تعلیم کی افادیت

آج کے اس پُر آشوب اور تیز ترین دور میں تعلیم کی ضرورت بہت اہمیت کا حامل ہے چاہے زمانہ کتنا ہی ترقی کر لے۔ حالانکہ آج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے۔ ایٹمی ترقی کا دور ہے، سائنس اور صنعتی ترقی کا دور ہے مگر اسکولوں میں بنیادی عصری تعلیم، ٹیکنیکل تعلیم، انجینئرنگ، وکالت، ڈاکٹری اور مختلف جدید علوم حاصل کرنا آج کے دور کا لازمی تقاضہ ہے ۔ جدید علوم تو ضروری ہیں ہی اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی بھی اہمیت اپنی جگہ مسمم ہے، اس کے ساتھ ساتھ انسان کو انسانیت سے دوستی کے لئے اخلاقی تعلیم بھی بے حد ضروری ہے۔ اسی تعلیم کی وجہ سے زندگی میں خدا پرستی ، عبادت ، محبت ، خلوص ، ایثار، خدمتِ خلق، وفاداری اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اخلاقی تعلیم کی وجہ سے صالح اور نیک معاشرہ کی تشکیل ہو سکتی ہے۔

تعلیم کے حصول کے لئے قابل اساتذہ بھی بے حد ضروری ہیں جو بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ رابرٹ فراسٹ نے کیا خوب کہا تھا ” میں پڑھاتا نہیں جگاتا ہوں ‘ I am not a teacher but an awakenerمطلب یہ کہ یہی استاد کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ استاد وہ نہیں جو محض چار کتابیں پڑھا کر اور کچھ کلاسز لے کر اپنے فرائض سے مبرا ہوگیا بلکہ استاد وہ ہے جو طلباءو طالبات کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے اور انہیں شعور و ادراک ، علم و آگہی نیز فکر و نظر کی دولت سے مالا مال کرتا ہے۔ جن اساتذہ نے اپنی اس ذمہ داری کو بہتر طریقے سے پورا کیا‘ ان کے شاگرد آخری سانس تک ان کے احسان مند رہتے ہیں۔ اس تناظر میں اگر آج کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ پیشہ ¿ تدریس کو بھی آلودہ کر دیا گیا ہے۔ محکمہ تعلیمات اور اسکول انتظامیہ اور معاشرہ بھی ان چار کتابوں پر قانع ہوگیا۔ کل تک حصولِ علم کا مقصد تعمیرِ انسانی تھا آج نمبرات اور مارک شیٹ پر ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں پر مفاد پرست ٹولہ قصرِ شاہی کی طرح قابض رہا ہے جن کے نزدیک اس عظیم پیشہ کی قدر و قیمت کی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے، بدقسمتی اس بات کی بھی ہے کچھ ایسے عناصر بھی تعلیم کے دشمن ہوئے ہیں جو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے ہمارے تعلیمی نظم کے درمیان ایسی کشمکش کا آغاز کر رکھا ہے جس نے رسوائی کے علاوہ شاید ہی کچھ عنایت کیا ہو۔ مگر پھر بھی جس طرح بیرونی دنیا کے لوگ تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اسی طرح مسلمان بھی کبھی جدید تعلیم سے دور نہیں رہے بلکہ جدید زمانے کے جتنے بھی علوم ہیں زیادہ تر کے بانی مسلمان ہی ہیں۔ موازنہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ آج یورپ تک کی جامعات میں مسلمانوں کی تصنیف کردہ کتابیں نصاب میں شامل ہیں۔

ہمارے بچے ہنستے کھیلتے اور خوش ہوتے ہی اچھے لگتے ہیں اور سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہی سب کچھ کرتے ہوئے یہ بچے موثر طریقے سے سیکھتے بھی ہیں۔ وہی باتیں جو کھیل کھیل میں سمجھتے ہیں ان کے علم میں اضافے کا باعث بنتی ہیں ۔ اکثر و بیشتر گھرانوں میں چار یا پانچ سال کی عمر میں بچے علم کے سفر پر گامزن ہوتے ہیں۔ یہ سفر ان کے لئے نہایت خوشگوار ہوتا ہے اور کبھی کبھی کٹھن بھی۔ دل لگائے بغیر سیکھنا علم پر بوجھ ہوتا ہے پھر ایسے افسوناک حالات و واقعات جو آج ہمارے تعلیمی نظام میں پائے جانے لگے ہیں شایدبدلنے کی کوشش سے بھی نہ بدلے جا سکیں۔ ان ننھے دماغوں کو زنگ آلود ہونے سے بچانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس وقت ہمارے مروجہ اور روائتی طریقہ تدریس میں بچوں کے لئے کوئی کشش بانی نہیں رہی ہے بچے اسکولوں، کالجوں، جامعات میں جانے سے کتراتے ہیں۔ لگ بھگ ستر فیصد بچے اسکول جاتے ہیں مگر ان میں سے بھی کچھ فیصد بچے پرائمری سطح کی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں ۔ اس کی کوئی ٹھوس وجہ سوائے اس کے کہ روائتی طریقہ تعلیم میں تبدیلی نہیں کی گئی اور دوسری وجہ مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہے جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو چائلد لیبر کے طور پر کام میں مشغول کروا دیتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کی دلچسپی کے لئے دیگر پروگراموں کو بھی ترتیب دیکر ان میں دلچسپی کا ساماں پیدا کیا جائے۔

اس دور میں صبح و شام کی شفٹ میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ زوروں پر ہے ہر جگہ اور ہر مقام پر تعلیم کو فروغ دینے کی بات کی جا رہی ہوتی ہے ۔ جگہ جگہ کوچنگ سینٹر بھی اپنے فرائض کی انجام دہی کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ کوچنگ سینٹر کا ٹرینڈ اس لئے چل پڑا ہے کہ تعلیمی اداروں میں تعلیم دینے کا فقدان ہے ۔گو کہ یہ کوچنگ سینٹرز اور نئے نئے تعلیمی ادارے فیسوں کی مد میں بھاری بھرکم فیس وصول کرتے ہیں ۔ بہر حال بچوں کی تابناک مستقبل کے لئے والدین ان کوچنگ سینٹرز کی بھاری بھرکم فیس بھی جھیلنے کو تیار رہتے ہیں تاکہ ان کے ہونہاروں کو اچھی تعلیم مہیا ہو سکے ۔

حصول تعلیم کے فرض کئے جانے پر کوئی اختلاف نہیں ہے قرآنِ مجید میں لگ بھگ پانچ سو مقامات پر بالواسطہ یا بالواسطہ حصولِ تعلیم کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی۔ علم کی فرضیت کا براہ راست بیان بے شمار احادیث میں بھی آیا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” حصول علم تمام مسلمانوں پر (بلا تفریق مرد و زن) فرض ہے۔ بے شک علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و زن پر فرض ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ” جو شخص طلبِ علم کے لئے کسی راستے پر چلا، اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دیا۔“اور یہ بات واضح کر دی گئی کہ قرآنِ مجید سے حصول علم خواتین کے لئے بھی اسی طرح فرض ہے جیسے مردوں کے لئے ہے اس لئے تعلیم ہر صورت حاصل کرنا چاہیئے ۔
اسلامی تواریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے تعلیم و تربیت میں معراج پاکر دین و دنیا میں سر بلندی اور ترقی حاصل کی لیکن جب بھی مسلمان علم اور تعلیم سے دور ہوئے وہ غلام بنا لئے گئے یا پھر جب بھی انہوں نے تعلیم کے مواقعوں سے خود کو محروم کیا وہ بحیثیت قوم اپنی شناخت کھو بیٹھے۔ آج پاکستان میں تعلیمی ادارے دہشت گردی کے نشانہ پر ہے ، دشمن طاقتیں تعلیم کی طرف سے بد گمان کرکے ملک کو کمزور کرنے کے در پہ ہیں، کچھ ایسے عناصر بھی ملک میں موجود ہے جو اپنی سرداری، چوہدراہٹ، جاگیرداری کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مفادات کی وجہ سے اپنے اثر و رسوخ والے علاقوں میں بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں یہ بھی ایک قسم کی تعلیم دشمنی ہے جس کا قلع قمع کرنا ضروری ہے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام کے مقاصد کو واضح کریں اور اصل مرض کی طرف توجہ دیں ۔ لارڈ میکالے کے مادہ پرستانہ اور سیکولر نظامِ تعلیم کے بجائے پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو سامنے رکھ کر ہمیں ایسا تعلیمی نظام وضع کرنا چاہیئے جو ہمارے افراد اور معاشرے کے درمیان پُل کا کام انجام دے سکیں ۔ اس کے بعد ہی ہم اس نتیجے پر پہنچ سکیںگے کہ ہم نے اس ملک اور قوم کی خدمت کی ہے۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 338839 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.