ہوں،سیاست دان مافیا ہوں،سیاسی پارٹیاں مافیا ہوں،مذہب میں مافیا ہو،مدارس مافیا ہو، انتظامیہ مافیا ہوجائے، تعلیمی نظام میں مافیا آجائے،عدالتیں مافیا کا شکار ہو جائیں،میڈیا پر بھی مافیا سوارہو، میعشت پر مافیا قابض ہو جائے، غرض ملک کے ہر شعبہ میں مافیا آجائے اور قانونی و مذہبی ہر طریقے سے اُنہوں نے اپنی جگہ بنا لی ہو۔ آج ہر ایک کی یہ کوشش ہے کہ کسی طرح سے کوئی ذریعہ لڑا کر ہم بھی کسی مافیا کا حصہ بن جائیں چونکہ مافیائی دور ہے اور کسی مافیا کا حصہ بنے بغیر ہم پاکستان میں نہیں رہ سکتے!کیا یہ ننگ و عار نہیں ہے۔!! ایسی ریاست کو کوئی اِن خصائل کی بنیاد پر کیا نام دے گا۔

آیا یہ ایک المیہ نہیں ہے کہ جماعتِ اسلامی جیسی نظریاتی جماعت بھی اِسی مگرمچھ نظام کا شکار ہو کر رہ جائے۔۔!!

سوال یہ ہے کہ یہ ملک جوایک دلدل میں پھنس کر رہ گیا ہے اِسکو اِس دلدل سے کیسے نکالیں؟ آیا پولیس کے ذریعے سے اِس ملک کو اس مافیائی نظام سے نجات دلائیں یا پھر فوج کے ذریعے اس دہشتگردی پر غلبہ پائیں؟آپ اگر مہران بیس یا جی۔ایچ۔کیو یاپھر پرویز مشرف پر حملہ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اندر کے لوگ بھی ملوث تھے۔ مافیا اِس حد تک اندر گھسا ہوا ہے کہ آپ جس کو بھی سہارہ لیں گے وہ خود اسی بیماری کا شکار ہے۔
بقولِ شاعر:
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں،
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
تا حدِ نظر شعلے ہی شعلے ہیں چمن میں،
پھولوں کے نگہبان سے کچھ بھول ہوئی ہے!

اِس مملکت کے اندر ہم کیا توقع رکھیں کہ امن عامہ کسی دن برقرار ہوگا،کسی دن سیاسی پائیداری آئے گی،کسی دن معیشت سدھرے گی،تعلیم ایک دن رونق ہو جائے گی،کلچر ڈویلپ ہوگا سیاسی نظام اورحکومت بہتر ہوگی،عوام تحفظ محسوس کرے گی،قومی خود اعتمادی بحال ہوگی وغیرہ وغیرہ۔

اِن سب حالات کے ذمہ دار وہ سب لوگ ہیں جنہوں نے معاشرہ سازی کا مطلوبہ سفر طے نہیں کیا ،جنہوں نے نظریاتی اور آئیڈیالوجی کی کے میدان طے کرنے کی بجائے نظریاتی چوری کی،نقالی کی،باہر سے آئین لیکر ترجمعہ کر کے اُسکو نافذ کردیا ۔وہ سب ذمہ دار ہیں جنہوں نے نظریہ اور آئیڈیالوجی سے اقدار نکالنی تھیں،انکو متعارف کرانا تھا،اُن اقدار کی بنیاد پر ریاست کا ایک اسٹریکچر بنانا تھا اور اسٹریکچر کے اوپر ایک سسٹم بنانا تھا یہ سب کے سب ذمہ دار ہیں اور جنہوں نے اِس حالت کو جاری رکھا ہوا ہے وہ بھی ذمہ دار ہیں۔

ہمیں قوم کو اِس دلدل سے باہر نکالنے کیلئے اِس دلدل کو خشک کرنا ہوگا۔لہذا نجات کا ایک ہی طریقہ ہے ہمیں وہ سفر کرنا ہے جو قوموں کیلئے ضروری ہے۔ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ترقی کا حقیقی راز ٹیکنالوجی نہیں ہے بلکہ آئیڈیالوجی ہے۔چونکہ ٹیکنالوجی کے میدان میں مسلم ممالک میں سے پاکستان واحد ملک ہے جسکے پاس ایٹمی ٹیکنالوجی ہے۔لیکن پھر بھی پاکستان آشفتہ زدہ ہے ۔(اگرچہ ابھی ایران نے بھی ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔)

اگر ہم بھی سرسری کاموں میں لگے رہے،اگر ہم بھی حاشیہ کے مسائل میں لگے رہے،اگر ہم بھی دھمال میں لگے رہے اگر ہم بھی رقص میں لگے رہے،اگر ہم بھی مافیا بنانے میں لگے رہے،اگر ہم بھی گینگز میں لگے رہے اگر ہم بھی دوسرے طبقات میں شامل ہو گئے تو مشکل حل نہیں ہوگی۔

امام خمینیؒ نے ایران میں معاشرہ سازی کے یہ فطری چار مراحل طے کر کے اتنی مضبوط سوسائٹی بنائی کہ عالمی گینگسٹروں نے پوری قوت لگا دی مگر وہ اپنے مذموم مقاصد میں ناکام رہے۔ہمیںایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے۔
بقول شاعر
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
Fayyaz Ali
About the Author: Fayyaz Ali Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.