اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس طرح انسان کی جسمانی نشونما کے لیے کھانا ضروری ہے، اسی طرح روحانی اور شخصی ترقی کے لیے تعلیم انتہائی ضروری ہے۔تعلیم کے بغیرانسان بے روح جسم کی مانند ہے۔تعلیم کے بغیر نہ تو انسان صحیح سے جینے کا ڈھنگ سیکھ سکتا ہے اور نہ ہی ملک و ملت کی ترقی کا موثر ذریعہ بن سکتا ہے۔یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب ملک کا تعلیمی نظام مضبوط ہو، جواستاذ اور طلباءمیں یہ شعور بیدار کرے کہ آج کے بچے کل ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تعلیمی نظام اس قدر بودا اور کھوکھلا ہوچکا ہے کہ ایک کلاس سے اگلی کلاس میں جانے کے سوا بچوں کوکچھ بھی حاصل نہیں ہوپاتا۔پاکستان میں تعلیمی نظام کے کھوکھلے پن کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ حال ہی میں حکومتی ادارے منصوبہ بندی کمیشن کی طرف سے جاری ہونے والی سالانہ تعلیمی صورتحال رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق جماعت سوئم میں پڑھنے والے 81 فیصد طالب علم دوسری جماعت کے انگریزی کے جملے نہیں پڑھ سکتے۔ جماعت سوئم اور پنجم کے طالب علموں کو جماعت دوئم کا ایک مضمون پڑھنے کو دیا گیا مگر ان میں سے بالترتیب 94 اور 68 فیصد ایسا نہ کرسکے۔ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ ملک میں تعلیمی معیار کی تنزلی کی وجہ اس شعبے میں بہتری لانے کے لیے حکومتوں کی عدم دلچسپی ہے۔سیاست دان سمجھتے ہےں کہ اقتدار میں آکر اپنا ووٹ بینک محفوظ کرنے کے لیے بلا دھڑک ہر ایرے غیرے کو ملازمتیں دیں، اس طرح تعلیمی شعبے میں نااہل لوگ قبضہ جماتے جارہے ہیں، جس سے ملک کا اہم ترین شعبہ دن بدن تنزلی کا شکار ہورہا ہے ۔

پاکستان کے تعلیمی نظام میں مختلف قسم کی خامیاں گھر کرچکی ہیں۔ اس نظام کو کھوکھلا کرنے والی خامیوں میں سب سے قابل ذکر اور نقصان دہ خامی امتحانات میں کھلے عام نقل اور اس میں خود اساتذہ اور نگران حضرات کا ملوث ہونا ہے۔اکثرا سکولوں میں استاذ حضرات طلباءسے پیسے لیتے ہیں تاکہ باہر سے آنے والے نگرانوں کے کھانے پینے اور ان کی جیب گرم کرنے کا انتظام کر سکیں۔جس کے بدلے میں وہ بھی طلباءکو کھلے عام نقل لگانے کی اجازت دے دیں۔پھر ایسا ہی ہوتا ہے،نگرانوں کی جیبیں گرم کردی جاتی ہیں جس کے بدلے کھلے عام نقل لگانے کی اجازت ہوتی ہے۔ امتحانات میں نقل مافیا کی بلادھڑک سرگرمیوں کا اندازہ گزشتہ دنوں سندھ بھر میں شروع ہونے والے میٹرک کے امتحانات سے لگایا جاسکتا ہے۔ کراچی بورڈ کے تحت منعقدہ امتحانات میں مجموعی طورپر3 لاکھ 17ہزار امیدوار شریک امتحان ہیں۔ جن کے لیے مجموعی طور پر 223 امتحانی مراکز قائم کیے گئے ۔حیدرآباد تعلیمی بورڈ کے مطابق میٹرک کے امتحانات میں 113985 طلباءو طالبات حصہ لے رہے ہیں۔ سکھر بورڈ کے تحت میٹرک کے امتحانات میں98ہزار طلباءو طالبات شریک ہیں۔ سکھر،خیر پور ،گھوٹکی اور نوشہروفیروز میں 192امتحانی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ نقل کی روک تھام کیلیے کئی شہروں کے امتحانی مراکز میں دفعہ 144 کا نفاذ کیا گیا ہے ۔نقل کی روک تھام کے لیے پولیس اور رینجرز کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔لیکن حسبِ سابق اکثر امتحانی مراکز میں نقل کرنے والوں کو کھلی چھٹی ہے۔مختلف طریقوں سے پرچے حل کرکے امتحانی مراکز کے اندر بھیجے جا رہے ہیں۔امتحانی سینٹرز میں عملے اور پولیس کی ملی بھگت سے طلباءکھلے عام موبائل فون اور مختلف امتحانی میٹریل سے نقل کررہے ہیں۔ویجلنس ٹیموں کی عدم فعالیت اور سیکورٹی اداروں کی غفلت کے سبب نقل مافیاسرگرم ہے۔

امتحانات کے دوران حیران کن اور دنگ کردینے والے انکشافات بھی ہوئے، جن میںنقل مافیاکی جانب سے غیرقانونی امتحانی مراکز میں پرچے دیتے ہوئے،بڑی جماعتوں کے طالب علم چھوٹی جماعتوں کے طلباءکے پرچے حل کرتے ہوئے،کسی دوسرے امیدوار کی جگہ پرچہ دےتے ہوئے،دوستوں کے پرچے دیتے ہوئے اور بھائی کے پرچے دیتے ہوئے پکڑے جانے والے بیشتر طلباءمنظر عام پر آئے، کتاب سے دیکھ کر پرچہ حل کرنے والے طلباءکی تعداد تو بہت زیادہ ہے ۔پیسوں کے عوض امتحانی پرچہ حل کرنے کے لیے بوٹی مافیا مکمل سہولت فراہم کر رہی ہے۔کراچی کی طرح حیدرآباد ڈویژن،نواب شاہ، سکھر، خیرپور، نوشہروفیروز اور گھوٹکی وغیرہ میں میں بھی کھلے عام نقل کا سلسلہ جاری ہے۔انتظامیہ کی طرف سے نقل کی روک تھام کے لیے گئے اقدامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔ طالب علموں کو نقل سے روکنے والا کوئی نہیں، متعدد امتحانی مراکز کے ارد گرد فوٹو اسٹیٹ کی دکانیں نہ صرف کھلی ہیں بلکہ نقل کا مواد بھی دستیا ب ہے۔ متعدد ایسے امتحانی مرکز ہیں جہاں پولیس اور امتحانی مرکز کا عملہ مل کر طلباءوطالبات کو نقل کرانے میں مصروف ہے۔بعض امتحانی مراکز میں پرچہ شروع ہونے سے پہلے ہی کاپی کرنے والوں کے پاس پہنچ گیا اور فوٹو اسٹیٹ کی دکانوں پر200روپے میں سوالوں کے سیٹ فروخت کیے گئے۔ نقل کی روک تھام کیلئے مقرر پولیس اہلکاروں نے 50سے 100روپے میں کاپی اندر پہنچائی۔جس میں اسکول کے چوکیدار ،نائب قاصد سمیت ڈیوٹی پر مقرر اساتذہ بھی اس عمل میں شریک تھے۔ کراچی کے ایک اسکول میںدوران امتحان نقل کرانے کے لیے ایک درجن کے قریب مسلح افراد اسکول میں گھس آئے اور من پسند امیدواروں کونقل کرانے کے لیے اسکول انتظامیہ پردباؤ ڈالا،ایک اسکول میں قائم امتحانی مرکزپرنقل سے روکنے پرفائرنگ کا واقعہ بھی پیش آیا،نقل مافیانے ایک امتحانی مرکزمیں داخل ہونے کے لیے اسکول میں بم کی موجودگی کی افواہ پھیلادی اور نقل نہ کرانے پر ایک سرکاری اسکول کے سینٹر سپرنٹنڈنٹ کوقتل کی دھمکیاں بھی موصول ہوئی ہیں۔

اگرچہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں امتحانات کے دوران نقل کی جاتی ہے ۔لیکن سندھ میں نقل کا رجحان بہت زیادہ ہے۔اسی لیے پنجاب سے میٹرک کے امتحانات میں بار با ر فیل ہونے والے طلباءکراچی و سندھ میں آکر امتحان دیتے ہیں اور پاس بھی ہوجاتے ہیں۔میں پہلے سوچتا تھا کہ کراچی و سندھ کو نقل کے اعتبار سے شاید غلط مشہور کیا گیا ہے،لیکن مجھے اس بات کا اندازہ اس وقت ہوا جب میں نے کراچی یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان دیا تھا۔کراچی میں بی اے کے امتحان میں ہونے والی نقل پنجاب میں میٹرک کے امتحان کے دوران ہونے والی نقل سے زیادہ تھی۔آج ہمارے ہاں تعلیم کا معیار تو یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں کھلے عام نقل لگائی جاتی ہے،اس کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ ہم ترقی کیوں نہیں کرتے؟

آج یورپ تعلیم پر بھرپور توجہ دے رہا ہے اس کا پھل بھی ترقی اور تمام دنیا پر غلبے کی صورت میں وہ حاصل کررہا ہے لیکن تعلیم کے ساتھ ہم نے جو حال کیا اس کی ایک جھلک ہم نے سندھ میں ہونے والے میٹرک کے امتحانات میں دیکھ ہی لی،اسی کی بدولت آج دنیا کی دو سو بہترین یونیورسٹیوں میں عالم اسلام کی کسی ایک بھی یونیورسٹی کا نام شامل نہیں ہے۔ تین سال پہلے ملائیشیا کی ایک یونیورسٹی شامل تھی اس کا نام بھی خارج کردیا گیا ہے۔اب بھی سنبھل جانے کا وقت ہے،جو طالب علم اس طرح سے نقل لگا کر پاس ہوتے ہیں وہ آگے جا کر قوم کی باگ ڈور کیا سنبھالیں گے؟۔ اگر ہم اپنی آئندہ نسلوں کو یونہی علمی طور پر اپاہج بناتے رہیں گے تو تاریخ ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ تعلیم کا معیار بہتر سے بہتر بنائے، تاکہ آج کے بچے بہتر طریقے سے پڑھ کر کل ملک و ملت کی ترقی و کامیابی کا ذریعہ بن سکیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 636521 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.