جمہوریت کی مخالفت یا نیا فتنہ

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم اس دین کے ماننے والے ہیں جس نے ہمیں زندگی گزارنے کا ہر ڈھنگ سکھایاہے اورآنے والے زمانوں کے لیے بھی رہنمائی عطا کی ہے۔ اِن اصولوںپر عمل نہ کرنا ہماری اپنی نا اہلی ہے جس کی وجہ سے ہم نے خود کو بہت سارے مسائل میں الجھا رکھا ہے اور یہی الجھائو اور نا اہلیاں اب ہمارے معاشرے میں شدت پسندی کی وجہ بن چکی ہیں۔ اسلام نے ہمیں اللہ کے کلام اور اس کی کتاب کو مشعل راہ بناکر زندگی گزارنے کی تعلیم دی اور سارے بنیادی اصول سمجھا دیئے اور اس نے ہمیں جدت یا ترقی سے ہر گز منع نہیں فرمایا لیکن آج اگر ہم دیکھیں تو ایک طرف انتہا درجے کے ماڈرن ازم نے دوسری طرف ایک ایسی ذہنیت کو فروغ دیا ہے کہ جو پہلی ذہنیت کی مخالفت کو ہی اسلام کا درجہ دیتی ہے اور یہی ذہنیت طالبان بن کر آج پورے ملک کے لیے ہوا بنی ہوئی ہے ۔ طالبان نے دیگر دہشت گردی کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو خلاف شریعت قرار دے کر اس کے خلاف بھی اعلان جنگ کر رکھا ہے۔آج کل وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں میں جمہوریت کے خلاف ایک پمفلٹ تقسیم کیا جا رہا ہے اور یوں ملک میں ایک اور مسئلہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جمہوریت کی مخالفت کرنے والے اپنی رائے کے لیے ایک عجیب توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ حاکمیت کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے نہ کہ انسان کو جب کہ جمہوریت یہ حق انسان کو دیتی ہے لیکن عرض یہ ہے کہ خلافت ہو یا ملوکیت، بادشاہت ہو یا جمہوریت اقتدار اعلیٰ اللہ تعالیٰ ہی کاہے لیکن اگر اُس نے ہی انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ قرار دیا ہے اورزمین اور انسان پر حکومت کے لیے فرشتوں کو مامور نہیں کیا تو پھر یہ حکمران کون ہوں اور کہاں سے آئیں ظاہر ہے کہ وہ انسان ہی ہونگے اور قرآن اور سنت نے ہمیں جو رہنما اصول دیئے ہیں تو اُن کی روشنی میں مرتب کیا گیا نظام حکومت یا آئین بھی قابل قبول ہونا چاہیے ۔

اگر اللہ تعالیٰ باہم مشورے کا حکم دیتا ہے اور حکم بھی پیغمبر کو دیتا ہے کہ باہم مشورہ کیا کرو تو کیا اُس نبی کی غلامی کا دعویٰ کرنے والے نعوذباللہ اُن سے زیادہ عقل کا دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں مشورے کی ضرورت نہیں۔ چلئے اگر یہ دعویٰ نہیں کرتے تو آخر مشورہ کس سے کیا جائے ظاہر ہے کہ اس کے لیے ایک مجلس شوریٰ ہو لیکن آج کے زمانے میں جبکہ صرف ملک پاکستان میں مسلمانوں کی آبادی سترہ اٹھارہ کروڑ ہے اِن میں سے متقی ترین لوگوں کا انتخاب کیسے ہو اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی محل نظر ہو کہ میڈیا کے اس دور میں کسی پر الزام لگانا ، تضحیک کرنا اور تذلیل کرکے اس کے کردار کو مشکوک بنانا بھی انتہائی آسان ہے ایک مدرسے کا پڑھا ہوا دوسرے کو کافر بھی آسانی سے قرار دیتا ہو تو تقویٰ کی پیمائش کیسے ہو۔ سوشل میڈیا پر جمہوریت کے خلاف جن آیات کا حوالہ دیا جا رہا ہے کہ کم تعداد زیادہ تعداد پر غالب آجائے گی تو وہ کفر اور اسلام کے مقابلے کا ذکر ہے قرآن پاک کی اپنی مرضی کے مطابق توضیح بھی عین خلاف اسلام ہے۔

اگر نبی پاک ö کی وفات کے وقت مسلمانوں نے حضرت ابوبکر صدیق(رض) کو کثرت رائے سے اپنا خلیفہ منتخب کیا تھا تو اب کثرت رائے کی مخالفت کیوں۔ یہ بات بھی تسلیم ہے کہ حضرت ابوبکرصدیق(رض) نبی پاک ö کے سب سے قریبی ساتھی تھے لیکن اس کے باوجود کثرت رائے کی ضرورت پڑی تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ حکم ماننے کو تیار رہیں اور نظام مملکت چلانا ممکن رہے۔ ان کے بعد حکومت اُن کے بیٹوں کو منتقل ہوئی نہ حضرت عمر(رض) و عثمان(رض) و علی (رض) کے بعد ایسا ہوا بلکہ ان کا کونسل کے ذریعے یا کثرت رائے کے ذریعے لیکن انتخاب ہی ہوا جب کہ اِن میں سے کو ئی بھی دوسرے سے تقویٰ میں کم نہ تھا۔

آج کی جمہوریت اور انتخاب کا اگر اُس زمانے سے موازنہ کیا جائے تو بلاشبہ اس میں فرق ہے یہ اتنی پاکیزہ ہر گز نہیں ہے لیکن اس کا مطلب نظام کی خرابی نہیں۔پاکستان بننے کے بعد آئین بنانے کے لیے جن نکات کو بنیاد بنا یاگیا اور اُسے قرار داد مقاصد کی شکل میں آئین پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا اگر انہی نکات کو لیا جائے اور اسے مملکت وریاست کی بنیاد بنا دیا جائے تو جمہوریت بذات خود ایک اسلامی طرز ِحکومت بن جاتی ہے۔

طالبان جس مکتبہ فکر کی ترجمانی کرتے ہیں اسلام اس سختی کا روادار ہی نہیں ۔ اسلام انسانی جان کو مقدس ترین قرار دیتا ہے اور بے گناہ کو گناہ گار کے جرائم کا ذمہ دار نہیں مانتا اور گردانتا لیکن طالبان حکومت سے اختلاف کی بنا پر ملک میں رہنے والے ہر بڑے بچے ، مرد اور عورت کو قابل قتل سمجھتے ہیں چاہے وہ راہ چلتا یا سڑک کے کنارے روزی کمانے کے لیے پتھر کوٹنے والا ایک مزدور ہی کیوں نہ ہو یا ایک دودھ پیتا شیرخوار بچہ ہی کیوں نہ ہو یاایک پردہ دار اور گھر دار خاتون خانہ ہی کیوں نہ ہو۔ اگرطالبان کسی ایسے ہی نظام حکومت کے لیے بر سر پیکار ہیں تو حکومت کو اس چیز کا نوٹس لینا چاہیے اور ایک نئے فتنے کو پھیلنے سے پہلے روک لینا چاہیے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ووٹ کی اہمیت کو عوام کو سمجھانا ہوگا انہیں یہ بتانا ہوگا کہ ووٹ بکائو نہیں ہونا چاہیے اور اپنے نمائندے منتخب کرتے ہوئے یہ احتیاط لازم رکھنی ہے کہ وہ کون ہیں اور کیسے لوگ ہیں ۔کروڑوں لوگوں میں سے اچھی منتخب قیادت لانے کے لیے ظاہر ہے ووٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے لیکن اس سے پہلے عوام میں شعور پیدا کرنا انتہائی ضروری ہے ۔

آج کی دنیا میں رہنے کے لیے ہمیں دین کے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایسا لائحہ عمل مرتب کرنا ہے کہ ہم دنیا کا مقابلہ کر سکیں اور یہ سب ہم جمہوریت اور جمہوری طرز عمل میں کر سکتے ہیں۔ بادشاہت اور حاکمیت صرف اللہ کی ذات کو ہی سزاوار ہے لیکن زمین پر نظام مملکت و حکومت چلانے کے لئے ظاہر ہے انسان ہی کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ خود اللہ نے اس کو اپنا خلیفہ قرار دیا ہے لہٰذا اس سے انکار کرنا بھی مذہبی طور پر روا نہیں بلکہ ایک اور طرح کی انتہا پسندی ہے جس کا بروقت تدارک اور قلع قمع ضروری ہے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 513604 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.