خود احتسابی میں ترقی کا راز اور 62/63

آج ہم بحیثیت انفرادی واحتماعی اس لئے زوال پذیر ہیں کہ خود احتسابی کے عمل سے اپنے آپ کو نہیں گزارتے، دوسروں کے امتحانات تولیتے ہیں، مراقبے کرواتے ہیں خود اپنے اعمال ونیتوں کا مراقبہ نہیں کرتے ، اگر کسی بھی جگہ ہم امتحان کے لئے پیش ہوتے ہیں، تو ممتحن خواہ کوئی ادارہ ہو یا فرد ان کے سوالات سے قبل اپنی تیاری کے بجائے سوچ اور حکمت عملی یہ ہوتی ہے کہ امتحان میں دھوکہ دہی اور فراڈ کے کون سے طریقے کام میں لائے جائیں ، چنانچہ نقل ، سفارش اور دباؤ اس کے معروف راستے بن چکے ہیں ، ہم حکمراں ،علماء، صحافی ، ججز ، بیوروکریٹ انتظامیہ اور فوجی بنتے ہیں ، ان اداروں میں لوگ عزت ،وقار اور عظمت پاتے ہیں، ہم خوار ہوتے ہیں ،۶۲،۶۳کی زد میں آجاتے ہیں اوربعد میں لوگوں کو منہ نہیں دکھاسکتے ،وجہ کیاہے ،خود احتسابی کا فقدان ،کیونکہ اپنا محاسبہ ومراقبہ شاہ کلید اور مسائل وبحرانوں کے حل میں تریاق ہے۔

خود احتسابی کی تعریف یہ ہے کہ انسان ایک خاص وقت میں اپنے یومیہ ، ہفتہ وار،ماہانہ، اور سالانہ کار کر دگی کا جائزہ لے، اپنے حقوق کی تحصیل اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی جس کو علمی اصطلاح میں ’’مالہ وماعلیہ ‘‘ سے تعبیر کیا جاتاہے، پر تنہائی یا اپنے کچھ مخلص اور سمجھداردوستوں کی مجلس میں نگاہ ڈالے ، اپنے اہلیت ونااہلیت کو خود ہی چھلنی سے گزارے ۔حکماء نے لکھا ہے کہ اس عمل پر مداومت انسان کو جو غلطی کا پتلاہے، قلّت خطأ کی طرف کھینچ کر اسے انسانی ترقی کے میدان میں بامِ عروج پر پہنچا دے گا، پھر جو چھوٹی موٹی غلطیاں ہوں گی بھی وہ خود بخود اس کمال وترقی میں مستور وپوشیدہ ہو جائینگی۔

قرآن کریم نے خود احتسابی کی طرف ایک جگہ یوں رہنمائی کی ہے’’ بلکہ انسان اپنے آپ کا نگہبان ہے ‘‘ سورۃ القیامۃ ، ۱۳

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ’’ آج کے دن ،اے انسان، توہی اپنے احتساب کے لئے کافی ہے‘‘سورۂ اسراء ۱۴

مصر کے حکمراں حضرت یوسف کا قول قرآن کریم میں منقول ہے : ’’ اور میں اپنے آپ کو خطاؤں سے بری نہیں سمجھتا،بے شک ہر نفس برائیوں کا کچھ زیادہ ہی حکم دیتی ہے، سوائے اس کے جس پر میرارب مہربان ہو ‘‘ سورۂ یوسف ، ۵۳

قرآن وحدیث میں جس اعمال نامے کا ذکر ہے، وہ بھی خود احتسابی اور خود گرفتگی ہی ہے، انسان نے جوکچھ کیاہوگا وہ سب اس کے سامنے گویا کسی سکرین پر اس کی زندگی کی پوری فلم کی طرح چلادی جائیگی ، پھر بطور گواہوں کے انسانی اعضاء ،آنکھیں،کان ،ہاتھ اور پیر وغیرہ شہادت دیدینگی ،گویاکہاجائیگا:
آپ خود ہی اپنی اداؤں پہ ذرہ غور کریں
ہم اگر عرض کرینگے توشکایت ہوگی

جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص میرے لئے اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان (زبان)  کا اور دونوں ٹانگوں کے درمیان (شرمگاہ ) کا ضامن ہوجائے ، میں اس کے لئے جنت کا ضامن بننے کو تیار ہوں ۔(بخاری)

اپنے ایمان ،اسلام ، جہاد اور ہجرت کا کسی نے محاسبہ کرنا ہو، تو آنی والی حدیث کو لکھ کر جیب میں رکھیں یااپنی نشست کے سامنے والی دیوار پر کندہ کریں : ’’کیا میں تمھیں مؤمن نہ بتاؤں ؟ لوگوں کی جان ومال جس سے مامون ہو وہی مؤمن ہے ،اور جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ سلامت رہے وہی مسلم ہے ،جو اپنی نفس کو اﷲ کی اطاعت میں لگادے وہی مجاھد ہے، اورجو غلطیوں اور برائیوں کو چھوڑ دے وہی مہاجر ہے ۔‘‘(بیھقی )

حضرت عمر ؓ ہر رات اپنا مجاسبہ خود کرتے تھے اورفرماتے تھے ، ’’اپنا محاسبہ د وسروں کے احتساب سے پہلے کیاکرو، اپنا وزن دوسروں کے تولنے سے قبل معلوم کیاکرو‘‘(احیاء علوم الدین )

علم ومعرفت کی فضائل دنیاکے تمام ادیان اور تہذیبوں میں بکثرت وارد ہیں ، لیکن پوری دنیائے علم وفلسفہ اس پر متفق ہے کہ ہر انسان سب سے زیادہ اپنے آپ کو جانتا ہے ،اسی لئے کہاجاتا ’’ انا‘‘ اعرف المعارف ہے ، یعنی معلومات میں سب سے بڑی چیز اپنی ذات ہے ،اور ’’انا‘‘کی معرفت کو افضل العلوم بھی قرار دیاگیا ہے، لہذا جس کواپنی افتادِ طمع ، اپنی نیت ،اپنے عمل ،آپ بیتی اور اپنی کا کردگی کا احتساب نہ ہو وہ دوسروں سے حساب کیسے مانگ سکتاہے۔
ہرکس کہ نہ داند ،ونہ داند کہ نہ ادند
درچہل مرکبّ ابدالدھر بماند

کہتے ہیں جو خود احتسابی کر کے اپنی کسی غلطی کا اعتراف کرلیتاہے ، وہ ایک ہی مرتبہ وہ غلطی کرتاہے اور جو اپنا محاسبہ نہیں کرے گا ،وہ اسے بار بار دھراتارہے گا۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 820999 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More