افغانستان میں پاکستان دشمنوں کے ٹھکانے

بھارت 1947ءمیں برصغیر کی تقسیم سے ہی پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے ٬ اسکی پرتشدد کارروائیاں بلوچستان ٬ وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) اور ملک کے دیگر حصوں میں جاری ہیں۔ یہ تمام کارروائیاں بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ RAW سرانجام دیتی ہے جس کا مقصد پاکستان کو اندرونی طور پر اس حد تک کمزور کرنا ہے کہ وہ خطے میں بھارتی بہیمانہ عزائم کی راہ میں رُکاوٹ نہ بن سکے۔ بھارت افغانستان میں قونصل خانوں کے نام پر تیزی سے ”را“ کے مراکز قائم کر رہا ہے ٬انہی مراکز کے ذریعے پاکستان اور افغانستان سے باغیانہ سوچ رکھنے والے بلوچ نوجوانوں کو بھرتی کرکے اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ طالبان اور القاعدہ کیخلاف آپریشن کو بھی اسی طرح منصوبہ بندی سے افغانستان سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منتقل کر دیا گیا ہے تاکہ ملک میں بے یقینی کی فضا پیدا کی جا سکے۔ ان حالات میں پاک افغان سرحد کے دونوں طرف آباد قبائل کی آزادی نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیاہے۔

”را“ بلوچستان میں شدت پسندوں کو بھڑکانے اور انتہا پسندی کو فروغ دینے کیلئے افغان وزارت داخلہ اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی ”خاد“ KHAD جس کا نام نام ”رام“ RAM ہے کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ 1980ءکے وسط میں ”را“ نے کاﺅنٹر انٹیلی جنس ٹیم ایکس (CIT-X) اور کاﺅنٹر انٹیلی جنس ٹیم جے (CIT-J) کے ناموں سے دو خفیہ گروپ بنائے جن کا مقصد پاکستان کے اندر دہشت گردانہ حملے کرناتھا۔

پاکستان کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نیٹو کے کمانڈر سے افغانستان سے پاکستان پر ہونے والے حملے بند کرانے کا کہہ چکے ہیں جبکہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ دیا ہے کہ صوبہ کنڑ اور نورستان میں پاکستانی طالبان کے محفوظ ٹھکانے ہیں جہاں سے انہیں مدد ملتی ہے جبکہ افغانستان سے دراندازی کے بعد پاک فوج نے ذمہ دارانہ جوابی کارروائی کی تھی۔ جہاں تک افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے، امن و سلامتی کو یقینی بنانے اور تعمیر و ترقی کی سرگرمیوں کا تعلق ہے پاکستان کا بھرپور تعاون کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ پاکستان کروڑوں ڈالر کی امداد اور ماہرین کا تعاون فراہم کر چکا ہے لیکن افغانستان کی طرف سے دراندازی رکنے میں نہیں آ رہی اور اس کے خلاف جوابی کارروائی کو افغانستان میں مداخلت کا نام دے کر پاکستان کو بدنام کیا جاتا ہے حالانکہ پوری عالمی برادری پاکستان کے بھرپور تعاون کا اعتراف کرچکی ہے۔ پاکستان جانتا ہے کہ ہمسایہ ممالک میں حکومتی تو آنی جانی ہوتی ہیں لیکن ملک کی سرحدیں نہیں بدل سکتیں۔ وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مشترکہ کوششوں کو ناگزیر قرار دے چکا ہے اور اس نے امریکہ اور افغانستان کے ساتھ ہر سطح پر پر افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا معاملہ بھی اٹھایا ہے۔ اس نے 26 طالبان قیدی افغان امن کونسل کے مطالبے پر رہا کر دیئے تھے۔ اب دونوں ملکوں کا ایک مشترکہ گروپ تشکیل دیا گیا ہے جو مزید قیدیوں کی رہائی کے لئے سفارشات مرتب کرے گا۔ اسلام آباد نے افغانستان میں سوویت یونین کی مسلح مداخلت کے بعد 50 لاکھ افغان شہریوں کو پاکستان میں پناہ دی اور اقوام متحدہ کی امداد کے علاوہ اپنے ذرائع سے ان پر روزانہ ایک کروڑ روپے خرچ کرتا رہا۔ اس وقت بھی 30 لاکھ کے لگ بھگ افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں جن کی اپنے وطن جلد واپسی ضروری ہے کیونکہ پاکستان میں ان پناہ گزینوں کی موجودگی کے باعث کئی سماجی و انتظامی مسائل پیدا ہو رہے ہیں جبکہ ہیروئن کلچر اور کلاشنکوف کلچر کے پھیلاﺅ کے علاوہ یہ عناصر دہشت گردی، تخریب کاری سمیت پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ کابل حکومت کو اپنے شہریوں کی واپسی میں دلچسپی لینی چاہئے اور افغان سرزمین پر ایسے عناصر کی سرپرستی سے گریز کرنا چاہئے جو پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
Raja Majid Javed Ali Bhatti
About the Author: Raja Majid Javed Ali Bhatti Read More Articles by Raja Majid Javed Ali Bhatti: 10 Articles with 6375 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.