نظریہ پاکستان؍اُمید آشنا

پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر حملے ہو رہے ہیں کہیں پاکستان کا مطلب کیا کے موضوع قائم کر کے لوگوں کے ذہن سے قربانیوں کے سمندر جو پاکستان بناتے وقت مسلمانان ِبرصغیر کی طرف سے پیش گئیں تھیں کو نکالا جا رہا ہے ․․․ کہیں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس ملک کو سیکولر بناناتھا خامخوا ہ اس پر اسلام کا لیبل لگایا جا رہا ہے․․․ یہ کام کچھ مذہب بیزار دانشور حضرات اور کچھ امریکی فنڈڈ پرنٹ؍ الیکٹرنک میڈیا کے مالکان اور اس کے تنخوادار اینکر پرسن انجام دے رہے ہیں۔ خاص کر ملک کا ایک بڑا پرنٹ ؍ الیکٹرنک میڈیا اس کام میں بہت آگے نکل چکا ہے ․․․ کیا پاکستان کی تحریک کے دوران صرف سرحدوں کی تبدیلی کے لیے اورپرانا سیکولر اسٹیٹ کو جاری رکھ کر پاکستان کی مانگ کی جا رہی تھی یا ایک نظریاتی ملک بنانے کے لیے مسلمانان ہند نے لاکھوں جانوں،املاک،عظمتوں،اپنے گلی کوچوں جن میں ان کی نسلیں پروان چڑی تھیں ،اپنے آباو اجداد کی قبروں جو صدیوں سے قائم تھیں کا خوشی سے نظرانہ پیش کیا تھا۔ بلکہ تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق ہندوستان کے جن صوبوں میں پاکستان نہیں بن رہا تھا ان صوبوں کے مسلمانوں کا پاکستان کی جد وجہد میں شامل ہونے کا کیا مقصد تھا؟․․․ ایک ہی مقصد تھا جو قائد اعظم ؒ کی زبانی اس طرح ہے’’ اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا(مقصد حیات)اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل جمہوری نوعیت کا ہو گا ان اصولوں کا اطلاق ہماری زندگی پر اس طرح ہو گا جس طرح تیرہ سو سال قبل ہوا تھا‘‘( ۲۶ مارچ ۱۹۴۸؁ء چٹاگانگ) جن متحدہ ہندوستان کے نظریہ اور اس کے ماننے والوں کو قائد اعظم ؒ نے دلیل کے زور اور جمہوری طور پر شکست دے کر نظریہ پاکستان کے تحت پاکستان حاصل کیا تھا اب ان کو ہیرو بنا کر قوم کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ جس ملک نے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا، جس سے پاکستان کو محفوظ رکھنے کے لیے جنگیں لڑی گئیں ،جس نے قائد ؒ کے پاکستان کو اپنے مقامی ایجنٹوں کی مدد سے دو لخت کیا اور دنیا کے نقشے پر بنگلہ دیش بنا دیا اس کو پسندیدہ ملک قرار دیا جا رہا ہے وہ ملک ابھی تک اپنی عوام کو اکھنڈ بھارت کا یہ سبق پڑھا رہا ہے کہ تقسیم کا عمل غلط تھا ہم دوبارہ مل جائیں گے اس نے اس کام کے لیے پاکستان میں اپنے نئے ایجنڈ بنا لیے ہیں جنہوں نے بھارت میں تقریر کر کے کہا تھا تقسیم ایک بڑا لمیہ ہے جو آئے دن ایسی ہی دل آزُردہ باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ایک قوم پرست پارٹی جوپاکستان کے ایک صوبے میں مفاہمتی پالیسی کے تحت حکمران بھی تھی کے سینئر ممبر نے کہا تھا تھا کہ بھارت بنگلہ دیش اور پاکستان کی کنفڈریشن ہونی چاہیے۔حکمران پارٹی کے ثقافتی ونگ کے سربراہ کہتے ہیں پاکستان اور بھار ت کے باری باری صدر ہونے چاہیے اس ہی پارٹی کے مرحوم بانی سربراہ پر اقتدار کی حوس کی وجہ سے پاکستان توڑنے کے الزامات بھی تاریخ کے اندر محفوظ ہیں۔اس ہی پارٹی نے بھارت کو سکھ حریت پسندوں کی لسٹیں بھی فراہم کی تھیں جس پارٹی نے بھارت کے وزیر اعظم کے اسلام آباد کے دورے کے وقت راستے سے کشمیر کے بورڈ تک ہٹا دیے تھے کیا کیا بیان کیا جائے۔ان حالات میں نظریہ پاکستان کی حفاظت اس کو عوام میں پھیلانے اور عام کرنے کی ضرورت ہے۔یہ بات اطمینان بخش ہے کہ ملک کی پیشتر دینی وسیاسی جماعتیں عوام کی رہنمائی اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ مشہور نظریاتی صحافی مجید نظامی کی سربراہی میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ پچھلی دہائی سے ملک میں کام کر رہا ہے ان کا پرنٹ الیکٹرنک میڈیا بھی اس کا میں پیش پیش ہے۔ نظریہ پاکستان کے محافظ لاتعداد اخبارارت رسائل کے مالکان اور پاکستان کے عوام اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا ئے ہوئے ہیں۔اسی سلسلے کی ایک کڑی یعنی نظریہ پاکستان کی حفاظت کا فریضہ انجام دینے کی غرض سے ہمارے ایک دوست جرنلسٹ،کالمسٹ اور ٹی وی اینکر نے کتاب’’ اُمید آشنا‘‘ لکھی ہے جس کا ہم نے مطالعہ کیا۔اپنی کتاب میں ایک نظریہ پاکستان کے حامی اور مددگار کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں اس شخص نے انجمن حمایت اسلام کے اسکول لاہور سے تعلیم حاصل کی جس میں بچے سر پر رومی ٹوپی پہن کر آتے تھے اس اسکول کا معیار علی گڑھ کی تعلیمی تحریک سے کم نہ تھا اس ہی ادارے کے درجنوں اسکول اور کالجز سے تعلیم پا کر لوگوں نے تحریک پاکستان میں فعال کرادار ادا کیا تھا جن میں یہ شخص بھی شامل تھااس شخص کے بڑے بھائی مسلم لیگیوں کے دوست تھے اس طرح یہ بھی مسلم لیگیوں کی برپاہ کی ہوئی تحریک پاکستان میں شامل رہے عطا اﷲ شاہ بخاری کی تقریریں سنی۔قادیانیوں کے ٹی اے کالج میں داخل ہوئے مرزا ناصر جو بعد میں قادیانیوں کی سربراہ بنے اس کالج کے پرنسپل تھے کالج کے تقریباً تمام طالب علم قادیانی تھے مگر یہ شخص اپنے ایمان اورعقیدے پر قائم رہا۔ایک چھوٹے سے گاؤں میں کریانے کی دکان کی۔ بی ایس سی کا امتحان پاس کیا۔فیروز سنز میں میں ملازمت کی ۔کالونی ٹیکسٹائل مل ملتان میں نوکری کی ۔ تھل پروجیکٹ کے تحت پیپلاں میں ٹیکسٹائل مل میں آپرنٹس شپ کے لیے داخل ہوئے ۔۱۹۵۱ء کولمبو پلان کے تحت برطانیہ گئے۔مانچسٹر سے ٹیکسٹائل میں ڈگری حاصل کی ۔ برنلے کی مل میں مزدور کی حثیت سے کام کیا اور ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کی۔ مانچسٹڑ کالج سے ڈگری کے سا تھ ایسوسی ایٹ ممبر آف ٹیکسٹائل انسٹیٹیوٹ کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ہاورڈ یونیورسٹی سے کورس کیا۔دشمن ملک کی کسی چیز کو پسند نہیں کرتے کہاں آجکل کی تجارت!۔ پاکستان میں انڈسٹری کی ترقی میں بہت کام کیا۔ اب وہ ملک کے ایک بڑے صنعت کار ہیں جب اﷲ نے نوازا تو فلاحی کاموں میں دلچسپی لینا شروع کی اپنے گاؤں کے اسکول کالج کی مدد کرتے ہیں۔ دیباچہ لکھنے والے صاحب کہتے ہیں کہ یہ بہ یک وقت صاحب مال، صاحب حال اور صاحب مقال ہیں۔ صاحب مال اس لیے کہ پاکستان کے کامیاب ترین صنعت کار ہیں۔صاحب حال اس طرح کے بے حال لوگوں کے حاجت روائی میں مستعد رہتے ہیں اور صاحب مقال اس طرح برطانیہ اور امریکہ کے تعلیمی اداروں سے اعلیٰ اسناد حاصل کی کانفرنسوں اور سیمینارز میں خیال افروز مقالے پیش کرتے رہتے ہیں۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے بڑے فعال متحرک رکن ہیں۔ ان کے ایک چاہنے والے کہتے ہیں میرے علم میں نہ جانے کتنے ادارے ہیں جن کی یہ خاموشی سے خدمت کرتے ہیں ۔ دوسرے صاحب کہتے ہیں ان کی زندگی کو دوسرے صنعت کاروں کو مشعل راہ بنا نا چاہیے تاکہ پاکستان کی خدمت ہو۔ کتاب کا ہیش لفظ لکھنے والے کہتے ہیں یہ ان لوگوں میں شامل ہے جو نظریہ پاکستان کے سائے میں پروان چڑے انہوں نے زندگی کا جو پہلا لفظ بولنا شروع کیا وہ پاکستان تھا۔پہلا جملہ کہا کہ’’لے کے رہیں گے پاکستان ‘‘ یہی نسل پاکستان کی وارث ہے ان کا تعلق اُس نسل سے ہے جس نے متحدہ ہندوستان میں نظریہ پاکستان کی حقانیت کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ۱۹۴۰ء کی تاریخی قراداد پاکستان میں اپنے والد کے ساتھ شریک ہوئے وہ کہتے ہیں مسلمان؂ اور ہندو صدیوں ساتھ رہنے کے باوجودد ایک دوسرے سے مختلف ہیں نظریہ پاکستان ان کا اوڑھنا بچھونا ہے اِنہوں نے پنجاب ایک سابق وزیر اعلی کے خیال کہ جیسے جیسے نئی جنریشن آتی جائے گی تو وہ پاکستان کی نظریاتی اساس کو بھولتی جائے گی جو قربانیاں پاکستان کے لیے ان کے بزرگوں نے دی تھی ان کو بھلا دیا جائے گا ۔پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہو گی سارے حکمرانوں نے اس وعدے کو قوم سے پورا نہیں کیا۔لہٰذا ایک نظریہ پاکستان اداراے کا قیام ہونا چاہیے۔ اِس شخص نے ان کا ساتھ دیتے ہوئے اس مہم میں شامل ہوئے انہوں نے نظریہ پاکستان کے لیے فنڈ بھی دیے اور جگہ بھی دی نظریہ پاکستان کے ساتھ پرانی وابستگی ہے لاہور جاتے ہیں تواعزازی سکریٹری نظریہ پاکستان ٹرسٹ سے ملاقات کرتے ہیں کراچی میں سندھ کمیٹی کے نام سے نظریہ پاکستان کے لیے ایک صاحب کے ساتھ مل کر کام شروع کیا ’’ نظریہ پاکستان آج بھی زندہ ہے‘‘ کے عنوان سے سب سے پہلے اسکولوں کے بچوں میں مقابلہ کروایا گیا یہ کام نعمت اﷲ خان ناظم کراچی کے تعاون سے ہوا۔فائنل ڈیبیڈ ایف سی آڈیٹوریم میں ہوا پھر اس کاروان میں بہت سے لوگ شامل ہو گئے بچوں کو کراچی سے لاہور ’’ کاروان یکجہتی و خیر سگالی‘‘ کے نام کے تحت بھیجا گیا اب ہر سال یہ بچے لاہور جاتے ہیں اور دوسرے شہروں سے بھی بچے لاہورآتے ہیں نعمت اﷲ خان لاہور گئے وہاں اس وقت لاہور کے ناظم کے ساتھ مل کر کراچی؍لاہور دونوں شہروں کو نظریاتی جڑواں شہر قرار دیا او اس کام کو آگے بڑھانے کا عزم کیا۔اِس نظریہ پاکستان اور پاکستان کی اساس سے محبت کرنے والے شخص نے مولانا مودودی ؒ سے بھی ملاقات کی تھی سب اسلامی دانشورں سے یکساں محبت کرتے ہیں۔

قارئین!ہم نظریہ پاکستان اور پاکستان کو فلاحی اسلامی ریاست بنانے اور ا س کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے قافلے کے ایک ادنیٰ سے کارکن ہیں ہمیں ’’اُمید آشا‘‘ کتاب اس کے مصنف جناب اکرم کمبوہ جرنلسٹ،کالمسٹ اور ٹی وی اینکر پرسن نے تبصرے کے لیے پیش کی ہم نے اس کتاب میں نظریہ پاکستان سے محبت کرنے والے شخص میاں عبدالمجید صاحب کی سوانح عمری کا مطالعہ کیا جو ایک سچے پاکستانی ، نظریہ پاکستان اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے قافلے کے ایک فحال اور متحرک کارکن نظر آئے اس کتاب میں ایک جاگتا ہو دردمند انسان اور پاکستانی ملا جس کو ہم نے قلم کی نظر کیا اس امید کے ساتھ کہ نظریہ پاکستان اور اس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں کی حوصلہ افزائی اوردلجوئی ہو۔ اﷲ پاکستان اور نظریہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔
Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1118 Articles with 957474 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More