سری لنکا کے ٹامل اور ہماری خارجہ پالیسی

ملک کی داخلی صورت حال جس قدر بدحالی اور ابتری کا شکار ہے وہ کیا کم فکر و تشویش کا باعث ہے کہ اب ملک کی خارجہ پالیسی بھی اب مسائل اور عجیب و غریب پیچیدگیوں کا شکار نظر آتی ہے جس کی وجہ سے حکومت ہند نہ صرف فوری طور پر شدید اعتراضات کا نشانہ بن سکتی ہے بلکہ اس کے اثرات آئندہ بھی برقار رہ سکتے ہیں۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ممالک اس قدر مختلف النوع بلکہ متضاد حالات اور مسائل کا شکار ہیں کہ ہر ملک کے ساتھ یکساں معیارات پر مبنی حکمت عملی اختیار کرنا ناممکن نظر آتا ہے اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ خود ہم کچھ ایسی کمزوریوں کا شکار ہیں بلکہ رہے ہیں کہ ہماری یہ غلطیاں اور کمزوریاں ہی ہماری راہ کی مشکلات بن گئی ہیں۔ ہماری اس کمزوری کی وجہ یہ ہے کہ خارجی امور کے تعلق سے فیصلے ہم بروقت نہیں کرتے ہیں۔ ہم نہ صرف بیرونی بلکہ اندرونی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی پر ہمیشہ نہ سہی اکثر امریکہ (امریکہ کے ساتھ اسرائیل) سنگھ پریوار اور شیوسینا جیسی تنظیموں کا دباؤ کام کرتا ہے۔

ہمارے پڑوسیوں میں پاکستان سے تنازعات قیام پاکستان کے وقت سے چلے آرہے ہیں۔ چین کے ساتھ ہمارے تنازعات بھی تقریباً نصف صدی پر محیط ہیں۔ چین و پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا سے بھی تلخی و ترشی کا شکار رہے ہیں۔

ہندوستان کی کارجہ پالیسی کے لئے فی الحال سری لنکا نے مسائل کھڑے کررکھے ہیں۔ ٹاملوں کی بغاوت کچلنے کے لئے سری لنکا کی حکومت اور افواج کے بعض اقدامات اعتراضات کا سبب رہے ہیں۔ سری لنکا کی افواج پر جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزامات ہیں۔ سری لنکا کی برسراقتدار اور حزب اختلاف کی جماعتیں یعنی جیہ للیتا اور کروناندھی کی پارٹیاں سری لنکا کے خلاف سخت اقدامات کا مطالبہ کررہی ہیں۔ آئی پی ایل لیگ کرکٹ میں سری لنکائی کھلاڑی چینی ٔ میں کھیل نہیں سکیں گے۔ دونوں ہی ڈی ایم کے جماعتیں انتہا پسندی کی انتہا کرتے ہوئے سری لنکا سے دوستانہ تعلقات نہ رکھنے اور سری لنکا میں ٹامل بولنے والے علاقوں میں استصواب عامہ کا تک مطالبہ کررہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سری لنکا کے ٹاملوں کی تائید کے سلسلے میں دونوں جماعتوں میں مقابلہ آرائی ہورہی ہے۔ ٹاملوں کی اس انتہا پسندی اور شدت پسندی میں سنگھ پریوار، (خاص طور پر بجرنگ دل اور وشواہندوپریشد، اکھیل بھارتی وشواہندوپریشد) اور شیوسینا کی دادا گیری اور غنڈہ گردی کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ ان جماعتوں نے مختلف مواقع پر مختلف شہروں میں حکومتوں کی کمزوری سے جی کھول کر فائدہ اٹھایا۔ اس سلسلے میں ممبئی میں (خاص طور پر اور سارے مہاراشٹرا میں عام طور پر پہلے شیوسینا اور اب شیوسینا اور راج ٹھاکرے کی سینا) کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ یہ لوگ جب چاہیں اور جو چاہیں کرسکتے ہیں(اور کیا بھی ہے) غیر مہاراشٹرائی، غیر مرہٹی داں، بہاریوں، پاکستانی ٹیموں، کھلاڑیوں اور فن کاروں کے ساتھ ان کی ناشائستہ حرکتوں کا بھلا کیا جواز تھا۔ جواب ڈی ایم کے والوں کا سری لنکا کے کھلاڑیوں کو دئے گئے الٹی میٹم کا جواز پوچھا جاسکے۔ اب چاہے اس کا ہماری خارجہ پالیسی پر جو بھی اثر پڑے۔

جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ ٹامل ٹائیگرس کی بغاوت کچلنے کے دوران اور اس کے بعد سری لنکا کی افواج نہ ٹاملوں پر انسانیت سوز مظالم کئے ہیں اور حقوق انسانی کی بری طرح پامالی کی ہے۔ سری لنکا کے خلاف اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی کونسل (UNHRC) سرگرم عمل ہے لیکن یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ وہ تمام ممالک (بہ شمول امریکہ اور ہندوستان) بھی حقوق انسانی کی پامالی کے مجرم ہیں خاص طور پر امریکہ تو سب سے بڑا مجرم ہے۔ ہندوستانی افواج پر نہ صرف کشمیر میں بلکہ شمال مشرقی ریاستوں میں بھی اس قسم کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ فوج کے دئے گئے خصوصی اختیارات کا بھی ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا رہا ہے۔ ہندوستانی افواج کے بعض اعلیٰ افسران ہندوتوا دی طرز فکر سے کس قدر متاثرہیں اس کا اندازہ انگریزی و ہندی چینلس کے مباحثوں میں شریک ہونے والے بعض جرنل (سابق) صاحبان کے خیالات سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ اب اگر ہم بیرونی یا ڈی ایم کے دباؤ میں سری لنکا میں انسانی حقوق کی دہائی دیتے ہیں یا سری لنکا میں ٹاملوں کی حفاظت وصیانت کے تعلق سے فکر مندی کااظہار کرتے ہیں تو ہم پر چند اعتراضات فوری طور پر کئے جائیں۔

(۱) سری لنکا میں ہندوستان کی مداخلت اور دلچسپی کو مثال بناتے ہوئے (خواہ بات ہی کتنی ہی مختلف کیوں نہ ہو اور سری لنکا و کشمیر کے مسائل اور حالات کتنے ہی الگ کیوں نہ ہوں) اسے کشمیر کے مسئلہ میں لازماً استعمال کرے گا اور ہمارا موقف کمزور نظر آئے گا۔
(۲) سری لنکا میں بدھ مت کے ماننے والوں کی جانب سے مسلمانوں سے زیادتی، مظالم اور حقوق انانی کی پامالی کی خبریں آتی رہی ہیں اگر اس سلسلے میں حکومت ہند خاموش رہتی ہے تو حکومت پر لسانی تعصب اور مذہبی تفریق کا الزام لگ سکتا ہے۔
(۳) بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت نے جماعت اسلامی اور پاکستان کو متحد رکھنے کے حامیوں کے خلاف غیر انسانی مظالم کا جو بازار گرم کررکھا ہے اس پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔
(۴) میانمار حکومت، افواج اور بدھسٹ مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں۔ اس پر حکومت کی بے حسی پر تو شدید اعتراضات کئے جارہے ہیں اب اگر ٹاملناڈو والوں کی خوشی کی خاطر کسی قسم کی سفارتی کارروائیاں کرتی ہے تو اور میانمار میں خاموشی اختیار کئے رہتی ہے تو اس خیال کو بڑی تقویت ملے گی کہ ٹاملوں سے کئی گناہ زیادہ آبادی کے جذبات کو نظر انداز کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے جذبات کو نظر انداز کیا جارہا ہے! صاف ظاہر ہے کہ حکومت پر نرم ہندوتوا وادیوں کا خاصہ اثر ہے۔

ٹاملوں کی خاصی بڑی کڑی آبادیاں سری لنکا کے علاوہ ملیشیاء، سنگاپور اور مشرق بعید میں بھی ہیں سری لنکا کے ٹاملوں کی تائید سے ان کو بھی ترغیب ہوگی اور مختلف علاقوں میں نراج پھیل سکتا ہے۔

سری لنکا میں ٹاملوں کی آزادی کی تحریک سے ہندوستان میں رہنے والے ٹامل بھی متاثر ہوسکتے ہیں اور ملک کی سا لمیت خطرے میں پڑسکتی ہے۔

ٹاملناڈو اسمبلی کی ایک قرار داد میں یہاں تک مطالبہ کیا گیا تھا کہ سری لنکا کو دوست ملک نہ سمجھا جائے اور سری لنکا کے ٹامل بولنے والے علاقوں میں استصواب عامہ کروایا جائے۔ خدا کا شکر کہ حکومت ہند نے یہ قرار داد فوراً مسترد کردی لیکن اس قسم کی باتیں نہ صرف کشمیر میں بلکہ ملک کے کئی علاقوں اور خود ٹاملناڈومیں استصواب کے مطالبے کئے جاسکتے ہیں جو ملک کی سا لمیت کے لئے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

حکومت ہندانتہا پسند اور شدت پسند عناصر کے خلاف کمزوری کا مظاہرہ کرکے اس قسم کی ذہنیت رکھنے والوں اور حکمت عملی اختیار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 167633 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.