غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں

ہزاروں سال سے لوگ مختلف قسم کے کاروبار کرتے رہے ہیں،لیکن ایسا نہیں تھا کہ تاجروں نے اپنا سامان فروخت کرنے کے لیے عورت کو بطور ہتھیار اپنایا ہو،وہ اپنا سامانِ تجارت بیچنے کے لیے کبھی جھوٹے دعوے بھی نہیں کرتے تھے ،اللہ تعالیٰ انہیں ہرقسم کی کامیابی اور ترقی دیتا رہا۔لیکن ہوا ایسا کہ اپنے کاروبار کو وسعت دینے کا بھوت تاجروں کے سر پر سوار ہو گیا اور انہوں نے اس مقصدکے لیے مختلف حیلے بہانوں سے ورغلا کر لوگوں کو اپنی پروڈکٹ خریدنے پر مجبور کرنا شروع کردیا۔اپنے سامان کی فروخت کی خاطرلوگوں کو مائل کرنے کے لیے دیکھا دیکھی ایسے اشتہارات کی بھرمار ہوگئی جن میں صنف نازک کوبھی کاروباری پروڈکٹ کی طرح بے ہودہ و بے حیا بنا کر پیش کرنا شروع کیا۔نیم عریاں تصاویر سے بازاروں ، شاہراہوں کو آلودہ کرنا شروع کردیاگیا۔

مانا کہ لوگوں کو اپنے قریب کرنے یا ان کو اپنی شے فروخت کرنے کا سب سے آسان اور کامیاب ذریعہ تشہیر ہی سمجھا جاتا ہے۔آج کے دور میں جتنے بھی کاروبار ہورہے ہیںان سب کا مدار تشہیر پر ہے۔لوگ مختلف طریقوں سے تشہیر کرتے ہیں، آج کے دور میں زیادہ تر لوگ سائن بورڈ کے ذریعے اپنی اشیاءکی تشہیر کو پسند کرتے ہیں۔لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سائن بورڈ زکے ذریعے تشہیر کی آڑ میں عوام عورت کی عزت کو ہی نیلام کرنا شروع کردیا جائے۔

جب سائن بورڈ کی ابتدا ہوئی تو اس وقت یہ چھوٹے حجم اور بے ہودگی سے پاک ہوتے تھے لیکن آج تو اتنے بلند اور بڑے ہیں کہ بڑی بڑی عمارتیں بھی اس سے شرماجاتی ہے اور اس کے ساتھ یہ اس قدر فحش اور بے ہودہ بھی بنادیے گئے ہیں کہ تقریباً ہر سائن بورڈ ہی عورتوں کی نیم عریاں تصاویر سے آلودہ ہوتا ہے ۔ ہر شاہراہ پر دس قدم کے فاصلے پر ایک سائن بورڈ لگاہوا ہے۔دائیں ہو یا بائیں ، قسم قسم کے سائن بورڈ اپنی طرف متوجہ کر رہے ہوتے ہیں، حتی کہ روڈ کے وسط میں اوپر کی جانب بھی چھوٹے چھوٹے سائن بورڈ لگے ہوتے ہیں۔ پہلے پہل تو اس قسم کے بے ہودہ اشتہارات صرف اخبارات اور ٹیلی ویژن تک ہی محدود تھے لیکن بعد میں تاجروں نے اپنے کاروبار کی خاطر فحش اور بے ہودہ قسم کے سائن بورڈ سڑکوں پر جگہ جگہ لگا کر قوم کی آنکھوں کو نیم برہنہ تصاویر سے آلودہ کرنا شروع کردیا۔حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی آنکھوں کو بدنظری کے گناہ سے بچانا چاہے بھی تو نہیں بچا سکتا کیونکہ سڑکوں کے دائیں بائیں سائن بورڈوں کی اس قدر بہتات ہوتی ہے کہ ایک طرف سے نظر بچائی جائے تو دوسری طرف کسی نیم عریاں عورت کی تصویرآپ کی طرف گھور رہی ہوگی، اس کے ساتھ ان بے ہودہ سائن بورڈوں کا سائز اتنا بڑا ہوتا ہے کہ ناچاہتے ہوئے بھی ان پر نظرپڑ جاتی ہے۔ آج کے سائن بورڈوں کو دیکھیے کہ یہ کھلم کھلا بے حیائی اور فحاشی کا ذریعہ ہےں،ننگے بدن اور مرد و عورت کا اختلاط سائن بورڈ کی زینت بن رہے ہےں۔اس سے یہ ہمیں کیا سبق دینا چاہتے ہیں،کیا بدن عریاں کیے بغیر اشیاءکی تشہیر ممکن نہیں؟اس کے مضر اثرات اس ملک کے اندرزہر قائل کی طرح پھیل رہے ہیں۔اس کی بھرمار اس حد تک ہوچکی ہے کہ مساجد کے باہر بھی اس طرح کے حیا سوز مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ سائن بورڈوں پر عورتوں کی بڑی بڑی تصویریں ہر گزرنے والے کا استقبال کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔

کراچی سمیت ملک کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں جہاں بھی جائیں۔ ہر طرف فحاشی ، عریانی و بے حیائی سے بھرپور تصاویر عام ہیں۔ کسی بھی کمپنی نے اپنی مصنوعات کی تشہیر کرانی ہو تو جب تک کسی خاتون کی عریاں تصویر سائن بورڈ پر شایع نہ کی جائیں تو اس وقت تک اس سائن بورڈ کو نامکمل سمجھا جاتا ہے۔ آج ایسی عریاں تصاویر تمام شاہراہوں اور چوراہوں پر سائن بورڈ کی صورت میں دیکھنے کو ملیں گی۔ یہیں تک بس نہیں بلکہ کچھ کمپنیاں تو حد کر دیتی ہےں۔ ناصرف تصاویر بلکہ حیا سے عاری جملے بھی پڑھنے کو ملیں گے۔ یہ صرف بڑی مصنوعات کی تشہیر کے لیے نہیں بلکہ چھوٹی سے چھوٹی چیزیں جن میں سرفہرست صابن، شیمپو، کریم، ٹوتھ پیسٹ ، ٹافی ، بسکٹ ، پانی، سری لیک، ہاشمی سرمہ، غرض اس جیسی بہت سے مصنوعات کے اشتہارات آپ کو نظر آئیں گے۔ کسی بھی چیز کی تشہیر کے لیے عورت کی تصویر کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ آج نظر کی حفاظت کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔

پاکستان تو اسلام کی بنیاد پروجود میں آیا تھا۔ اسلام تو کہتا ہے کہ جس گھر میں جاندار کی تصاویرہوں وہاں رحمتوں اور برکتوں کا نزول نہیں ہوتا تو بھلا جس شہر کو بے حیائی کی تصاویر سے مزین کردیا گیا ہو۔ اس میں رحمتوں اور برکتوں کا نزول کیونکر ہوگا؟ وہاں رحمتوں اور برکتوں کا نزول تو درکنار بلکہ سابقہ نعمتوں کو بھی ایک ایک کرکے چھین لیا جاتا ہے۔ پھر وہاں اللہ کا غضب برستا ہے۔ آج ہماری سوچ ہے کہ وطن عزیز کو کسی کی نظر لگ گئی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس بربادی گلشن کا آغاز ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے کیا ہے۔ لہٰذا کمپنی مالکان سے گزارش ہے کہ خدارا ہوش کے ناخن لو۔موجودہ حالات میں بے حیائی پر قابو پانا آپ کا فرض بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عقل جیسی عظیم نعمت سے انسان کو نوازا ہے۔ تصاویر کی بجائے کسی اور طریقے سے بھی مصنوعات کی تشہیر ممکن ہے۔ آپ بے حیائی کو فروغ مت دیں۔قومی غیرت کا بھی لحاظ رکھیں۔ حیا کے دامن تھامے رکھیں۔ اسی میں خیر ہے۔اگر آپ نے اس خیر کو ناپسند کیا اور بے حیائی کی ترویج میں مگن رہے۔ تو پھر قرآن کا فیصلہ بھی سن لیں: ” یقینا جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی (فحاشی) عام ہو تو ان کے لیے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دردناک عذاب ہے اور اس بات کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (النور19)

ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ بے حیائی انسانی معاشرے کو اس طرح چاٹ جاتی ہے جس طرح گھن لکڑی کو، آج بڑے پیمانے پر الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا اور بڑے بڑے سائن بورڈز کے ذریعے فحاشی اور عریانی کو فروغ دیا جارہا ہے، ملک پہلے ہی ان گنت بحرانوں کا شکار ہے ایسے میں فحاشی و عریانی اور بے حیائی کو فروغ دے کر اللہ کے غضب کو دعوت دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔تشہیرکرنا کاروبار کرنے والوں کا حق ہے ،لیکن اس کی بھی کچھ حدودمقرر ہیں ،اس حد سے تجاوز نہ کریں اور حد کے اندر رہتے ہوئے اور اسلامی قوانین کا مکمل خیال رکھتے ہوئے تشہیر کرےں،تو سب کے حق میں مفید رہے گا۔ ملک بھر میں سائن بورڈز پر فحش تصاویر لگانے والے مٹھی بھر لوگ ہیں، اگر قوم متحد ہوجائے تو انہیں سمجھایا جاسکتا ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 637388 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.