یہ کیسی تصویر بنا دی تم نے ہندوستان کی

ایک وقت تھا جب ہندوستان کی عظمت کا ستارہ ثریا سے بھی بلندی پر چمکتا تھا ۔اس کی تقدیر ‘تعمیر اور رکھ رکھا ؤ اتنا عمدہ تھا کہ عالم کھنچا چلا آتا تھا ۔یہاں کی مہمان نوازی اور میزبانی کے چرچے اتنے عام تھے کہ لوگ راستوں کی لاکھ صعوبتیں برداشت کرکے پہنچتے تھے اور بذات خود مشاہدہ کر تے تھے کہ ہندوستان میں مہمان کو خدا کا فرستادہ اور رحمت تصور کیا جاتا ہے ۔ان کا تاثر یہ ہوتاتھا کہ’’ ہندوستان کے بارے میں جتنا سنا تھا اس سے کہیں زیادہ پایا۔‘‘پھر وہ یہیں کے ہوکے رہ جاتے ۔

تقریبا ً20ویں صدی تک ہندوستان اپنی اسی زرین تاریخ سنہرے جواہرات اور انمول اقدار کے ساتھ رہا مگر جیسے ہی 21ویں صدی کا ورودہوا ہندوستا ن کے چاند سورج ستارے سب گہنا گئے ۔ملک کے طول وعرض میں گاہے گاہے ‘مسلسل‘وقت بے وقت فرقہپ وارانہ فسادات‘خانہ جنگی ‘آپسی سازشوں اور مذاہب کے نام پر جنگوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔بھا ئی بھا ئی کو مارنے لگا ۔گاؤں کے پڑوس کے گاؤں کا دشمن ہو گیا ۔کسی ریاست کاسربراہ ریاست کے اقلیتی عوام کی نسل کشی پر آمادہ ہو گیا ۔کہیں اپنا حق مانگنے والوں کامحاصرہ کر کے گولیوں سے بھون دیا گیا ۔آج کے ہندوستان کی حالت یہ ہو گئی کہ اگر ابن بطوطہ ‘چینی سیاح گارڈ شیاہ‘اور دیگرسیاح آج آکردیکھیں تو خون کے آنسو روپڑیں اور ہندوستانیوں سے کہیں ’’یہ کیسی تصویر بنا دی تم نے ہندوستان کی !اس ہندوستان کی جسے ’’ارضی جنت ‘‘کہا جاتاتھا اور جس میں ہم نے وہ نظارے دیکھے تھے جن کی نظیر ہمیں کہیں نہیں ملی ۔‘‘ایسا نہیں ہے کہ قتل و خون فسادات اوو انارکی کا سلسلہ یہیں ختم ہو گیا بلکہ اس کا دائرہ مزید وسیع ہو گیا اور امروز جرائم نے نئی نئی شکلیں اختیار کرلیں ۔خودکشی ‘عصمت ریزی ‘دختر کشی ‘ڈاکہ زنی ‘ٹارگٹ کلنگ‘فدائین حملے ‘سیریل بم دھماکے ‘شہرو ں کی بد نامی وغیرہ۔دور دراز کاقصہ تو چھوڑئے ‘دہلی جو ہندوستان کا دارالحکومت ہے اور جس پر تمام عالمی برادری کی نظر ہے ۔یہاں ہونے والی ہر آہٹ کی دھمک باہر سنا ئی دیتی ہے۔یہاں ریپ‘عصمت دری ‘قتل ‘لوٹ مار اور خوف و دہشت کے وہ سلسلے ہیں جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں ۔ایک سے ایک خطرناک حادثہ ہوتا جارہا ہے ۔سر راہ چلتے چلتے قتل کر دینا یہاں عام ہو گیا ہے ۔اس کی زد سے کو ئی محفوظ نہیں ہے نہ عام نہ خاص جس کی ادنی سی مثال کروڑپتی بی ایس پی لیڈر کا قتل ہے جسے اس کے اپنو ں یعنی بیوی اور بیٹے نے موت کی نیند سلا دیا ۔

خواتین کے تعلق سے آج دہلی بالکل غیر محفوظ ہے ۔غنڈوں کی شرپسندی کا عالم یہ ہے کہ دن کے اجالے میں بھی خواتین سہمی سہمی رہتی ہیں۔شام ہوتے ہوتے تو ان کے دلوں کی دھڑکنیں سینہ پھاڑ کر باہر نکلنے کے لیے بے تاب رہتی ہیں ۔وہ بار بار آگے ‘پیچھے ‘دائیں ‘بائیں مڑمڑ کر دیکھ کرچلتی ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی طرف سے کو ئی عصمت کا لٹیرا آئے اور’’ چادر عصمت تارتار‘‘ کر جا ئے ۔ یہ ہے آ ج کی دہلی ‘ہندوستان کا دل اور ترقی یافتہ ملک کے غرور کا حال ۔یہاں قانون ‘انتظامیہ اور عدلیہ سب سے بے کار ہوتے جارہے ہیں ۔بے شمار روپورٹیں ایسی ہیں جن میں خود قانون کے رکھوالے چھوٹے پولیس اہلکار سے لے کر بڑے آفیسران تک برائیوں میں ملوث ہیں ۔

قانون اور انتظامیہ کی بدحالی کا اندازہ حالیہ پیش آمدہ اس دل دوز واقعے سے لگایا جاسکتا ہے جب مغربی بنگال کی وزیر اعلا اور یو پی اے اتحاد کی معاون رہیں س ممتا بنرجی اور ان کے وزیر خزانہ امت مترا پر اس جگہ حملہ کر دیا گیا جہاں حکومت کے ہند کے اعلا دفاتر اوروزارتوں کی آفس واقع ہیں اور پولیس اہلکار اور سکیورٹی گارڈ دیکھتے رہے۔یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی جتنی مذمت کی جا ئے اتنا کم ہے ۔یہ صرف ایک خاتون پر حملہ نہیں تھا بلکہ ایک ریاست کی سربراہ ‘جمہوریت اور سیکولرزم پر حملہ تھا ۔ایک بافیض اور غریبوں پر سایہ فگن تعمیر کی تخریب تھی ۔اطلاعات کے مطابق ممتا بنرجی مغربی بنگال کے مالی امور کے سلسلے میں اپنے وزیر خزانہ امت مترا کے ساتھ راشٹرپتی بھون میں واقع نارتھ بلاک مرکزی وزیرخزانہ پی چدمبرم سے ملاقات کے لیے جارہین تھیں کہ تبھی سی پی ایم کی طلبا ونگ ایس ایف آئی کے کارکنان نے اپنے ساتھی طالب علم کے قتل کی پاداش میں ان وزیر امت مترا پر حملہ کر دیا ۔اس ہنگامہ خیزی میں ممتا بنرجی کو بھی چوٹیں اور وہ اس واقعے سی اتنی مبہوت ہوئیں کہ ان کا سانس پھول گیا ۔اس دوران انھوں نے وزیر مالیاتسے اپنی ملاقات منقطع کر دی اور یہ کہتے ہو ئے مغربی بنگال روانہ ہو گئیں کہ’’دہلی قطعی محفوظ نہیں ہے ‘اس لیے مغربی بنگال واپس جارہی ہوں اور آیندہ دہلی آنے کے لیے کئی بار سوچنا ہوگا ۔‘‘

ممتا بنرجی کی یہ بات سو فیصد صحیح ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ دیدی نے یہ بات اس وقت کہی جب خودانھیں ان حالات سے دوچار ہونا پڑا ۔’’دیدی جی !دہلی تو بہت پہلے غیر محفوظ ہے۔یہاں کے رات دن کیسے خوف و دہشت سے گذرتے ہیں یہ وہی جانتے ہیں جو دہلی میں رہتے ہیں ۔یہاں شرپسندی پھیلانے والوں کو ذرا بھی اس بات کا احساس نہیں ہوتاکہ یہاں اٹھنے والی ہر آواز ‘ہر آہٹ ‘ہر دھمک ‘ہر کوشش اور ہرقدم کا اثر راست باہرکی دنیا پر ہوتا ہے ۔یہ کو ئی گاؤں ‘کھیڑا یا معمولی جگہ نہیں ہے کہ بڑا سا بڑا حادثہ بھی وہاں دب جاتا ہے ۔باہر کی دنیاہندوستان کو دہلی کے آینے میں دیکھتی ہے ۔بھلا سو چیے جب یہ آئینہ ہی داغ دار ہوگا ‘اس پر دھبے ہوں گے تو باقی ہندوستان لاکھ ترقی کر ے ‘لاکھ وہاں امن و امان ‘پر سکون حالایت‘فرقہ وارانہ ہم آہنگی ‘ماں‘بہن ‘بیٹی کی عصمتوں کا تحفظ ہو مگر ہندوستان پھر بھی ظالم ‘قتل و خون کی آماج گاہ اور عصمت ریزیوں کے ملک کے طور پر جانا جا ئے گا ۔اس کا ذمے دار کو ئی اور نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں ایسے کرتوت کر کے مادر ہندوستان کے سینے کو چھلنی کر رہے ہیں ۔

احساس
ایسا نہیں ہے کہ قتل و خون فسادات اوو انارکی کا سلسلہ یہیں ختم ہو گیا بلکہ اس کا دائرہ مزید وسیع ہو گیا اور امروز جرائم نے نئی نئی شکلیں اختیار کرلیں ۔خودکشی ‘عصمت ریزی ‘دختر کشی ‘ڈاکہ زنی ‘ٹارگٹ کلنگ‘فدائین حملے ‘سیریل بم دھماکے ‘شہرو ں کی بد نامی وغیرہ۔دور دراز کاقصہ تو چھوڑئے ‘دہلی جو ہندوستان کا دارالحکومت ہے اور جس پر تمام عالمی برادری کی نظر ہے ۔یہاں ہونے والی ہر آہٹ کی دھمک باہر سنا ئی دیتی ہے۔یہاں ریپ‘عصمت دری ‘قتل ‘لوٹ مار اور خوف و دہشت کے وہ سلسلے ہیں جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں ۔ایک سے ایک خطرناک حادثہ ہوتا جارہا ہے ۔سر راہ چلتے چلتے قتل کر دینا یہاں عام ہو گیا ہے ۔
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 56736 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More