لکڑی اور پتھر مافیاز کے ہاتھوں نگری ٹوٹیال کی تباہی

دریائے ہرو کے ساتھ واقع بلند وبالا درختوں میں گھرے رنگین آہنی چھتوں کے گھروں پر مشتمل وادی لورہ کا علاقہ نگری ٹوٹیال موسم گرما کی سرد اور سرمئیشاموںمیں فردوس بریں کا منظر پیش کرتا ہے، چار ہزار فٹ سے زائد بلندی پر واقع اس یونین کونسل کی اپنی ایک منفرد کہانی ہے۔ہندوستان کی تقسیم تک یہ مسلمانوں اور سکھوں کا مشترکہ علاقہ تھا جو بعد میں بھارت چلے گئے۔ ایک ریٹائرڈ سکول ٹیچر اور اس علاقے کی ایک قابل ذکرشخصیت محمد نسیم قمرکا کہنا ہے کہ ہم اس علاقے میںامن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہتے تھے۔ پاکستان کے قیام کے بعد جلد ہی سکھوں نے اس وادی کو چھوڑ دیا.اور دیہی باشندوں نے انہیں محفوظ ہجرت کی سہولیات فراہم کیں۔آزادی سے قبل انگریز یہاں کا دورہ کیا کرتے تھے۔ برطانوی راج کے پہلے الیکشن کے دوران خان بہادر عبدالرحمن خان پہلی بار صوبائی وزیر بنے تھے، انہوں نے 1947 میں شمال مغربی سرحدی صوبہ (موجودہ خیبر پختونخوا)کی رائے شماری کے دوران پاکستان کے ساتھ اتحاد کرنے کے حق میں ووٹ دینے کے لئے ہزارہ کے اکابرین کو قائل کیا۔ بعد میں انہیں پاکستان مسلم لیگ کی ایگزیکٹو کونسل کا رکن بنایا گیا اوروہ قائد آعظم محمد علی جناح کے قریب ترین ساتھیوں شمار ہونے لگیان کے بیٹے سردار عنائت الرحمن عباسی نے بھی خود کو اپنے قومی کارناموں کی بدولت ملک کے مشہور لیڈروں کی صف میں شامل کیا۔

اس علاقے میں ڈھونڈ عباسی قبیلہ کی ٹوٹا شاخ کے نام پر اس علاقے کا نام نگری ٹوٹیال رکھا گیاجو مغرب میں ایبٹ آباداور جنوب مشرق میں مری کے قریب گھوڑا گلی تک پھیلا ہوا ہے،یہاں کافی تعداد میں قریشی، آعواناوربھٹی قبائلبھی آباد ہیں۔

لورہنگریٹوٹیال کاقریب ترین شہر ہے، جہاں جیپ، بسوں، ٹیکسیوں اور ذاتی کار کے ذریعہ جایا جا سکتا ہے۔یہاں پر ایک پولیس سٹیشن، لڑکوں کے کالج، اسپتال اور یونین کونسل کے درجنوں دفاتربھی واقع ہیں۔لورہ میں ایک بس اڈہ بھی ہیجہاں سے ایبٹ آباد اور راولپنڈی تک ٹرانسپورٹ چلتی ہے، تاہم اس منصوبے پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود سڑک ایک مایوس کن تصویرپیش کر رہی ہے، ایسے لگتا ہے کہ ایک پیسہ خرچ نہیں کیا گیابلکہ برباد کیا گیا ،ایبٹ آباد کے معروف صحافی کوثر نقوی کا کہنا ہے کہ اس گرینڈ منصوبہ کے لئے 1986 سے کام جاری ہے،یہاں ہی طبی سہولیات سے محرومصرف ایک بنیادی مرکز صحت بھی ہے جو وادی لورہ سے تقریبا تین کلومیٹر دور واقع ہے اور وہ بھی قابل رحم حالت میں ہے۔یہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے ایک ایک مڈل اور ایک ہائی سکول ہے جہاں زیادہ تر اساتذہ غیر حاظر ہی رہتے ہیں۔ایک اور مقامی صحافی جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ حکام کو ان کی شکایات کی جا رہی ہیں مگر وہ بہرے کانوں کے ساتھگھربیٹھے ان اساتذہ کو ادائیگی کر رہے ہیں۔یہاں ایک پرائمری اسکول 2005 میں آنے والے زلزلے کے دوران منہدم ہو گیا تھا اورسات برس بعد بھی کسی ٹھیکیدار کی طرف سیتعمیر نو کا انتظار کر رہا ہے۔

علاقے میں طاقتور کاروباری طبقہ حسن فطرت کے ساتھ کھیل رہا ہے۔وہ علاقے میں لکڑی مافیاکے تعاون سے اندھا دھند جنگل کاٹ رہا ہے، لکڑی کاٹنے کی دو مشینیں نگری ٹوٹیالبازارمیں نصب کی گئی ہیں جہاں سے قیمتی لکڑی باقاعدہ غیر قانونی طور پر بیرون علاقہ سمگل کی جا رہی ہے۔جاوید اقبال عباسی مزید کہتے ہیں کہ اب پتھر مافیا بھی آ گیا ہے اور دریائے ہرو کے کناروں پر اپنے پلانٹ لگا کر پوری وادی کوآلودگی کے جہنم میں دھکیل رہا ہے جس کی سرگرمیوں سیگھوڑا گلیلورہ روڈ مکمل تباہ ہو گئی ہے۔، اسلام آباد کیایک سماجی کارکن اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ایک طالب علم سردار جواداللہ خان شکایت کرتے ہیں کہ نگری ٹوٹیال کوان مافیاز کی تباہی بچانے کیلئے اہم اقدامات، ایک مکمل یک انتظامی کے منصوبے کے تحت قومی قدرتی وسائل کے تحفظ کی ضرورت ہے،اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستان واقعی اپنے ایک قیمتی خزانہ سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوجائے گا۔
Mohammed Obaidullah Alvi
About the Author: Mohammed Obaidullah Alvi Read More Articles by Mohammed Obaidullah Alvi: 52 Articles with 59257 views I am Pakistani Islamabad based Journalist, Historian, Theologists and Anthropologist... View More