جب سب سیاستدان ایک ہو گئے

کسی گاﺅں کی بات ہے کہ وہاں چار بھائی رہتے تھے۔ پہلے تو وہ ایک ساتھ ایک ہی چار دیواری میں رہتے تھے۔ روزانہ وہ رات کے وقت ایک کمرہ میں آکر بیٹھتے دن بھر کے کام کاج کے بارے میں ایک دوسرے کو بتا تے۔ متعدد سال یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ان کے درمیان ان کی والدہ بھی موجود ہوتی تھی۔ پھر ان چاروں بھائیوں میں جدائی کے آثار دکھائی دینے لگے۔ جس طرح وہ پہلے ایک دوسرے سے مسکرا کر اور خوش ہو کر باتیں کرتے تھے یہ سلسلہ اب کم ہو گیا تھا۔ چاروں بھائیوں کے چہروں سے ان کی ناراضگی کا اظہار ہوتا تھا اور ان سب کے رویے بھی یہی بتاتے تھے۔ لیکن وہ زبان سے اس بات کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ ان کی والدہ اور بستی کے اور لوگ ان کے بارے میں سوچتے رہتے کہ ان بھائیوں کے رویوں میں یہ تبدیلی کیسے آگئی ہے۔ ایک دن ایک بھائی نے دوسرے بھائی سے کہا کہ کیا بات ہے کہ تم ناراض ناراض سے لگتے ہو۔ وہ کہنے لگا اچھا اب ہمدردیاں جتانے آگئے ہو۔ لوگوں کے سامنے میری شکائتیں کرتے ہو اور گھر میں ہمدردی جتانے لگ جاتے ہو۔ تم خود کو عقل مند سمجھتے ہو یا مجھے کم عقل سمجھتے ہو۔ پھر ایک بھائی نے والدہ کو شکائت لگائی کہ فلاں بھائی نے فلاں شخص کے سامنے میرے بارے ایسی ایسی باتیں کی ہیں۔ جوں جوں دن گزرتے گئے یہ سلسلہ بھی بڑھتا گیا۔ ان کی والدہ ان بھائیوں کو کہتی کہ تم لوگوں کی باتوں پر کوئی توجہ نہ دو۔ یہ سب باتیں میں سمجھتی ہوں تم نہیں سمجھتے ۔ جو لوگ بھی تم سب کو ایسی باتیں کہتے ہیں کہ تیرا فلاں بھائی تیرے بارے میں یوں کہہ رہا تھا۔ فلاں بھائی نے تیرے بارے میں یہ کہا ہے وہ کہا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ تم اسی طرح مل جل کر رہو۔ ان لوگوں کو تو یہ سوچ سوچ کر نیند بھی نہیں آتی کہ تم چاروںبھائی ایک ساتھ مل جل کر اتفاق اور اتحاد سے کیوں رہ رہے ہو۔ وہ تمہارے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں تاکہ تمہیں ایک دوسرے سے نفرت ہو جائے۔ تم ایک دوسرے سے جدا جدا ہو جاﺅ۔ وہ چاہتے ہیں کہ تم ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہ کرو ۔ وہ تم سب بھائیوں کے درمیان نفرت کا بیج بوکر جلد ہی اس کو جوان کرنا چاہتے ہیں۔ تم سب سے جو بھی اب کے بعد ایسی بات کہے تو اس کو جواب دے دو کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ مجھے اپنے بھائی پر اعتماد ہے وہ میرے بارے ایسی باتیں نہیں کر سکتا۔ ان چاروں بھائیوں کو بستی اور علاقہ کے دیگر بزرگ بھی سمجھاتے رہے ۔ کہ تم ان لوگوں کی باتوں پر توجہ نہ دو۔ وہ چاروں بھائی تھے کہ ان کوکسی کی بات پر یقین بھی نہیں آتا تھا۔ بھائیوں کے درمیان نفرت کی آگ بڑھکتی رہی۔ رشتہ داروں اور خاندان کے بزرگوں کی کوششیں ناکام ہوتی گئیں۔ سب بھائی شادی شدہ تھے ۔ چار چار ، پانچ پانچ بچوں کے باپ تھے۔ رشتہ دار اور دوست احباب ان کو کہتے کہ آپس میں لڑائی جھگڑا اچھا نہیں ہوتا۔ تم سب صاحب اولاد ہو تمہارے بچے تمہاری روز روز کی لڑائی پر کیا سوچتے ہوں گے۔ ان چاروں بھائیوں پر رشتہ داروں اور دوستوں کی ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ ان بھائیوں کو یہ بھی کہا جاتا رہا کہ یہ لوگ اب تو تمہیں ایک دوسرے سے لڑا رہے ہیں پھر یہ تم سب کو الگ الگ کرکے ماریں گے۔ تم پر ظلم کریں گے۔ جو کچھ تمہارے پاس ہوگا وہ چھین لیں گے۔ پھر نہ تمہارا کوئی بھائی تمہاراساتھ دے گا اور نہ ہی کوئی اور ۔ پہلے ان کی زمینیں تقسیم ہوئیں۔ تقسیم کرنے والے علاقہ کے ملک صاحب تھے انہوں نے ان کی زمین تقسیم کرنے سے پہلے کہاکہ اگر ہم تمہاری مرضی سے تقسیم کرتے ہیں تو یہ کبھی بھی نہیں ہو گی۔ اس لیے جیسے ہم تقسیم کریں تم سب کو وہ تقسیم قبول کر نی ہوگی۔ چاروں بھائی ان کی اس ساش کو نہیں سمجھتے تھے ۔ اس لیے اس بات پر آمادگی ظاہر کردی۔ انہوں نے تقسیم ایسے کی ۔ سب کو اپنی اپنی زمین میں جانے کیلئے ایک دوسرے کی زمین سے خود بھی گزرنا پڑتا تھا اور پانی بھی سب کو ایک دوسرے کی زمین سے گزارنا پڑتا اور ٹریکٹر بھی ۔ کچھ عرصہ ایسا ہوتا رہا اور بھائیوں میں لڑائی نہ ہوئی۔ پہلے ان کی زمینیں تقسیم کی گئیں۔ پھر ان کی چولھے بھی الگ الگ ہو گئے آخر میں ان کے مکان بھی الگ الگ کر ادیے گئے۔ ان سب بھائیوں کو آپس لڑانے کا سلسلہ نہ رکا کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا۔ کبھی کسی کی بکری کھول کر دوسرے کی بکریوں میں باندھ دی جاتی اور پھر جس کی بکری ہوتی اس کو کہتے کہ دیکھ تیری بکری فلاں لے گیا ہے۔ پھر ان دونوں بھائیوں کے درمیان لڑائی شروع ہو جاتی۔ وہ کہتا کہ مجھے تو علم نہیں۔ پہلا کہتا کہ مجھے بیوقوف بناتے ہو۔ بکری تمہاری بکریوں میں بندھی ہے اور تم کہتے ہو کہ تمہیں علم ہی نہیں ہے۔ پھر الگ الگ سب سے کہا گیا کہ تمہاری زمین ہے تم کسی کو گزرنے دو یا نہ گزرنے دو یہ تمہارا حق ہے۔ جو بھی گزرتا ہے وہ تمہارا نقصان کرتا ہے۔ تیرے بھائی تو جان بوجھ کر تیری فصل اجاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے ان کو اور ان کے فصلوں کیلئے لگائے جانے والے پانی اور ٹریکٹر وغیرہ کو نہ گزرنے دو اگر تم نے ان کو نہ روکا۔ تو تمہاری محنت ضائع ہو جائے گی۔ پھر ایسا ہی ہوا ۔ کوئی بھائی کسی کو اپنی زمین سے گزرنے نہیں دیتا تھا۔ اسی وجہ سے ان میں آئے روز لڑائی بھی ہو جاتی۔ کیونکہ ان کی زمینوں کی تقسیم ہی اس طر ©ح کی گئی ان کو نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی زمین سے گزرنا پڑتا تھا۔ سب بھائیوں نے ایک دوسرے کے گھر جانا اورایک دوسرے سے بول چال بھی بند کر دی۔ ایک بھائی نے اپنے رقبہ میں پودا لگا یا تو جس دوسرے بھائی کی زمین ساتھ تھی اس کو کسی نے کہا کہ تجھے تیرے بھائی کی سازش سمجھ نہیں آئی ہم تجھے سمجھاتے ہیں ۔ کہ یہ پودا جب درخت بن جائے گا تو اس کی چھاﺅں تیری فصل پر پڑے گی جس سے تیری فصل پیداوار کم دے گی۔ اس لیے ابھی جا اور اس پودے کو اکھیڑ کر پھینک دے۔ اس نے ایسا ہی کیا اتنے میں جس بھائی نے یہ پودا لگایا تھا وہ آگیا اور کہا کہ تیری جرات کیسے ہوئی ہے کہ تو نے یہ پودا اکھیڑا دیا ہے اس نے کہا تو نے پھر یہ پودا لگا یا تو میں یہ کردوں گا وہ کردوں گا ۔ اسی تو تو میںمیں میں دونوں کی لڑائی ہو گئی۔ پہلے ان کے بچے آپس میں کھیلتے تھے ۔ اکٹھے سکول جاتے۔ ان بھائیوں سے کہا گیا کہ اپنے بچوں کو اپنے بھائیوں کے بچوں کے ساتھ نہ کھیلنے دیا کرو اور نہ سکول جانے دیا کرو ۔ یہ سب باتیں ایک دوسرے کو بتاتے ہیں جس کی وجہ سے تمہارے منصوبے ناکام ہو جایا کرتے ہیں۔ سب نے اپنے اپنے بچوں کو ایک دوسرے کے ساتھ کھیلنے اور سکول جانے سے روک دیا۔ ان کا ایک لڑکا راستہ سے گزررہا تھا ۔ کہ اس کا ایک چچا زاد بھائی کو دیکھا کہ وہ رسیوں سے باندھا ہوا ہے۔ اس کے سر سے خون بہہ رہا ہے ۔ وہ بھاگ کر گھر گیا اپنے گھر بتا یا اور اس چچا کو بھی بتایا جس کا بیٹا تھا ۔ سب بھاگ کر گئے تو ویسا ہی پایا جیسا کہ لڑکے نے بتایا تھا ۔ اس کو اٹھا کر سب ہسپتال پہنچ گئے۔ اس کا علاج سب نے مل کرکرایا ۔ ان کے مخالفین نے یہ دیکھا تو ان کی نیندیں اڑ گئیں۔ بھائیوں نے ایک دن سوچا کہ ہماری زمین درست تقسیم نہیں ہوئی ۔ اس کو پھر سے تقسیم کرایا جائے اور ہر بھائی کی زمین ایک ساتھ ہو یوں ٹکڑیوں میں نہ ہو۔ پھر ملک صاحب کو بلایا گیا۔ جب زمین پھر سے بھائیوں کے کہنے پر تقسیم کی جانے لگی تو ان میں سے جو سب سے چھوٹا تھا اس کو کسی نے کہا کہ تجھے سب بھائی اپنے سے گھٹیا سمجھتے ہیں۔ ا س کا ثبوت یہ ہے کہ فیصلہ تیرے ہاتھ میں دے دیا جائے گا اور کہا جائے گا یہ اپنی سائیڈ خود چن لے باقی بھائی اپنا فیصلہ کر لیں گے۔ تو نے نہیں ماننا اور کہنا کہ میں ایسا نہیں کرتا میں ساری زندگی بھائیوں کا احسان مند نہیں رہ سکتا۔ پنچائت شروع ہوئی تو ویسا ہی ہوا اس سے کہا گیا تو سب سے چھوٹا ہے اس لیے جس طرف سے چاہے اپنی زمین لے لے اس نے ویسا ہی کہا جیسا کہ اس کو کہا گیا تھا ۔ یوں آٹھ گھنٹے تک جاری رہنے والی پنچائت ناکام ہو گئی۔ اس کے بعد ایک بھائی پر کسی نے ڈکیتی کا پر چہ کرادیا۔پھر سب بھائی تھانے پہنچ گئے۔ پھر عدالت میں بھی سب بھائی ایک ساتھ جاتے۔ اسی طرح جب بھی ان پر مشکل وقت آتا وہ سب ایک ہو جاتے۔ ان کے ایک بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوا تو سب بھائیوں نے کام چھوڑ کر اپنے بھائی کے علاج پر توجہ مرکوز کرلی۔ اسی طرح پاکستان کے سیاستدان بھی ایک دوسرے سے سیاسی لڑائیاں لڑتے رہے۔ ایک دوسرے کی حکومتوں کے خلاف تحریکیں چلاتے رہے۔ ہڑتالیں کراتے رہے۔ ان کی ماں دھرتی کہتی رہی کہ یہ بات اچھی نہیں کہ تم ایک دوسرے سے لڑتے رہو۔ تم سب پاکستانی ہو اور تمہیں پاکستانی ہو کر رہی رہنا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے آپس میں اختلاف بھی کرائے جاتے رہے اور سیاسی جماعتوں کے اندرونی اختلافات کو بھی ہو ا دی جاتی رہی ۔ سب نے ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے میں خوب کردار ادا کیا۔ اس کے نتائج بھی سب کو بھگتنا پڑے۔ ملک میں جتنے بھی مارشل لاءلگے یا ایمرجنسی دور حکومت آئے سب سیاستدانوں کی آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے آئے۔ ان سیاستدانوں نے اپنی غلطیوںسے سبق سیکھ تو لیا ہے تاہم ابھی اور بھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ اس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ ابھی وج دور حکومت ختم ہوا ہے اس میں وہ باتیں دیکھنے کو نہیں ملیں جو پہلی حکومتوں کے دور میں ملا کرتی تھیں۔ اس دور میں کسی بھی سیاسی جماعت نے حکومت ختم کرانے کیلئے نمایاں تحریک نہیںچلائی۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ اس دور حکومت میں سیاستدانوں نے مجموعی طور پر یکجہتی کا ہی مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے آپس کے اختلافات اپنی جگہ برقرار ہیں لیکن جب بھی ملک پر مشکل وقت آیا تو سب سیاستدان ایک ہو گئے۔ ان میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا تھا۔ سب سے پہلے عدلیہ کی بحالی کا مسئلہ تھا وہ جیسے حل ہو اوہ سب کے علم میں ہے۔ یہ مسئلہ بھی سیاستدانوں کی کوششوں سے ہی حل ہوا۔ جس وقت اس حکومت نے اقتدار سنبھالا تو ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں تھا۔ ہر طرف دہشت گردی کی وارداتیں ہو رہی تھیں۔ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرائے جارہے تھے۔ ملک خود کش حملوں اور بم دھماکوں کی زد میں آیا ہوا تھا۔ سکول ۔، ہسپتال ، گھر، جنازے، قل خوانی کی محافل ، بازار ریلوے اسٹیشن کوئی جگہ بھی دہشت گردی کی لپیٹ سے باہر نہ تھی۔ قوم کی طرف سے مطالبہ کیا جانے لگا کہ حکومت اس سلسلہ میں اپنی پالیسی تبدیل کرے۔ آنکھیں بند کرکے اغیار کی باتوں پر عمل نہ کیا جائے بلکہ خوب سوچ سمجھ کر اس کے بارے میں مناسب رد عمل ظاہر کیا جائے۔ قوم کے ساتھ ساتھ سب سیاستدان اور حکومت پاکستان اس جنگ سے چھٹکارہ چاہتے تھے۔ اس لیے اس جنگ سے نکلنے کیلئے بھی قوم اور سیاستدانوں کی طرف سے دباﺅ بڑھتا گیا۔ حکومت نے اس مقصد کیلئے ان کیمرہ اجلاس بلایا اس میں ملک کی تمام سیاسی قیادت بھی تھی اور عسکری قیادت بھی۔ اس میں سیاستدانوں نے اپنے اس جنگ کے سلسلہ میں اپنے اپنے تحفظات بھی ظاہر کیے۔ ان کے اذہان میں جو سوال تھے وہ بھی سامنے رکھے ۔ اور عسکری قیادت نے ان کیمرہ اجلاس کو حقائق سے آگاہ کیا ۔ اسی اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف اس اجلاس میں ایک لائحہ عمل بھی تیار کیاگیا کہ ہم نے اس جنگ سے کس طرح چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے کیا کیا کریں گے۔ اس اجلاس کے اس اعلامیہ پر کہاں تک عمل ہوا اور کہاں تک عمل نہیں ہوا۔ اس بارے یا تو سیاسی قیادت ہی بہتر بتا سکتی ہے یا عسکری قیادت۔ اہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اس اعلامیہ پر کچھ نہ کچھ عمل ضرورہوا ہے۔ اس اجلاس سے یہ بات تو طے ہے کہ قوم کی طرح ہماری قیادت بھی اس سے باہر نکلنا چاہتی تھی۔ اب بھی وہ ایسا ہی چاہتی ہے اس کیلئے اس کو مناسب موقع کی تلاش ہے۔ اس کے بعد جب سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو فورسز کی طرف سے فائرنگ کی گئی ۔ جس سے ہمارے متعدد فوجی جوان شہید ہوگئے۔ تو اس وقت بھی پوری قوم اور پوری سیاسی قیادت ایک ہو گئی۔ قوم کی طرف سے ایک بار پھر یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ حکومت اپنی خارجہ پالیسی از سر نو ترتیب دے۔ اس کیلئے امریکہ سے احتجاج بھی کیا گیا۔ اس طرف سے جواب ملا کہ نیٹو فورسز نے یہ حملہ جان بوجھ کر نہیں کیا۔ اس طرح امریکہ نے اس معاملہ کو ٹالنے کی کوشش کی۔ قوم کی طرف سے تو مطالبہ تھا امریکہ سے اس حرکت کا جواب لیا جائے۔ مگر حکومت نے احتجاج تو کیا ۔ اور کوئی قدم نہ اٹھایا ۔ اس کے کچھ عرصہ بعد امریکہ نے ایبٹ آباد میں ایک مکان پر رات کے اندھیرے میں حملہ کر دیا ۔ جس میں اس نے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے اس مکان میں اسامہ کو ماردیا گیا ہے۔ اس کی ڈیڈ باڈی چھپالی گئی۔ پہلے کہا گیا کہ اس کی ڈیڈ باڈی امریکہ لے جائی گئی ہے۔ پھر کہا گیا کہ اسامہ کی لاش کو دریا میں ڈال دیا گیا ہے۔ امریکہ میں سمندری طوفان آیا۔ تو کسی نے کہا کہ اسامہ نے امریکیوں سے بدلہ لیا ہے کہ اس نے یہ طوفان بھیجا ہے۔ ایبٹ آباد میں امریکہ کے اس حملہ کے بعد قوم پھر ایک ہوگئی ۔ اس نے حکومت سے پھر مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے الگ ہو جائے۔ اس حملہ کے بعد ایک بار پھر ان کیمرہ اجلاس ہوا ۔ اس میں بھی سیاسی اور عسکری قیادت نے مل کر اس جنگ کے بارے میں مل کر سوچا اور ایک بار پھر ایک مشترکہ لائحہ عمل تیا ر کیا۔ اس حملہ کے بعد حکومت پاکستان نے اپنی پالیسی تبدیل کرلی۔ جو ہوائی اڈے امریکہ کے استعمال میں تھے۔ وہ اس سے واپس لے لیے گئے۔ عوام کو یہ یقین نہیں آرہا تھا کہ امریکہ یہ ہوائی اڈے خالی کر دے گا۔ امریکہ نے وہ ہوائی اڈے خالی کر دیے۔ دو مرتبہ نیٹو سپلائی معطل کی گئی۔ دونوں مرتبہ نیٹو سپلائی معطل کرنے سے پہلے وزیراعظم نے ملک کی تمام سیاسی قیادت سے مشاورت کی ۔ تمام سیاسی قیادت نے نیٹو سپلائی معطل کرنے کی حمایت کی۔ جس کے بعد حکومت نے نیٹو سپلائی معطل کردی۔ دونوں مرتبہ یہ سپلائی بحال کرانے کیلئے امریکہ نے ہر حربہ استعمال کیا مگر ناکام رہا۔ کراچی میں مہران بیس اور جی ایچ کیو پر بھی دہشت گردانہ حملے ہوئے۔ ان دونوں حملوں نے قوم کو سکتے میں ڈال دیا۔ قبائلی علاقوں میں حکومت نے شروع میں تو آپریشن کیے پھر اس نے پالیسی تبدیل کر لی۔ اس نے امریکہ کے بار بار دباﺅ کے باوجود اس نے نہ تو حقانی نیٹ ورک کے خلاف آپریشن کیا اور نہ ہی اس نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کیا ۔ اس سے پہلے بھی چند آپریشن حکمت عملی تبدیل کر کے کیا ۔ اس کے علاوہ بھی سیاستدانوں اکثر اہم معاملات پر اتفاق رائے کا ہی مظاہر کیا۔ 1973ءکا آئین اس کی اصل شکل میں بحال کیا۔ ملک میں صدارتی نظام نافذ تھا۔ اس کو بدل کر پارلیمانی نظام رائج کیا۔ کنکر لسٹ کا مسئلہ کئی دہائیوں سے لٹکا ہو اتھا۔ وہ اس دور حکومت میں حل ہوا۔ صوبائی خود مختیاری ایک دیرینہ مطالبہ تھا ۔ اس بارے بھی کام ہوا۔ صوبوں کو صوبائی خود مختیاری دی گئی۔ اس کے بعد بہت سے وفاقی محکمے صوبائی محکمے بن گئے۔ اگرچہ صوبے ابھی تک صوبائی خود مختیاری میں خود مختیار نہیں ہوئے ۔ تاہم ایک وقت آئے گا۔ کہ صوبے صوبائی طور پرخود مختیار ہو جائیں گے۔ این ایف سی ایوارڈ کا مسئلہ حل کیا گیا۔ ایران سے گیس پائپ لائن منصوبہ کا معاہدہ کرتے وقت بھی ملک کی سیاسی قیادت ایک ہو گئی۔ کچھ سیاستدانوں کی طرف سے اختلافی بیان آئے تاہم ایسے فیصلے سیاسی اتفاق رائے سے ہی کیے جاتے ہیں۔ صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے خیبر پختونخواہ رکھ دیا گیا۔ جس کے بعد صوبہ ہزارہ کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ اس صوبہ کانام خیبر پختونخواہ کی بجائے خیبر پختون ہزارہ رکھ دیا جاتا ۔ ہزارہ صوبہ کامطالبہ پھر سامنے نہ آتا۔ اس میں بھی ملک کی تمام سیاسی قیادت ایک ہو گئی۔ اور بھی بہت سے معاملات پر ملک کی سیاسی قیادت ایک ہو گئی۔ اسی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں ملک کی سیاسی قیادت نے خاص طور پر اس دور حکومت میں سیاسی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس دور حکومت میں دو سیلاب بھی آئے۔ اس وقت قوم اور سیاستدان ایک ہو گئے۔ انہوں نے مل کر تو کوئی ریلیف کا کام نہیں کیا ۔ ریلیف کا کام سب کرتے رہے مگر الگ الگ۔ اگر چہ کام کرنے والے الگ الگ تھے تاہم کام تو ایک ہی تھا اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں اس معاملہ پر بھی سیاستدان ایک ہو گئے۔ یہ سب فیصلے اور اقدامات اس دور حکومت کے تاریخی فیصلے اور اقدامات تھے۔ اس کے اثرات آنے والے وقت میں سامنے آئیں گے۔ زرداری دور حکومت میں دوررس فیصلے اور اقدامات کیے گئے۔ اب ایک بار پھر سیاستدان نگران وزیر اعظم کا چناﺅ کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس چلا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا نگران وزیراعظم کے تقرر کیلئے اجلاس دو دن جاری رہا۔ دوسرے دن سابق چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ ، سابق جج شرعی عدالت سردار میر ہزار خان کھوسو کو نگران وزیر اعظم مقرر کر دیا ہے۔ یہی فیصلہ وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی باہمی مشاورت سے ہو جاتا تو اس کے اور ہی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی بھی اس سلسلہ میںناکام رہی۔ آخر کار یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کو ہی کرنا پڑا۔ سیاستدانوں نے نگران وزیراعظم کے چناﺅ میں ناکامی ظاہر کرکے اچھا تاثر نہیں دیا۔ نگران وزیر اعظم نے شفاف اور منصفانہ الیکشن کرانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ ان کے تقرر کا تمام اہم سیاستدانوں نے خیر مقدم کیا ہے۔ جبکہ کچھ نے اختلاف بھی کیا ہے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 308567 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.