واہ سیاست واہ

پاکستانی سیاست کا معاملہ شاید سب سے جدا ہے، ہر وقت سیاسی انگارے پوری حدت و شدت سے دہکتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف طعن وتشنیع کی گولہ باری بھی جاری رہتی ہے۔ صحرائے سیاست کی تمازت میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ دوسروں کی برائیاں تو واضح نظر آتی ہیں بلکہ دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں جبکہ اپنے کرتوتوں پہ سدا دھند ہی چھائی رہتی ہے، دوسروں کی آنکھ کا تنکا بھی نظر آجاتا ہے، اپنی آنکھ کا شہتیر بھی کسی کو سدھائی نہیں دیتا۔ حالانکہ سب ایک ہی ترکش کے تیر اور ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔منافقت کی کوکھ سے جنم لینے والے اس طاغوتی نظام کے سب جمہورے جوتے کے تلے کی مثل ایک سے ہیں۔

جی ہاں! اس طاغوتی نظام سیاست کے سب سیارچے ایک سے ہیں۔ان میں رتی بھر فرق ہو تو ہو ، ورنہ ان سب کا محور اقتدار اور مفادات کا حصول ہے۔ کچھ سیارچے (سیاستدان) اقتدار کے گرد طواف پورا کرلیتے ہیں اور کچھ ساری زندگی بھرپور تگ ودو کے باوجود طواف پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ بہر حال تمام سیاستدان ایک ہی ”جنس“ ہےں۔ بس نعرہ ہر ایک جدا لگاتا ہے۔ آج تو سیاست نام ہی منافقت کا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ عرب ادیب مصطفیٰ لطفی منفلوطی نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے: ”سیاست دان اور جلاد میں کوئی فرق نہیں، جلاد تو چند افراد کو قتل کرتا ہے مگر سیاستدان ساری قوم کی جانوں کا سودا کرتا ہے، جو جتنا بڑا جھوٹا وہ اتنا بڑا سیاستدان۔ جس سیاستدان کی تاریخ کا ایک ایک صفحہ معصوموں کی لاشوں اور ایک ایک لفظ بے گناہوں کے خون سے لکھا ہو وہ سب سے کامیاب ہے۔“بالکل بجافرمایا !جو جتنا بڑا جھوٹا وہ اتنا بڑا سیاستدان،بلکہ جو علاقے کا سب سے کرپٹ شخص ہو اس نظام میں کامیابی بھی اسی کو ملتی ہے۔اس طاغوتی نظام کے متوالے بھی کامیاب اسی کو کرواتے ہیں جو سب سے زیادہ ان کا خون چوسے، ان کی زندگی دوبھر کردے اسی کو کامیاب کروانا عوام ضروری سمجھتے ہیں۔کسی شریف اور غریب کا اس نظام میں کامیاب ہونے کا تصور کرنا بھی محال ہے۔غریب کا کام ہی کیا اس نظام میںجائے گھر اور اپنے چولہے کی فکر کرے۔

سیاست کا سینہ تو دل سے خالی ہوتا ہی ہے جبکہ خرد کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ البتہ غریب عوام کو بے وقوف بنانے میں سیاستدان سے زیادہ شاطراور چالباز دنیا میں شاید ہی کوئی ہو، ہر آنے والا سیاستدان ایک نیا ہی تماشا سجاتا ہے اور اپنی پٹاری سے کچھ نہ کچھ نکال کر عوام کو بے وقوف بناتا ہے۔ بے چارے سادہ لوح عوام ان کی شعبدہ بازی سے متاثر ہوجاتے ہیں، اسی لیے تو خوار ہوتے ہیں۔ جبکہ ان سیاستدانوں کا مقصد تو اپنے مفادات سمیٹنا ہوتا ہے۔ وہ خود تو سب سیاست کی میز پر اقتدار اورملکی مال و دولت کی بوتل سے عیش وعشرت کی مئے جام بھر بھر کر پی رہے ہوتے ہیں جبکہ عوام کو سکون کا ایک گھونٹ بھی میسر نہیں آتا اور جب انتخابات قریب آتے ہیں بس پھر نہ پوچھو.... جیسے دنیا میں ان سے بڑا عوام کا کوئی خیر خواہ ہے ہی نہیں۔ لمبے چوڑے دعوے، وعدے، جلسے، جلوس اور نہ جانے کیا کیا؟ سیاست کے نام پر ہر دغا رواہے۔

ان دنوں صحرائے سیاست میں زبردست سیاسی آندھی چل رہی ہے۔ ایک ہلچل مچی ہوئی ہے۔ ہر طرف انتخابات کی تیاری ہورہی ہے اور اسی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ سیاسی پہلوان سیاسی اکھاڑے میں سیاسی دھینگا مشتی کے لیے اپنی کمریں کس رہے ہیں۔ایک دوسرے سے بڑے جلسے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ عوام پر اپنی سیاسی قوت کی دھاک بٹھا کر عوام سے کسی طرح ووٹ اینٹھیں جا سکیں۔ پیسے کا جتنا بے دریغ استعمال یہ سیاستدان اپنے جلسوں پر کرتے ہیں، اس پیسے سے نجانے کتنے غریبوں کے چولہے جل سکتے ہیں اور کتنی قوم کی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے ہوسکتے ہیں۔ غریب جائے بھاڑ میں ان کو کسی غریب کے مصائب سے کیا لینا، ان کو تو کسی طرح زیادہ سے زیادہ ووٹ ہتھیانےہوتے ہیں۔ ہر جماعت صرف اپنے بارے میں دنیا کی سب سے سچی اور عوام کی ہمدرد جماعت ثابت کرنے کی جھوٹی کوشش کرتی ہے۔ تحریک انصاف ہو یا نون لیگ، پی پی ہو یا ق لیگ، ایم کیو ایم ہو یا پھر اے این پی ان کے علاوہ بھی تمام سیاسی جماعتیں لمبے لمبے دعوے کررہی ہیں۔ اس طاغوتی اور امیروں کے غلام نظام کے تمام رکھوالے اپنے مفادات کی خاطر جھوٹ بولنے کے تمام ریکارڈ توڑ رہے ہیں،نعرے سب لگاتے ہیں لیکن سب جھوٹے۔

بات سب غریبوں کی کرتے ہیں ،یہ سیاستدان ہی بتائیں آج تک غریبوں کو کیا دیا ہے؟دکھ، تکلیف، مہنگائی، بے روزگاری ،بدامنی اورموت کے ہر قسم کے سامان کے سوا غریب کو دیا کیا ہے؟ پارٹیوں کے لیڈر بھی بڑھ چڑھ کر غریب کے حقوق کی رٹ لگاتے ہیں۔غریبوں کی بات کرنے والی جماعتوں نے غریبوں کو کتنے ٹکٹ دیے اور کتنے غریبوں کو کامیاب کروایا؟۔بتائیں کسی بھی جماعت نے کسی غریب کوصرف جھوٹے دلاسے اور لارے لپوں کے سوا کچھ دیا؟۔ غریب کا اس نظام میں کیا کام؟ یہاں تو وہ آئے جس کے پاس پیسا ہو، وہ بھی بے تحاشہ۔اس نظام میں کامیابی صرف اس کے لیے جو زیادہ پیسے لٹادے اور بعد میں قوم کا پیسا لوٹ کر خرچ شدہ سے کئی گنا جمع بھی کرلے۔ غریب انسان تو محنت مزدوری کر کے اپنے گھر کی دال روٹی پوری کرے بس۔ انتخابات ہونے کے بعد تویہ جھوٹے جمہورے کہیں نظر بھی نہیں آتے، غریب انسان تو ان کے دفتر میں گھس نہیںسکتا، ان کے بے شماراسلحہ بردار غریب کو گھسنے ہی کہاں دیتے ہیں؟ غریب آدمی تونوکری کے حصول کے لیے اپنی ڈگریاں اٹھائے ان کے دفتروں کے چکر کاٹتے کاٹتے چکرا کر بے حال ہوجاتا ہے ، لیکن ان بے شرموں کو کچھ شرم نہیں آتی۔جس کے پاس پیسے یا بڑی سفارش کام بھی اسی کا ہوتا ہے،چاہے جتنی بھی ڈگریاں اٹھائے پھرے۔اس نظام کے رکھوالے خود جعلی ڈگریوں سے الیکشن لڑتے ہیں جبکہ اصل ڈگریوں والے رلتے پھرتے ہیں۔قوم کے یہ مجرم منافقت کا نعرہ لگاتے ہیں کہ ہم غریبوں کے لیے کام کررہے ہیں، انہوں اگر غریبوں پر کچھ خرچ بھی کردیا تو کیا ہوا، ملک کا مال تھا خرچ کرنا ذمہ داری تھی اور جو اس میں سے بھی کھربوں لوٹ کر اپنے بینک بھرے، ان کھربوں کا قوم کو کوئی حساب نہیں دیتا۔ سیاستدان لوگ اگر غریب کے لیے کچھ کرتے بھی ہیں تو صرف اس لیے کہ اس سے ہمارا ووٹ بینک محفوظ ہوگا، ورنہ ان کو کسی غریب کی کیا پڑی؟سب ہی ایسے۔

سنیے اس طاغوتی نظام کے ذریعے اسلام لانے کی باتیں کرنا بھی خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہے، اس نظام سے اسلام لانا تو دور کی بات ہے، یہ نظام تو امریکا میں ایک مزدور کو انصاف نہیں دے سکتا!۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کے ہم مسلمانوں میں اتنی ہمّت نہیں کے یہ کہہ سکےں کہ ہمیں یہنظام منظور نہیں۔ ہم اتنی ہمّت بھی نہیں رکھتے کے اس نظام سے الگ رہےں، کیا اس نظام سے پہلے دنیا نہیں چل رہی تھی؟ کیا انسان حکومت نہیں چلاتے تھے؟ کیا اب دنیا زیادہ خوبصورت ہوگئی؟ یقین جانیے اس نظام سے پہلے یہ دنیا زیادہ خوبصورت تھی۔ ساری سیاست ہی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکی ہے بلکہ مفادات کی چکی میں پس کر گرینڈ ہوچکی ہے۔ اپنے مفادات کی خاطرنئے نئے ڈرامے کیے جاتے ہیں۔ پاکستان کے عوام کو ہر کوئی استعمال کرتا ہے۔ کوئی تبدیلی کا نعرہ لگاتا ہے اور کوئی غریبوں کے حقوق کا نعرہ لگاتا ہے،کوئی اسلام کے نفاذ کا نعرہ لگاتا ہے اور کوئی خوشحال پاکستان کا نعرہ لگاتا ہے۔پاکستانی عوام کو استعمال کرنے والے بدلتے رہتے ہیں لیکن استعمال ہونے والے نہیں بدلتے۔ بس اسی کو طاغوتی سیاست کہتے ہیں۔

تحریک انصاف جس نے دہائی مچائی ہوئی ہے کہ ہم بدلیں گے پاکستان۔خدا کے لیے جو بدل چکا وہی کافی ہے، مزید بدلنے کی ضرورت نہیں، اپنے آپ کو کوئی نہیں بدلتا بس ہر کوئی اپنی مرضی سے بے چارے پاکستان کو بدلنے پہ لگا ہوا ہے ، ستیا ناس کردیا سب نے مل کر پیارے پاکستان کا۔ یہی جماعت بتائے کہ کیا کیا غریب کے لیے اور کیا کیا پاکستان کے لیے؟ کتنے غریبوں کو ٹکٹ دیے ہیں؟ یونیورسٹی اور ہسپتال تو کیا بنادیا ، اب سیاست کے مینار بھی اسی پر کھڑے کیے جارہے ہیں،بھئی بنادیا تو کیا ہوا قوم کی خدمت کرنی ہے تو اسے گانے کا کیا فائدہ، اسی لیے تو کہتا ہوں یہ سیاستدان اگر کچھ کام کر بھی لیں تو صرف اپنا ووٹ بڑھانے کے لیے۔نعرے تو بہت لگاتے ہیں یہ بتائیں کہ کتنے مزدوروں کو پارٹی ٹکٹ دیے ہیں؟غریب کے لیے کام تو اسے کہیں گے غریب کو جماعت میں مرکزی حثیت دی جائے، جب سڑک پر مزدوری کرنے والے غریب انسان کو پارٹی ٹکٹ دے اور اس کو جتوائے بھی، غریب کے لیے تو اس طرح ہو گا کام۔ یہاں بھی وہی طاقت میں جن کے پاس جتنا زیادہ پیسا ہے۔پارٹی الیکشن میں وہی آگے آئے جن کے پاس طاقت تھی،برسوں سے کام کرنے والے میاں محمودالرشید جیسے نظریاتی انسان کے مقابلے میں پیسا اور اسلحہ جیت گیا اور اس بے چارے کو استعمال شدہ ٹشو کی طرح اٹھا کر پھینک دیا گیا،کیا یہی کچھ نہیں ہوتا اس طاغوتی نظام میں؟ تف ہے ایسے نظام پہ۔ جس میں بڑا ظالم آگے آجائے اور شریف کے لیے کوئی جگہ نہیں،سب پارٹیوں کا ایک ہی اصول ہے، چاہے دنیا کا سب سے بڑا ڈاکو ہو بس جس کی پارٹی میں شامل ہوگیا ان کی آنکھ کا تارا۔ان پارٹیوں کے کارکنان اپنے لیڈر کو بس خدا اور نبی کا درجہ نہیں دیتے ، ان کے علاوہ جو بس چلتا ہے درجہ دیتے ہیں، بڑے بڑے القابات سے تو یوں نوازتے ہیں جیسے بس قوم کو یہی مسیحا مل گیا، اس کے بغیر قوم تباہ ہوجائے گی۔

ایک دوسرے کو دنیا کا سب سے بڑا مجرم کہنے والے جب ان کی پارٹی میں شامل ہوجائیں توسب گناہ معاف۔شیخ وقاص جیسے جعلی ڈگری والے اور نون لیگ کل تک تو ایک دوسرے کو دنیا کا سب سے بڑا قصور وار کہتے رہے جب ضرورت پڑی سب ہنسی خوشی ایک ہوگئے۔ شاہ محمود قریشی، اعظم سواتی، جہانگیر ترین اور خورشید محمودقصوری جیسے لوگ جب دوسری پارٹیوں میں تھے اس وقت تو ان کو دنیا کا سب سے بڑا کرپٹ کہا جاتا رہا لیکن جب تحریک انصاف کی گنگا میں نہا لیے تو ہر گناہ سے پاک ہوگئے۔جن کے خلاف ایکشن لینا تھا ان سے مشورے ہونے لگے،جنہیں نظام سے نکالنا تھا، انہیں سینے سے لگا لیا،جنہیں نیچے گرانا تھا انہیں سر پر بٹھا لیا۔اب کپتان کیا خاک تبدیلی لائے گا ، تبدیلی تو وہ لائیں گے جن کو کپتان نے اپنے ساتھ ملایا ہے اور جنہوں نے تبدیلی لا لا کر آج ملک کا ستیاناس کردیا ہے۔کہتے ہیںنیا ہے اسی کو آزما کے دیکھ لو! یہ کوئی جوا تھوڑی ہے کہ یہ پتا بھی آزما لو، جب سے پاکستان بنا اسی نظام کو تو آزما رہے ہیں اور یہی سیاستدان ہیں،جو ہر بار ملک کو کنگال کرنے آجاتے ہیں۔کل تک تو کپتان ڈرون حملوں پر واویلا کرتا تھا،ڈاکٹر عافیہ کی بات کرتا تھا،الطاف حسین کے خلاف مقدمے چلاکر کراچی والوں کے خون کا حساب لینے چلا تھا،لیکن جب دیکھا سیاستدانوں کے خلاف کھل کر بولنے سے داد ملتی ہے تو قومی مسائل ہوا میں اڑ گئے اور کسی کومنافق، کسی کو ڈاکو اور کسی کو چور جیسے القابات دینے سے خوب شہرت حاصل کرلی۔کراچی جل گیا اس کو کوئی سہارا نہیںدیتا ، سب دیکھتے ہیں کہ سیاست کہاں چمکے گی۔ ہر تحریک کو نوجوان ہی کامیاب کرواتے ہیں،کپتان کو نوجوان وافر مقدار میں مل گئے کیونکہ نوجوانوں کو تو کسی نئے کی ہی تلاش ہوتی ہے۔نوجوانوں کو نیا مل گیا اور کپتان کو نوجوان مل گئے ۔کپتان نے بھی انقلابیوں کو دریاں جھاڑنے اور دوسروں کے خلاف نعرے لگانے پر لگادیا۔ نوجوانوں کو ناچ گانے کی لت ڈال دی حالانکہ نوجوانوں کی اکثریت تو پہلے ہی گانے بجانے کی رسیا ہوتی ہے،ان کو تو اپنے کام کا بندہ مل گیا، مل جل کر ناچ گانا کریں گے۔بات صرف کپتان کی نہیں اس نظام کا ہر پرزہ ہی مفادات کے بھنور میں چکر کاٹ رہا ہے۔تف ہے ایسی مفاد پرست سیاست پر۔ یہی نظام ہے جس میں قاتل لیگ کہنے والی پی پی ضرورت پڑنے پر اسی قاتل لیگ کو اپنے ساتھ بٹھا کر پانچ سال گزاردیتی ہے،اسی نظام میں ایک دوسرے پر اپنے سینکڑوں کارکنوں کے قتل کا الزام لگانے والے ایم کیو ایم اور اے این پی پانچ سال اکھٹے گزاردیتے ہیں ،مولانا کے بارے میں تو بس اتنا ہی کہوں گا کہ وہ اس نظام کے اصولوں پر سو فیصد عمل کرتے ہوئے ہر چیز جائز بلکہ مستحسن سمجھتے ہیں، اس نظام میں تو کوئی چیز بھی حرف آخر نہیں، ضرورت پڑنے پر تو کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔

پرویز مشرف کو آج تک سب ہی غدار اور آمر کہتے رہے، سب اس کی عدم موجودگی میں اس کے خلاف مقدموں کے دعوے کر کے سیاست چمکاتے رہے۔سب کہتے رہے کہ اس ڈکٹیٹر نے پاکستان کے تمام ادارے تباہ کردیے، ملک کی خود مختاری بیچ ڈالی اور ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مغربی ممالک کا زرخرید غلام بنا دیا۔ عدلیہ پر شب خون مارا اور دستور کی خلاف ورزی کی، نواب اکبر بگٹی اور لال مسجد کے معصوم بچوں کا قتل عام کیا اس پر مقدمہ ضرور چلنا چاہے لیکن جب وہ آگیا سب نے چپ سادھ لی، منہ کو گوند لگالی، منہ سی لیے سب نے۔ ڈرون حملوں پر سیاست کرنے والے عمران خان بھی خاموش،مشرف کو بی بی کا قاتل کہنے والی پی پی والوں کے منہ کو بھی گوند لگ گئی، بغاوت کے مقدمے کا ڈھنڈورا پیٹنے والے شریف برادران کو بھی اس نظام نے مصلحت کی چادر اڑھادی ہے۔ کیا وہ صرف اکیلا ہی غدار ہے یایہ سب اس غداری میں شریک ہیں؟مشرف کے ساتھی انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر کے مسکراتے پھر رہے ہیں۔کیا سب بڑی سیاسی جماعتیں بھی اس کے جرم میں ملوث نہیں ہیں؟۔ سپریم کورٹ نے مشرف کو آئین شکن قرار دیا لیکن سیاسی قیادت نے بیرونی طاقتوں کے دباو ¿ پر آئین کی دفعہ 6کے تحت مشرف کا ٹرائل نہیں کیا۔ پھر انہیں طاقتوں کے دباؤ پر مشرف کے بارے میں پراسرار خاموشی اختیار کر لی، اب مشرف کے ساتھیوں کو ٹکٹ بھی دیے جا رہے ہیں۔ مشرف دور میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے سب سے بڑے وکیل، ڈرون حملوں کے بارے میں مشرف کے دائیں بازو اور قوم کی بیٹی عافیہ کے سودے باز خورشید محمود قصوری تحریک انصاف کا لیبل لگا کر پوری قوم کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ مشرف کے منہ بولے بھائی امیر مقام، شمالی علاقہ جات اور چترال میں مشرف کی تصویریں بانٹنے والی ماروی میمن، مشرف کی پالیسیوں کا دفاع کرنے والے طارق عظیم اور لیاقت جتوئی مسلم لیگ (ن) میں شامل ہو کر اس نظام کی بدنمائی کا واضح ثبوت دے رہے ہیں۔ حنا ربانی کھر اور حفیظ شیخ تو بہت پہلے پیپلز پارٹی میں آ گئے تھے اور محمد علی درانی کو فنکشنل لیگ میں پناہ مل گئی۔کیایہ سب اور ان کو شامل کرنے والے بھی قوم مجرم نہیں ہیں؟۔ سیاسی قیادت اپنی مصلحتوں اور منافقت کی وجہ سے ایک آئین شکن ڈکٹیٹر کا احتساب کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔ پرویز مشرف کے ساتھیوںکو ملانے کی وجہ سے مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی نظریں جھکی جھکی ہوئی ہیں۔ اگر اس فعل پر ان کی نظریں نہیں جھکی ہوئیں تو یہ بے شرمی ہے۔

اس ملک کے مال و دولت کو اپنی تجوریوں میں بھر بھر کر ہمیشہ کے لیے اپنے خزانوں کو سیل کرنے والے سب ملک و ملت کے غدار ہیں، کھربوں کی کرپشن کرنے والے بھی غدار ہیں،میرے پیارے ملک کو غیروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے والے بھی غدار ہیں،میرے ملک کو نقصان پہنچانے والے بھی غدار ہیں، میرے ملک کے غریب عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین کر اپنے بینک بیلنس میں اضافہ کرنے والے سب غدار ہیں۔ میرے ملک کے عوام سے جھوٹے وعدے کرنے والے بھی غدار ہیں،قوم کو بے وقوف بنانے والے سب لوگ ہی باغی ہیں، اس ملک کے اور اس ملک کو بناتے وقت لاکھوں جانوں کے نذرانے دینے والوں کے باغی ہیں ۔ملک کے آئین کے باغی، پاکستانی قوم کے باغی ہیں۔

میں باغی ہوں.... اس دور کے رسموں رواجوں سے....ان تختوں سے ان تاجوں سے.... جو ظلم کی کوکھ سے جنتے ہیں.... انسانی خون سے پلتے ہیں....جو نفرت کی بنیادیں ہیں....اور خونی کھیت کی کھادیں ہیں.... میں باغی ہوں.... وہ جن کی ہونٹ کی جنبش سے....وہ جن کی آنکھوں کی لرزش سے....قانوں بدلتے رہتے ہیں.... اور مجرم پلتے رہتے ہیں....ان چوروں کے سرداروں سے.... انصاف کے جھوٹے پہرے داروں سے.... میں باغی ہوں....جو عورت کو نچواتے ہیں....بازار کی جنس بناتے ہیں.... پھر اس کی عظمت کے غم میں.... تحریکیں بھی چلواتے ہیں.... ان ظا لم اور بد کاروں سے....بازار کے ان معماروں سے....میں باغی ہوں .... جو قوم کے غم میں روتے ہیں.... وہ قوم کی دولت ڈھوتے ہیں.... وہ محلوں میں رہتے ہیں....اور بات غریبوں کی کہتے ہیں....ان دھوکے باز لیٹرروں سے.... سرداروں اور وڈیروں سے.... میں باغی ہوں.... جہاں سانسوں پر تعزیریں ہیں.... جہاں بگڑی ہوئیں تقدیریں ہیں.... ذاتوں کے کورکھ دھندے ہیں.... جہاں نفرت کے یہ پھندے ہیں.... سوچوں کی ایسی پستی ہے....اس ظلم کی گندی بستی سے.... میں باغی ہوں.... میں مرنے سے کب ڈرتا ہوں.... میں موت کی خاطر زندہ ہوں.... میرے خون کا سورج چمکے گا.... تو بچہ بچہ بولے گا.... میں با غی ہوں میں باغی ہوں....جو چاہو مجھ پر ظلم کرو۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 637059 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.