اقربا ء پروری ، سفارش اور رشوت

 جمشید خٹک

ایک عجیب وباء پھیلی ہوئی ہے ۔پورا معاشرہ آسیب زدہ ہے ۔قدم قدم پر سفارش ، رشوت اور اقرباء پروری کے جن نے اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں ۔ایک اژدھا منہ کھولے کھڑا ہے ۔جو بھی کسی بھی کام کیلئے آگے بڑھتا ہے ۔تو بغیر شناسائی کے ، دوستی کے یا مٹھی گرم کئے ۔اس اژدھا کے سامنے کوئی پر بھی نہیں مار سکتا ۔ دفتری فائلوں پر سانپ بیٹھا ہوتا ہے ۔اُن کاغذوں کو ہاتھ لگاتے ہی سانپ حملہ آور ہوتا ہے ۔اُس سانپ کی غذا کاغذ ہے ۔اُس کے سامنے اگر رنگین کاغذ پھینکے جائیں۔تو اژدھے کو سانپ سونگھ جاتا ہے ۔وہ ایک طرف خاموشی سے لیٹ جاتا ہے ۔جب تک اُس کے پیٹ میں خوراک موجود ہوتا ہے ۔تو وہ بے ہوشی کے عالم میں سوتا ہے ۔اُس کے نیچے سے جتنی بھی فائلیں نکالنی ہو۔آسانی سے نکالی جاسکتی ہیں۔سارے کام آسان ہو جاتے ہیں ۔دنوں میں نہ نکلنے والا کام گھنٹوں میں اور گھنٹوں میں نکلنے والا کام منٹوں میں حل ہوجا تا ہے ۔ایک دفعہ ایک بڑے آفسر کو ایک ضروری فائل کی ضرورت پیش آئی ۔ سارا دفتر چھان مارا ۔ لیکن فائل ایسا غائب جسے گدھے کے سر سے سینگ ۔جب آفسر تھک ہار کے بیٹھ گیا ۔تو اپنے ماتحت کا دفتر ٹٹولنا شروع کیا ۔جب ماتحت کے کرسی پر ایک فائل نظر آئی ۔ تو پتہ چلا کہ یہ ضروری فائل ماتحت نے کرسی کے اُوپر رکھا تھا ۔ اور خود اُس پر تشریف فرما ہوتے تھے ۔تا کہ اگر کوئی معلوم کریے تو صرف اُس کو علم ہوگا ۔لیکن جب کسی نے مہینہ دو کے بعد نہیں پو چھا تو وہ فائل اُدھر ہی رہ گیا ۔تب پتہ چلا کہ کسی ضرورت مند نے اُس فائل کے بارے میں دریافت کیا۔

ہر کا م کو نکالنے کیلئے امرت دھارے کی ضرورت ہوتی ہے ۔یہ آمرت دھارا تین شکلوں میں دستیاب ہے ۔ نقدی کی شکل میں ، تعلقات کی بناء پر اور اقرباء پروری ۔صبح صبح کوئی بھی آدمی جب کسی کام کی غرض سے گھر سے نکلتا ہے ۔تو یہ سوچ کرکہ کہیں سے پتہ لگایا جائے ۔ کہ شناختی کارڈ کے دفتر میں کوئی جان پہچان والا نکل آئے ۔بجلی کے دفتر میں داخل ہو نے سے پہلے مقامی آفسر کا حدود اربعہ معلوم کرتا ہے ۔ انٹرنیٹ پر پہلے گیس بل کا پتہ لگایا جاتا ہے ۔انٹرنیٹ پر گیس کے بل معلوم کرنے میں دو تین دن تو لگ ہی جاتے ہیں ۔اگر ڈوپلیکٹ بل بنانا مقصود ہو۔ تو دفتر تک پہنچنے قطار میں لگ کر بل کی کاپی حاصل کرنے میں کم از کم ایک دن تو صرف ہوجاتا ہے ۔ 2010 میں سیلاب کیا آگیا۔کہ ضلع نوشہرہ میں سارے محکموں کا ریکارڈ دریا بُرد ہوگیا ۔کالج سے اگر بارہویں کی سند حاصل کرنی ہو تو پرنسپل صاحب/ صاحبہ کو ایک درخواست بمعہ ایک عدد چال چلن کی سرٹیفیکٹ اور پرنسپل صاحب / صاحبہ کی طرف سے اجازت نامہ داخل کرنی پڑتی ہے ۔جب یہ پہلا مرحلہ مکمل ہو جاتا ہے ۔تو دوسرے مرحلے کیلئے سارے کاغذات کو لیکر مردان بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کی طرف سے مطلوبہ سند کی نقل جاری کی جاتی ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے ۔کہ اگر اصل جاری نہیں کیا گیا ہے ۔تو نقل کیسے جاری کیا جا سکتا ہے ۔اور اگر سرٹیفیکٹس کی بنیاد پر سند کی نقل جاری کی جاتی ہے ۔تو اصل کاپی کدھر ہے ۔اگر اصل ہے ۔تو نقل جاری کیا جا سکتا ہے ۔بہر حال محکمہ تعلیم کے ارکان بالا بہتر جانتے ہیں ۔

ہسپتال جانے کا اتفاق ہو جائے ۔تو ہسپتا ل میں جوانبوہ نظر آتا ہے ۔ وہ علاج معالجہ کی جگہ کم اور ایک میلے کا سماں ضرور ہوتا ہے ۔ ایک ڈاکٹر کے گرد پر چے لئے سینکڑوں کی تعداد میں مریضوں کا گھیراؤ کیا ہوتا ہے ۔ڈاکٹر بے چارہ بھی کرے تو کیا کرے ۔کتنے مریضوں کو آرام اور تحمل سے دیکھے ۔ یہاں پر بھی واقفیت ، شناسائی کا م آتی ہے ۔سرکاری بینکوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے ۔خصوصاً نیشنل بینک کے تمام برانچوں میں مہینے کی پہلی تاریخ سے لیکر چھ ، سات تاریخ تک جو پنشن یافتہ بزرگ شہریوں کا حال ہوتا ہے ۔وہ بھی قابل رحم ہے ۔ صبح سے قطاریں لگ جاتی ہیں۔نہ پینے کے پانی کا بندوبست ، نہ سائے کی فراہمی ، نہ بیٹھنے کی جگہ، گرمی ، سردی ، بارش میں کھلے آسمان تلے ہمارے بزرگ شہری بہت ہی قلیل رقم کے حصول کیلئے گھنٹوں گھنٹوں انتظار کرتے کرتے تھک جاتے ہیں ۔اگر کسی کا جاننے والا ، عزیز رشتہ دار مل جائے تو یہ سب صعوبتیں ختم نہ انتظار کی گھڑیاں گننی پڑتی ہیں ۔نہ ناموافق موسم کی مشکلات سے نبرد آزما ہوتا پڑتا ہے ۔

پاسپورٹ آفس میں ہروقت ایک جم غفیر نظر آتا ہے ۔ایسا لگتا ہے ۔کہ ہر پاکستانی اس ملک کو چھوڑ کر بھاگنے کے چکر میں موجودہ حالات سے تنگ آکر دیار غیر میں بسنا چاہتا ہے ۔پاسپورٹ کے حصول کیلئے ہر جائز و ناجائز حربے استعمال کرتا ہے ۔کو شش یہ ہوتی ہے ۔ کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے ۔ کہ اپنے دیس کو چھوڑ کر بیرون ممالک بسیرا کرلے ۔اس جم غفیر میں قطار سے نابلد سائل کھڑکی تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے ۔اگر کوئی واقف کار،دوست نکل آیا۔تو اُس کی آسانیاں شروع ہو جاتی ہیں۔کمپیوٹرائزڈ سسٹم کی وجہ سے باری کے بغیر نمبر تو نہیں آتا۔لیکن اتنا ضرور ہوتا ہے ۔کہ واقفیت کی بناء پر قطار سے ہٹ کر مخصوص جگہ پر اُس کو بیٹھایا جا تا ہے ۔اُس کی پانی اور چائے سے خاطر تواضع کی جاتی ہے ۔پاسپورٹ کے حصول میں حائل مشکلات کو دور کرنے کیلئے حکومت کے حالیہ فیصلے پانچ سال کیلئے پاسپورٹ کی تجدید کا پرانا نظام بحال کر کے ایک مثبت قد م ہے ۔اس فیصلے سے نئے پاسپورٹوں کے اجراء کی بجائے موجودہ پاسپورٹوں کو مزید پانچ سال کیلئے تجدید کرایا جا سکے گا۔جس کی وجہ سے پاسپورٹ دفتر پر موجودہ رش میں کمی آئیگی ۔اور پاسپورٹ کے خواہشمند حضرات کو مہینوں کا انتظار کئے بغیر مختصر وقت میں تجدید شدہ پاسپورٹ مل سکے گا۔

حکومت نے حال ہی میں اسمگل شدہ گاڑیوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے ایک پیکج کا اعلان کیا ہے ۔جس کے تحت ڈیوٹی ادا کرکے گاڑیوں کی رجسٹریشن کی جائیگی ۔گاڑی کا رجسٹریشن کرنا،یا گاڑی کے مالک کے نام کی سرکاری کاغذات میں تبدیلی ایک اچھا خاصا مشکل کام ہے ۔رجسٹریشن دفتر میں ہر وقت گاڑی کے مالکان کا ، ٹاؤٹوں کا ، چلتے پھرتے اہلکاروں کا ایک ہجوم جمع رہتا ہے ۔جو ہر آنیوالے کو فائل بنانے کیلئے کہا جاتا ہے ۔فائل بنانے کیلئے دفتر کے باہر نجی دفاتر قائم ہیں ۔جو سرکاری فارم اورٹریژری چالان بیچتے رہتے ہیں۔سب سرکاری اہلکاروں کے ناک کے نیچے یہ غیر قانونی کاروبار جاری ہے ۔فائل بنانا سرکاری عملے اور متعلقہ دفتر کا کا م ہے ۔نہ کہ پرائیویٹ ادارے یا دفتر کے باہر بیٹھے ہوئے منشیوں کا ۔ ہاں یہ کام بہت آسان بھی بن سکتا ہے ۔کہ اگر مقررہ سرکاری فیس کے علاوہ فیس ادا کردی جائے تو یہ مشکل مر حلہ بہت سہل بن سکتا ہے ۔

چند لوگوں میں یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے ۔کہ وہ مصیبت کو اپنی خوش قسمتی میں بد ل دیتے ہیں۔پچھلے سالوں کے دوران سیلاب نے جہاں بہت سے خاندانوں کو تباہ کیا ۔کئی لوگوں کیلئے یہ لاٹری ثابت ہوئی ۔جن لوگوں نے سیلاب دیکھا تھانہیں ۔اُن کے گھر سیلاب سے 15,10 کلومیٹر پہاڑوں پر آباد تھے ۔وہ سیلابی ریلے میں نہیں آئے ۔لیکن سیلابی ریلے کے متاثرین میں شامل رہے ۔اور مختلف قسم کے کارڈز بشمول وطن کارڈزیا دوسرے مراعاتی کارڈز کے مستحق قرار پائے ۔یہاں پر بھی سیاسی وفاداری ، اقرباء پروری نے کام دکھایا ۔

الغرض موجودہ عہد کی سب سے بڑی بیماریاں سفارش ، رشوت ، اقرباء پروری ، سیاسی وفاداریاں معاشرے کو گھن کی طرح کھار رہی ہیں ۔جب تک ان بیماریوں کا علاج نہیں کیا گیا ۔معاشرے کی صحت بہتر نہیں ہو سکتی ۔
Afrasiab Khan
About the Author: Afrasiab Khan Read More Articles by Afrasiab Khan: 24 Articles with 22688 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.