الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ عوام کی آخری امید

جمہوریت کا مطلب عوام کے مفاد کیلئے عوام کی حکومت ہوتا ہے لیکن پاکستان کا یہ شروع سے المیہ رہا ہے کہ اس پر چند مخصوص خاندانوں کا قبضہ رہا ہے جنہوں نے ووٹ تو عوام سے اس کی بہتری اور ترقی کے خواب دکھا کر لئے لیکن اقتدار ملتے ہی انہوں نے قومی خزانے کو اپنی جاگیر اور عوام کواپنے مزارعہ سمجھے رکھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غریب مزید غریب ہوتا گیا اور امیروں کے ملکی وغیرملکی اکاؤنٹ بھرنے لگے جس کی ایک بڑی وجہ سسٹم میں موجود بعض خرابیاں او ر بعض قوانین پر عملدرآمد کا نہ ہونا ہے آئین کا آرٹیکل 62اور 63بھی ایسا ہی ایک قانون ہے جس پر اگر مکمل عملدرآمد کیا جاتا تو آج ہمارے سامنے یہ پاکستان نہ ہوتا جس میں آج ہم جی رہے ہیں اور جس کی جانب تمام دنیا مشکوک نظروں سے دیکھتی اور انگلیاں اٹھاتی ہے لیکن اب کی بار یوں محسوس ہوتا ہے کہ قانون کی اس شق پر عملدرآمد ہوگا اور میں پورے یقین کیساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر اس پر مکمل عملدرآمد ہوگیا تو ہمارے سامنے چوروں ،ڈاکوؤں اور لٹیروں سے پاک ایک نیا اور عظیم پاکستان ہوگا ۔لیکن مجھے اس وقت بہت حیرت ہوتی ہے کہ جب اس قانون پر طنز کیا جاتا ہے گزشتہ دنوں ایک پروگرام میں ایک معروف اینکر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر 62,63لاگو کیا گیا تو پھر الیکشن نہیں ہوں گے اور اسی طرح ایک معروف وکیل صاحب کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ آئین کی دفعہ 62اور63پر تو قائداعظم بھی پورے نہیں اترتے تھے جو لوگ اورپارٹیاں اس قانون کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ انہی میں سے آگے آنیوالے کرپٹ وزراء اور بے ایمان بیوروکریسی نے پی آئی اے ،ریلوے ،پاکستان سٹیل ملزاور اس جیسے کئی انتہائی منافع بخش اداروں کا بیڑا غرق کردیا بدامنی اور توانائی بحران نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کردیں،کئی حضرات پر کرپشن کے سنگین چارجز لگے اور بعض کوعدالتوں نے مجرم تک قراردے دیا لیکن مجال ہے جو اس کے باوجود کسی ایک وزیر یا بیوروکریٹ نے اس ناکامی کو تسلیم کرتے ہوئے استعفٰی دیا ہو اوراسی لئے ہی اس قانون کی عملدراری پران لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں کہ یہ قانون یہ کہتا ہے کہ عوامی نمائندے کو نیک،ایماندار ،سچا اور اچھی شہرت کا مالک ہونا چاہئے اورقانون کی اس شق پر کسی کو بھی اعتراض نہیں ہونا چاہئے اور عوام کا بھی یہ حق ہے کہ وہ ایسے ہی نمائندوں کا انتخاب کریں اور اس کیلئے انہیں ووٹ کاسٹ کرنے سے پہلے سوبار سوچنا چاہئے اور یہ تحقیق کرنی چاہئے کہ وہ اپنا قیمتی ووٹ جس امیدوار کے پلڑے میں ڈال رہے ہیں وہ اس کا اہل بھی ہے کہ نہیں ۔میرے ایک دوست نے اس ضمن میں بہت خوبصورت بات کی کہ جب ہم اپنی بیٹی کا رشتہ کسی سے طے کرنے لگتے ہیں تو ہم کئی ماہ تک اس لڑکے کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں اپنے عزیزواقارب سے مشورے کرتے ہیں کہ اس لڑکے کا کردار کیسا ہے،یہ چوری تو نہیں کرتا ۔جوا تو نہیں کھیلتا شراب کاعادی تو نہیں یا اس میں کوئی ایسا عیب تو نہیں جس کی وجہ سے ہماری بیٹی کو بعد میں تکلیف ہو لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم ایک ایم این اے اور ایم پی منتخب کرتے وقت اور اس کو ووٹ دیتے وقت ذرا بھی یہ نہیں سوچتے کہ ہم جس شخص کے ہاتھوں میں اپنی نمائندگی دے رہے ہیں اور جس کے ہاتھ میں اپنے ملک پاکستان اور اپنی نسلوں کا مستقبل دے رہے ہیں وہ اس قابل بھی ہے یا نہیں لیکن اس میں زیادہ قصور عوام کا بھی نہیں کہ ان کے سامنے جو امیدوار ہوتے ہیں انہوں نے ان میں سے ہی کسی کومنتخب کرنا ہوتا ہے اس لئے پہلی ذمہ داری تو خود سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن کی ہونی چاہئے کہ وہ انتخابات میں ٹکٹ ہی ایسے افراد کو دیں جو اچھی شہرت کے حامل ہوں ۔کس قدرافسوس کی بات ہے کہ امریکہ،برطانیہ،کینڈا اوردیگر کئی ملکوں کی درجنوں مثالوں کا میں عینی شاہد ہوں کہ جب کسی وزیر پر اختیارات کے ناجائزاستعمال یا کرپشن کا معمولی الزام بھی لگا تو اس نے صرف اس الزام پر ہی resignکردیا جبکہ پاکستان میں تو یوں لگتا ہے کہ وزارتیں اور عہدے حاصل ہی صرف اس لئے کئے جاتے ہیں تا کہ انہیں کرپشن کی کھلی چھوٹ مل جائے اور بجلی،گیس اور دیگر یوٹیلٹی بلز سے ان کی جان چھوٹ جائے جس کا ثبوت ملک میں ہونے والی روزانہ کی بارہ ارب روپے کی کرپشن اور اور حکومتی اداروں کے ذمے تین سو ارب روپے کے بقایاجات کی وہ رپورٹیں ہیں جو خود چیئرمین نیب اور وزارت پانی و بجلی کی جانب سے سامنے آئی ہیں ۔اب یہ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ صاف و شفاف انتخابات کیلئے اپنا کرداراداکریں کیوں کہ اس وقت پوری قوم کی نظریں ان دونوں اداروں پر ہیں اگر انہوں نے اس موقع پر ثابت قدمی کا مطاہرہ کرتے ہوئے پرامن ،فری اینڈ فیئر انتخابات کروا لئے تو یقینی طور پر فخرالدین جی ابراہیم اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے نام تاریخ کے صفحات پر سنہری حروف میں لکھے جائیں گے اور مجھ سمیت کروڑوں پاکستانیوں کو اس وقت بہت خوشی ہوئی جب چیف جسٹس صاحب کی جانب سے جعلی ڈگری ہولڈرز کے پہلے ہی دن نااہل ہونے اور چیف الیکشن کمیشن کی جانب سے امیدواروں کی بے رحمانہ سکروٹنی کرنے کے بیانات پڑھے میرے خیال میں صاف شفاف انتخابات پاکستان کیلئے اس قدر ضروری ہیں کہ اس مقصد کیلئے اگر اس کی تاریخ کچھ لیٹ بھی رکھ جائے تو کوئی ہرج والی بات نہیں۔ اگر الیکشن کمیشن بھرپور جدوجہد کرتے ہوئے اس چیلنج کو نبھانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ اس کا پاکستان کی آنیوالی نسلوں پر احسان ہوگا۔اور سب سے آخری اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سے 62,63پر عملدرآمد اور امیدواروں کی سکروٹنی پر زوردیاجانے لگا ہے تب سے بڑی بڑی جماعتوں کے ہوش اڑ گئے ہیں اور انہیں اپنے علاقوں میں کھڑا کرنے کیلئے صاف و شفاف نمائندے ہی نہیں مل رہے ۔آخر میں عوام سے بھرپور درخواست کرتا ہوں کہ یہ انتخابات آپ کی اورآپ کی نسلوں کیلئے بہت اہمیت رکھتے ہیں برائے مہربانی اس دفعہ ووٹ ضرور کاسٹ کرنے جائیں اور یہ ووٹ اگر آپ نے کسی زمیداراور وڈیرے کے حکم کی بجائے اپنے ضمیر کی آواز پر دئیے تو آنیوالا کل آپ کا ہے ورنہ کل کو جرم یہ عوامی نمائندے کریں گے-
mian zakir hussain naseem
About the Author: mian zakir hussain naseem Read More Articles by mian zakir hussain naseem: 44 Articles with 25817 views my name is mian zakir hussain naseem i live in depalpur pakistan but i also running a construction company zhn group in america i am also president pm.. View More