بنامِ علم اب توجاہلیت رقص کرتی ہے……!

عالمِ انسانی کے موجودہ حالات کا ایمانداری سے جائزہ لیجیے اور پتہ لگائیے کہ دُنیا کے چھ سو کروڑاِنسان اس وقت کہاں مصروفِ کار ہیں،اِن کی مصروفیات کی نوعیت کیا ہے،کس محور کے اطراف ان کی سرگرمیاں اور اِن کے شب و روز گھوم رہے ہیں۔ اِنسانوں کا یہ جمّ غفیر کس منزل کی طرف اپنا رُخ کیے ، کیا کچھ زادِ سفر لیے محوِ سفرہے۔؟ہر حساس دل پکار اٹھے گا کہ یہاں سے لے کر وہاں تک انسانوں کا یہ قافلہ بلا تخصیصِ مذہب و ملت،رنگ و نسل، علاقہ و قومیت ایک عجیب بحران کی لپیٹ میں ہے اور تباہی کے ایک بھیانک غار کی جانب بگ ٹٹ دوڑرہا ہے۔اِبتدائے آفرنیش سے اِنسانوں کی ایک کثیر تعداد سطحِ زمین پر ہر زمانے میں آباد رہی ہے لیکن چشمِ فلک نے شاید اِنسانوں کو ایسا مضطرب، Restless اور اِس قدرDirectionlessکبھی نہیں دیکھا۔اس صورتحال سے اس کے باہر نکلنے کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آتی۔عصرِ حاضرکے اِنسان کو لاحق بیماریوں کی فہرست اِس قدر طویل ہے کہ ہم اِن چند سطور میں اِن کے علاج کی تجویز تو کجا، ہم اِن کے نام تک گنانے سے قاصر ہیں۔ برائیوں اور عصیاں میں ملوث اِنسان کی کس کس برائی ، کون کون سے گناہ کاذکر کیا جائے ۔ برائیوں کی وہ کونسی قسم باقی رہ گئی ہے جس سے عالمِ انسانی واقف نہیں اور جس میں اس کا ایک بڑا حصہ مبتلا نہیں ۔ کو ن سی نیکی ایسی ہے جس کی حرمت کو پامال نہیں کیا گیا اور کیا جارہا ہے۔!! روزافزوں برائیوں کی سنگینیوں کی جتنی کچھ تفصیل ہماری نوکِ قلم سے صفحۂ قرطاس پر تحریر ہونے کو بے تاب ہے، اِسے کسی مخصوص قسم کی لفاظیت کا سہارا بھی درکار نہیں۔کیوں کہ آسمان میں چمکنے والی بجلیوں کے تعارف کی کبھی کسی کو ضرورت نہیں پڑتی۔ اِنسان خود دیکھ لیتا ہے کہ کالی گھٹا کیا ہے اور برق باری کسے کہتے ہیں۔ چنانچہ صاف اور سیدھے سادھے الفاظ حقیقتِ حال بیان کرنے کو کافی ہیں ۔ گناہوں کی گٹھری اِتنی وزنی ہوگئی ہے کہ اس کی گراں باری کاہر فردِ متنفس کو اندازہ ہے۔ایک ایک برائی گِنواتے اور ہر برائی کی چھوٹی سی چھوٹی تفصیل رقم کرتے چلے جائیے ،دامانِ قرطاس اپنی

تنگی ٔداماں کی شکایت کرتارہ جائے گا۔سورۂ الروم(۳۰)میں ربِّ کائنات کے یہ الفاظ شاید ہمارے جذبات کی حقیقی اور بھرپور ترجمانی کرتے ہیں اور صورتحال کی بہترین عکاسی بھی ، اِ س آیت میں برّو بحر کے فساد کا ذکرجس شان سے کیا گیا ہے اِن کا متبادل فراہم کرنا کائنات میں کسی کے بس کی بات نہیں۔ظاہر ہے زمین پر یا تو خشکی ہے یا تری۔کرّۂ ارض کے موجودہ بحران پر اس سے بہترین تبصرہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ:’’ خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا۔یہ اِنسانوں کی(خود) اِن کے اپنے ہاتھوں کی اپنی کمائی ہے،(اور یہ جو فساد برپا ہے،اِس کا مقصد یہ ہے کہ)،اِن کے بعض (سنگین قسم کے) کرتوتوں(کے نتائج کا) اِنہیں ذائقہ چکھایا جائے،تاکہ (یہ ہوش کے ناخون لیں اور ایک بار پھر اِنہیں) رجو ع(اِلی اﷲ ) کی توفیق میسر آجائے۔‘‘ فساد کے ذمہ داروں کے چہروں پر پڑی نقاب کس غضب ناکی کے ساتھ اُلٹ دی گئی ہے یہ کہہ کر کہ’’ یہ اِنسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔‘‘(۴۱)۔

لیکن اب ہم کچھ باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں کہ اِنسانوں کا وہ اصل گروہ کون ہے، جسے اس صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا جائے ؟ کس نے مچا رکھی ہے یہ قیامت؟ کس کا برپا کردہ ہے یہ قہر؟تھوڑے سے غور وفکر کے بعد یہ دلچسپ مگر تلخ حقیقت ہمارے سامنے آجائے گی کہ آج زمین پرجو فساد برپا ہے اس کے ذمہ دارحیرت انگیز طور پر وہ انسان ہیں جنہیں عرف عام میں ’’پڑھے لکھے‘‘ لوگ کہا جاتا ہے، بلکہ زیادہ صحیح الفاظ ہیں :’’بہت زیادہ پڑھے لکھے ‘‘Highly qualified لوگ۔کیونکہ یہی Qualifiedلوگ ہیں جنہوں نے آج زندگی کی باگ ڈور سنبھال رکھی ہے۔دُنیا کے کسی بھی علاقے میں تشریف لے جائیے، ’’پڑھے لکھے‘‘ لوگ ہی اجتماعی زندگی کی تمام تر ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ملیں گے، جن کے پاس دُنیا کی’’ عظیم ‘‘یونیورسٹیوں کی عطا کردہ متنوع ڈگریاں بھی ہیں اور ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جن کو دانشوری کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے اور اعزاز ات سے بھی نوازا گیا ہے ۔پھر ان کے انتظامیہ کو عملاً چلانے والوں کی ایک اورHierarchy جو Bureaucrats پر مشتمل ہوتی ہے، حد سے زیادہ پڑھی لکھی ہونے کے باوجود’’ اڈمنسٹریٹیو سروس‘‘ کے ایک اور انتہائی پیچیدہ امتحان سے ابھرآئی ہوئی ہوتی ہے جس میں سرخ رُوئی کی خاطر نہ جانے کیا کیا کچھ پڑھنا پڑتا ہے۔یہ مٹھی بھر ’’پڑھے لکھے‘‘ لوگ بڑے کرّو فر کے ساتھ دنیا کے انتظام پر چھا جاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ کُل ملا کر پڑھے لکھے لوگوں ہی کو دنیا کے بگاڑ کا ذمہ دار ٹہرایا جانا کوئی ایسی بات نہیں جسے جذباتیت پر محمول کیا جائے ۔جاہلوں اور’’ کم پڑھے لکھے‘‘ لوگوں کی اوقات ہی کیا کہ دنیا میں فساد برپا کر سکیں۔ مقننہ، انتظامیہ ، عدلیہ، جیسے شعبوں سے بیچاروں کا کیا تعلق۔ ان’’بے پڑھے لکھے‘‘ جاہلوں کی اوقات ہی کیا کہ وہ زمین پر فساد مچائیں، اِن کو تو کوئی منہ تک نہیں لگاتا۔ان کا کام تو بس اس قدر ہے کہ یہ اِن پڑھے لکھے لوگوں کے آگے سر تسلیم خم کردیں۔ ا نکے ’’علم‘‘کی بنیاد پر ہونے والی منصوبہ سازی کے سامنے سر ِ اطاعت جھکادیں۔ یہ دیں تو لیں اور زندہ رہیں اور نہ دیں تو چپ چاپ مر جائیں۔ کبھی کبھار ان جاہلوں کو پڑھی لکھی انتظامیہ کی بد نظمی کے خلاف احتجاج کرنے کا خیال بھی آجاتا ہے، لیکن دفعتاً کوئی ’’پڑھا لکھا آدمی ‘‘ نمودار ہوکران کی قیادت سنبھال لیتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی پڑھی لکھی پولس ان جاہلوں کو لاٹھیوں، آنسو گیس اور بُلیٹوں سے نواز تی ہے ،ہاں دو ایک زخموں کے ساتھ جاہلوں کے پڑھے لکھے قائد کی جھولی ضرور بھر جاتی ہے۔ اس لیے ان بے چاروں کے پڑھے لکھے نہ ہونے کوفساد فی الارض کا ذمہ دار ٹہرانا ناانصافی کی بات ہے۔ دنیا میں فساد برپا کرنے کی ذمہ داری ان پر آ ہی نہیں سکتی ۔ بلا مبالغہ یہ سارا کیا دھرا اِن ہی پڑھے لکھے لوگوں کا ہے۔

ایک اور پہلو بھی بڑا دلچسپ ہے۔ان پڑھے لکھے لوگوں کو ہمیشہ اپنی آبادیوں کو خواند ہ بنانے کی بڑی فکر لاحق رہتی ہے۔انہیں ان کی جہالت بڑی کھلتی ہے۔ چنانچہ یہ’’ تعلیمی اداروں‘‘ کا ایک جال بچھا دیتے ہیں۔جہاں یہ لوگ ان کے ہاتھ میں وہی تیر تھما دینا چاہتے ہیں، جو وہ ’’ پڑھ لکھ‘‘ کر پہلے ہی مار چکے ہوتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ پڑھی لکھی انتظامیہ اپنے علم کو، جس پر اسے ناز ہے، بروئے کار لا تی اور دنیا میں انسانوں کی زندگی کے ہر شعبے میں عدل و انصاف،سکون و چین اور فلاح و خوشحالی پیدا کرتی۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ٹھیک ان ہی پڑھے لکھے افراد کی ناک کے نیچے خود ان ہی کا برپا کردہ ظلم و جور،انتشار و بدامنی اور خسران و بد حالی برپا ہوتی ہے اور اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے اور الزام لگایا جاتا ہے ان جاہلوں کی جہالت پر۔اورہم انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں کہ:پڑھے لکھے لوگ اور یہ بحران؟

اب سوال یہ ہے کہ ان Highly Qualified لوگوں کا اس قدر پڑھا لکھا ہونا زمین کو امن و امان کا گہوارا بنانے کے کام کیوں نہیں آیا۔؟بہ ظاہر بڑا عجیب سوال ہے اور کافی تکلیف دہ بھی۔نہ جانے اس سوال کو پڑھ کر کتنے ’’پڑھے لکھے‘‘ لوگوں کے تن بدن میں آگ لگ جائے گی۔ اور نہ جانے کتنے کوالیفائڈ لبوں پر گالیاں مچلنے لگیں گی۔لیکن کیاکیا جائے، ہم مجبور ہیں پڑھے لکھے لوگوں سے یہ پوچھنے پر کہ کس کام کے ہیں یہ تمہارے علوم جو تم نے ان عالیشان یونیورسٹیوں اور ان موٹی موٹی کتابوں سے حاصل کیے تھے، کیا دیا تمہارے دفترِ علم نے اس دنیا کو بجز کچھ ساز و سامان، کچھ مشینوں، کچھ خلائی جہازوں، کچھ فلک بوس عمارتوں، کچھ شاندار سڑکوں اور کچھ ایجادات کے؟۔ یہ سوال اربابِ علم وفن کے سامنے منہ پھاڑے کھڑے ہیں کہ بتاؤتمہاری یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانے والا علم تمہارے باشندوں کی فلاح کے کام کیوں نہیں آتا۔ اپنے علم کی ’’روشنی‘‘ میں تم ایک مسئلہ حل بھی نہیں کر پاتے کہ ہزار مسئلوں کا ایک اور پٹارہ کھل جاتا ہے۔مثلاً تم اپنے معاشی علوم کو ملک کی معاشی حالت سدھارنے کے کام میں لانا چاہتے ہو،لیکن نتیجہ الٹا نکلتا ہے۔ تمہاری آبادیوں کا تقریباً نصف فی صد برسہا برس خط غربت کے نیچے زندگی گزارتارہ جاتا ہے۔ تم زمین سے اُبلنے والی ملک کی بے پناہ دولت کی تقسیم کا نظام اپنے اسی علم کی بنیاد پر ہی تو کرتے ہو جس پر تمہیں ناز ہے، پھر کیوں تمہاری کوششیں ناکامی کا منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں اورملک کی چالیس فی صد عوام رات کو کھانا کھائے بغیر کھلا آسمان سر پر اوڑھے سو جاتی ہے۔تم کو اپنے اخلاقیاتEthics پر بڑا ناز ہے، پھر کیوں تمہارے نام نہاد پڑھے لکھے عوامی خدمت گار عوام کے ساتھ ہر لمحہ بد سلوکی کرتے ہیں اورپڑھے لکھے ہونے کے باوجودسر عام اپنے اخلاق وکردار کو رشوت کے عوض بیچ دیتے ہیں؟تمہارے پاس ہزاروں ’’پڑھے لکھے‘‘ ڈاکٹرس ہیں لیکن کیوں تمہارے عوام کی کثیر تعداد علاج معالجہ کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور اپنی قسمت کا رونا روتے روتے اس دُنیا سے رخصت ہو جاتی ہے۔ تمہارے ہاں ان ہی ’’پڑھے لکھے‘‘ لوگوں کے اربوں کھربوں روپیوں کا سرمایہ اُن کپڑا کارخانوں پرلُٹا دیا جاتا ہے جہاں کھربوں گز کپڑا ، جس سے کرۂ ارض کو کئی بار لپیٹا جا سکے،تیار ہونے کے باوجود کیوں……تمہارے زندہ اِنسانوں کو چھوڑیے…… تمہارے غریب عوام کی لاشوں تک بھی نہیں پہنچ پاتا تاکہ ان کے کفن کے کام آ سکے یا کم از کم اِن پڑھی لکھی خواتین کو اپنی طرف راغب کر سکے ، جو پڑھے لکھے لوگوں کے سکھائے ہوئے فیشن کی زد میں آکر اپنے جسم کو چھپانا پسند نہیں کرتیں۔اور کم سے کم کپڑا پہننے پر تلی ہوئی ہیں۔؟’’پڑھے لکھے‘‘ ہونے کی یہ کونسی قسم ہے جو انہیں برہنہ رہنے پر اُکساتی ہے، نیم برہنگی کی حالت میں سر عامCatwalk پر مجبور کرتی ہے۔ وہ کون لوگ ہیں جو ’’پڑھے لکھے‘‘ ہونے کے باوجود ان خواتین کو مس ورلڈ اور مس یونیورس کے خطاب کا جھانسا دے کر بھری محفل میں ان کی عصمت کاسودا کرتے ہیں اور یہ منظر پڑھے لکھے لوگوں کے الکٹرانک میڈیا ساری دنیا کو بڑی شان سے دکھاتے ہیں اور جی بھر کر پیسہ بٹورتے ہیں۔ یہ پڑھی لکھی کنواریاں کس کی ایما ء پر اپنی عصمت کو ڈالروں کے عوض بیچ دینے میں فخر محسوس کرتی ہیں۔ کون ہے جس نے ان کی شرم و حیا کی حس کو ہی موت کے گھاٹ اُتار دیا ہے؟ ظاہر ہے ’’پڑھے لکھے ‘‘ لوگوں کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے؟۔ تمہارے اناج سے بھرے ہوئے گوداموں کا بڑا حصہ یا تو چوہوں کے کام آتا ہے یا اس میں محفوظ اناج کو سڑنے کے لیے چھوڑ د یا جاتا ہے۔تاکہ اونچا دام نہ ملنے کی صورت میں اسے سمندر کی مچھلیوں کے حوالے کیا جا سکے۔
چاہے ملک کے کروڑوں انسان اناج کے ایک ایک دانے کو ترستے کیوں نہ رہ جائیں۔اسی طرح تم اپنے پڑھے لکھے قانون دانوں کو دیکھ لو۔ انصاف کو ان ظالموں نے کتنا مہنگا اور مشکل کررکھا ہے۔پندرہ بیس سال میں مظلومین کی مظلومیت کا جذبہ سرد ہو جاتا ہے،تب تم اپنا فیصلہ سناتے ہو۔تمہارے تعلیمی اداروں کو دیکھوجہاں حرف شناسی کے سوا اورکیا سکھایا جاتاہے۔ کیااخلاق و کردار کی باتوں کا بھی کوئی مقام ہے۔؟ کیا پوری دنیاطلباء کی بد اخلاقیوں کے منظر ٹی وی کے سکرین پر فخر و ناز کے ساتھ نہیں دیکھتی ۔؟اساتذہ کو پیٹنے، انہیں موت کے گھاٹ اتارنے کے ٹی وی مناظر بھی بہت زیادہ پرانے نہیں ہیں ۔پھرآئے دن قتل و غارت گری کی وارداتیں ہمارے اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔کون ہوتے ہیں اِن خبروں پر چھا جانے والےNews Makers۔؟جدید اور اِنتہائی حسا س ہتھیاروں کا استعمال ہمارے اِن پڑھے لکھے غارت گروں کو خوب آتا ہے۔ان کا پڑھا لکھا ہونا انہیں جرم کے بہترین گُر سکھاتا ہے۔ میڈیا کے ذریعہ ان کی تشہیر کے لیے چوبیس گھنٹوں تک بنا رُکے اور لہجہ بدل بدل کر ایک ہی بات دہرانے والے نامہ نگاران مجرمین کی رپورٹنگ پر مامور رہتے ہیں جو خود بھی پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور پڑھے لکھے قاتلوں کے قتل و خون کے برہنہ رقص کی کہانیاں سناتے ہوئے اِن کی کبھی پلکیں بھیگتی ہیں،نہ اِن کے چہروں ہی سے کرب کی کوئی لہرہی جھلکتی ہے ۔ وہ نیوز چینل ہی کیا جو قتل و غارت گری کی سب سے پہلے چیخ چیخ کر ، چٹخارے لے لے کر کالجوں میں سیکھی ہوئی لسانی مہارتوں کے ساتھ رپورٹنگ نہ کرے۔ یہ ’’پڑھے لکھے‘‘ صحافی جان پر کھیل کر مالکانِ میڈیا کے لیے دھن جمع کرتے ہیں جو انہیں سرمایہ دارو ں کے اشتہاروں سے حاصل ہوتا ہے۔کھلے شہروں پر بم برسانے والے ’’پڑھے لکھے‘‘ ہی تو ہوتے ہیں،جنہیں بموں کے ساتھ ہوائی جہاز دے کر پڑھا لکھا حکمران میدان جنگ میں روانہ کر دیتا ہے۔و ہ بڑی طاقتیں کون ہیں جو اپنی عسکر ی طاقت کے نشے میں چُور غریب ملکوں پر آگ وخون کی بارش برساتی پھرتی ہیں۔ کون ہے جو دُنیا میں جمہوریت کا نعرہ لگا کر لاشوں کے ڈھیر لگا تا ہے۔ کیا کسی جاہل اور گنوار کو جمہوریت کی ہوابھی لگی ہے ؟پھر وہ لوگ کون ہیں ، جنہوں نے عالیشان عمارتوں میں سود کے اڈے قائم کر رکھے ہیں اور انہیں Bank کا معزز نام عطا کرتے ہیں۔بہر کیف یہ تذکرہ شیطان کی آنت کی طرح طویل ہے۔ جس کو بیان کرتے ہوئے ہم اُبکائی محسو س کرتے ہیں۔ایسے کئی سوال ہیں جو دُنیا میں فساد مچانے والی پڑھی لکھی دُنیا کے سامنے لب کھولے کھڑے ہیں اور ہر سوال کے پیٹ میں مزید کئی سوال چھپے ہوتے ہیں۔

’’پڑھے لکھے‘‘ اِنسانوں کی محدودعقل اور اس کے محدود علم کو یہ خبط ہے کہ اِنسانی فلاح کا پروگرام بنانے کی صلاحیت اُس میں فی الواقع موجو د ہے۔اسی خبط کے بیج سے فساد کا وہ کونپل پھوٹتا ہے، جو بالآخر ایک تناور درخت بن کر فساد فی الارض کے کڑوے کسیلے پھل دُنیا ئے اِنسانی کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اِنسانوں کے یہ گروہ ناقص عقل ِ اِنسانی کے گرویدہ ہو کر یہ حقیقت فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ اِنسانوں کی زندگی کے لیے وحی ٔ الٰہی ہی ایک ایسا ذریعۂ علم و رہنمائی ہے ، جس سے فیض یاب ہوکر زمین امن و امان کا گہوارہ بن سکتی ہے اور فساد فی الا رض کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

یہ محض کسی ناصح کی بڑ نہیں نہ کوئی شاعرانہ خیال ہی ہے، بلکہ چشمِ فلک نے آج سے چودہ سو سال پہلے اس منظر کو اسی زمین پراُبھرتے دیکھا ہے۔اور اس پوری داستانِ سعادت میں سب سے حیرت انگیزمگر ایمان افروز بات یہ ہے کہ اس انقلاب کو کسی ’’پڑھے لکھے‘‘ نے برپا نہیں کیا تھا ،بلکہ یہ ایک خالص ایمان آفریں مصلحتِ خداوندی تھی کہ جس کے تحت ایک اُمی لقبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے خالص وحی الٰہی کی بنیاد پر اس انقلاب کو برپا کیا تھا،جواُمی ہونے کے باوجود زمین پر ایک ایسی یونیورسٹی کی مانند تھا جسے چشمِ فلک نے کبھی نہیں دیکھا نہ آئندہ کبھی دیکھ سکے گی۔پھررسالت مآبی کی اس عظیم المرتبت یونیورسٹی کے فارغ نفوسِ قدسیہ کی اُس جماعت نے، جسے دُنیا صحابۂ کرامؓ کے نام سے یاد کرتی ہے، کسی کالج یا یونیورسٹی کے ڈگری یافتہ ہونے کی یا کسی کالج یا یونیورسٹی کو قائم کرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ پھر بھی دُنیا کو وہ ماحول عطا کیا جس کے لیے آج تک ’’پڑھی لکھی‘‘ دنیا اپنی ہزارہا یونیورسٹیوں کے قیام کے باوجودترس رہی ہے۔ایسا امن و سکوں آج تک دُنیا کو کبھی میسر نہیں آیا جو وحی ٔ الٰہی کی بنیاد پر انسانوں کو ان نفوسِ قدسیہ کے دست ہائے مبارکہ و قول ہائے مبارکہ سے حاصل ہوا تھا:
اُمّی کا لقب لے کر ، اُمّت کی قیادت کی
حیران ہیں ششدر ہیں قرطاس و قلم والے……(ع ب)

اصل مسئلہ جہالت کا نہیں ، جاہلیت کا ہے۔خود کو اہلِ علم کہنے والے ’’پڑھے لکھے لوگ‘‘ حقیقتاً جہالت کے نہیں ، جاہلیت کے علمبردار بن کر کھڑے ہوگئے ہیں۔کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ہم عصری تعلیم یا موجودہ تعلیمی نظام کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں،سچی بات تو یہ ہے کہ ہم نے بھی یہیں سے یہی کچھ پڑھا ہے،جس پر ابھی ہم آنسو بہاکے آئے ہیں۔ لیکن اصلاًہمارا مدعا صرف اس قدر ہے کہ’’ علم ‘‘ اور ’’حرف شناسی‘‘ کا فرق سمجھا اور سمجھایا جائے۔

کوئی ہے جو دُنیا کو ایسی یونیورسٹیاں عطا کرنے کا بیڑہ اُٹھائے جہاں سے فارغ ہونے والوں واقعتا ’’پڑھے لکھے‘‘ کہلائے جانے کے مستحق ہو جائیں؟حقیقت یہ ہے کہ یہ کام آسمانی ہدایت پر ایمان و عمل کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر ’’پڑھے لکھے‘‘ لوگ’’آسمانی ہدایت ‘‘ کی طرف رجوع ہوجائیں تو اس فساد زدہ دنیا کا نقشہ بدل سکتاہے۔ہمیں امید ہے کہ ان معروضات کو کسی دیوانے کی بڑ نہیں سمجھا جائے گا۔’پڑھی لکھی‘‘ دنیا کی خدمت میں یہ معروضات اس لیے پیش ہیں کہ وہ جہالت اور جاہلیت کے فرق کو سمجھیں۔ جہالت کو مٹانے کے نام پر جاہلیت سے تعرض نہ کرنا اور پھر بھی اِسے علم کا نام دینا، دراصل سبب ہے اُن تباہیوں کا جو رُوئے زمین پر برپا ہیں اور یہی سبب ہے کہ خشکی اور تری میں برپا فساد پر قابو پانا کسی کے بس کی بات نہیں رہ گیا ہے۔ چنانچہ جاہلیت کو دنیا سے مٹانے کی جد و جہد میں ’’پڑھے لوگوں‘‘ کے سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے ، تاکہ موجودہ یونیورسٹیوں کی از سر نو تشکیل کا جرٔت مندانہ تاریخ ساز فیصلہ کرنا آسان ہو جائے۔:رَبَّـنَا تَقَـبَّـلْ مِنَّا اِنَّکَ اَ نْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ وتُبْ عَلَـیْنَااِنَّکَ اَنْتَ التَّـوَّابٌالـرَّحِیْمُ ۔ رَبَّـنَا لَا تُزِ غْ قُلُوْبَـنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَ یْتَـنَا وَھَبْ لَـنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّـکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ ۔ وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِـہٖ وَاَصْحَابِـہٖ اَجْمَعِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ۔
Azeez Belgaumi
About the Author: Azeez Belgaumi Read More Articles by Azeez Belgaumi: 77 Articles with 75430 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.