مولانا ولی خان المظفر

مولانا ولی خان المظفر صاحب جامعہ فاروقیہ کے فا ضل ہیں اور سالہا سال سے جامعہ میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں،آپ استاذ حدیث اور معھد اللغۃ العربیۃ کے انچارج اور تخصص فی الادب العربی کے نگران ہیں، آپ عربی زبان کے مایہ ناز ادیب ہیں، اردو ادب کے ساتھ بھی گہرا لگاؤ ہیں، وقتا فوقتا آپ کے اردو کالم اخبارات میں چھپتے رہتے ہیں، جبکہ عربی مضامین بھی عرب ممالک میں موقر جرائد میں چھپتے رہتے ہیں مزید برآں الفاروق عربی رسالے کے ایڈیٹر اورصدر وفاق المدارس العربیۃ پاکستان سماحۃ الشیخ مولانا سلیم اﷲ خان صاحب کے سکریٹری ہیں ،علمی میدان میں آپ کی قابل قدر خدمات ہیں آپ اتحادامت اسلامیۃ کے پرزورداعی ہیں، ان کے خیالات وافکارکونذر قارئین کرتے ہیں

٭ اپنے تعارف اور خاندانی پس منظر کے حوالے سے کچھ فرما ئیے
ہمارا تعلق سوات کے یوسف زئی پختون قبیلے کی ایک شاخ چغر زئی سے ہے ،جو موجودہ ضلع شانگلہ اور آس پاس کے علاقوں میں لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں ایک پس ماندہ اور تمدن وترقی سے یکسر محروم خطہ ہونے کے باعث یہاں کے لوگ ناخواندہ اور غریب ہیں اور خال خال ہی کو ئی بچی دینی یا عصری تعلیم قا بل ذکر کامیابی سے حاصل کرتاہے ،ویسے دینی تعلیم کا رجحان ہے مگر وسائل اور ما حول کی عدم فراہمی کے باعث عموماً کوئی خاص پیش رفت اور معتد بہ ترقی کا موقع نہیں ملتا، میں نے والدصاحب کے دینی ذوق اور علم دوست مزاج اور کچھ اپنے شوق سے تمام تر ناہمواریوں اور حوصلہ شکنیوں کے باوجود چاہا کہ کسی قابل ہو کر ملک اور قوم کے لئے کوئی کام کرجاؤں اور اس کے لئے محنت کی ․الحمد ﷲ اﷲ نے تو قعات سے بڑ ھ کر نوازش فرمائی ۔

٭ ابتدائی تعلیم آپ نے کہاں سے حاصل کی ہے ؟
ابتدائی تعلیم عام دستور کے مطابق اپنے گاؤں ہی سے شروع کی ،پھر حضرت والد صاحب کی خواہش اعلی تعلیم کی غرض سے کراچی کا رخ کیا اور زیادہ تر عالم اسلام کے عظیم علمی مرکز جامعہ فاروقیہ کراچی میں تعلیمی مراحل مکمل کئے ۔

٭ فراغت کے بعد آ پنے درس وتدریس کو اختیا ر کیا ،یہ آپ کی مجبوری تھی یاشوق ؟
کسی بھی میدان میں امت کے مفید بننے کے لئے علمی پختگی ضروری ہے ،درس وتدریس ہی ایک ایسا مشغلہ ہے جس میں دینی علوم کی خد مت کے ساتھ ساتھ ایک طالب علم کی صلاحیتیں بھی خوب اجاگر ہوتی ہیں اورعلم میں پختگی اور گہرائی وگیرائی آجاتی ہے ۔

٭ جامعہ فاروقیہ کو آپ نے کیوں اختیار کیا ؟اور یہاں پڑھاتے ہوئے کتنا عرصہ ہوا ؟
جامعہ فاروقیہ میری مادر علمی ہے اس سے میرا قلبی لگاؤ اور عقیدت مندانہ تعلق ہے بانی جامعہ سماحۃ الشیخ حضرت مولانا سلیم اﷲ خان صاحب کو میں اس زمانے کا مجدد سمجھتاہوں ، آپ کے اس تجدیدی اور عالم گیرمزاج کے سبب جامعہ فاروقیہ شروع سے مختلف شعبوں اور مختلف میدانوں میں کام کے لئے مشہور ہے ،میر ی افتادطبع میں بھی اس سے ہم آہنگی تھی اس لئے میں نے یہیں سے اپنے علمی زندگی کے آغاز کی خواہش ظاہر کی جسے نوعمری اور نالائقی کے باوجود میرے شیخ نے شرف قبولیت بخشی اور آج بیس سالہ خدمت کے بعد جو کچھ ہوں جامعہ اور بانی جامعہ کی طفیل ہوں ۔

٭ آپ نے بہت سارے فنون میں سے ادب عربی کو کیوں خاص طور پر منتخب کیا ؟حالانکہ عموماً لوگ صرف ونحو اور تفسیر وفقہ وغیرہ کو لیتے ہیں ؟
دراصل ہمارے دینی مدارس جن کو کچھ ہی زمانہ پہلے عربی مدارس کہا جاتاتھا اور اب بھی وفاق المدارس العربیۃ میں عربی مدارس کا ذکر ہے ان کا مقصد تأسیس ہی عربی زبان سیکھنا سکھانا ہے ،اور ظاہر ہے کہ کسی بھی دوسری زبان کی طرح عربی بھی گرائمر (صرف ونحو )کے بغیر نہیں سیکھی جاسکتی ہے سو صرف ونحو کی تعلیم ضروری ہوئی مگر ایسا بھی نہیں ہونا چاہیئے کہ گرائمر کو مقصود بالذات سمجھ لیا جائے اور اسی پر اکتفا کیا جائے․مگر بد قسمتی سے ہمارے ہا ں گذشتہ ایک عرصے سے ایسا ہی ہورہاہے حالانکہ دس بارہ سال عربی ہی عربی پڑھنے کے بعد آپ کو عربی پڑھنا لکھنا بولنا سب آنا چاہیئے اور اس کے مختلف اسالیب باریکیوں ،فصحی اور عامیہ میں فرق اور دونوں پر عبور حاصل کر ناچاہیئے ،مجھے شروع ہی سے یہ بات محسوس ہو ئی اور پھر میں اس کے درپے ہوا تو کچھ نہ کچھ کر گیا میں نے ہمیشہ یہ بات بہت زیادہ محسوس کی ہے کہ عالم کو جدیدعلوم اور انگریزی تو نہیں آئی چلیں خالص عربی علوم میں مشغول رہنے اور ماہر دینیات بننے کی خواہش کی بنا پر مگر عربی نہ آنے کا تو اس کے پاس کوئی جواب اور جواز نہیں ،عرب ملکوں میں جانے والے عام لوگوں سے بھی ہم نے مولویوں پر عربی نہ آنے اور نہ سمجھنے کا اعتراض بکثرت سناہے ۔

٭ کیا اردو ادب کے ساتھ بھی دلچسپی رہی ہے ؟
ادب من حیث الادب کے طور پرتو ہم نے اردونہیں پڑھی ،ہاں اردو زبان میں ادب ،تاریخ ،جغرافیہ ، سیاست ،افکار ونظریات اور شخصیات کے متعلق ہم نے بہت پڑھاہے مختلف شعراء کو بھی ہم نے پڑھاہے ،اردو سے پاکستان میں مستغنی یا غافل رہنا تو ممکن بھی نہیں ہے۔

٭ ایک غیر عربی ملک میں آپ نے عربی پر عبور کیسے حاصل کیا جبکہ یہاں اس کا ماحول بھی نہیں ہے اور اس کی طرف توجہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے ۔
ہمارے دینی مدارس کے قیام کا مقصد جب عربی زبان سیکھنا سکھانا ہے تو پھر عربی پر عبور حاصل کرنا عجیب نہیں بالکل قرین قیاس ہے ہاں چونکہ مدارس میں لینگویج پر توجہ نہیں دی جاتی اور لغوی اعتبار سے اس کی تعلیم قد ر خشک ہے اس لئے عربی میں مہارت حاصل کرنے کے لئے محنت بہت کرنی پڑتی ہے میں نے ایک عرصے تک دیوانہ وار اس کے لئے محنت کی ہے جس کا ثمرہ مجھے اﷲ کے فضل سے مل گیا ہے،ہمارے ہاں جامعہ فاروقیہ میں عرب اخبارات اور میگزین بھی بکثرت آئے ہیں اس کا بھی ہمیں بہت فائدہ ہواہے ۔

٭ عربی زبان کی ہمیں کیا ضرورت ہے ؟
عربی زبان کا شمار دنیا کی بڑی زبانوں میں ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اتحاد بین الامت کا بھی بہترین ذریعہ ہے جس کی بدولت آپ امت کے بکھرے شیرازے کو احسن طریقے سے یک جاکر سکتے ہیں اور پھر یہی نہیں بلکہ ہماری ثقافت ،ہمارے مذہب اور تمام اسلامی علوم وفنون کاتو خزینہ ہی عربی زبان وادب کے ساتھ وابستہ ہے اس لئے ان علوم سے واقفیت ہونے کے لئے بھی عربی زبان سے واقف ہونا نہایت ضروری ہے ۔

٭ کیا یہ کہا جاسکتاہے کہ جامعہ فاروقیہ میں معہد اللغۃ العربیۃ اور تخصص فی الادب العربی کا قیام آپ کی کوششوں کا نتیجہ ہے ؟
معہد اللغۃ العربیۃ کا قیام چونکہ ہمار ے مدارس کے لئے ایک نیا اور جدید شعبہ تھا ،اس لئے سماحۃ الشیخ حضرت مولانا سلیم اﷲ خان صاحب کے حکم سے حضرت مولانا ڈاکٹر عاد ل خان صاحب کی نگرانی میں کمیٹی بنادی گئی جس کے ارکان میں میرے علاوہ مولانا غلام اکبر قادر ،مولانا محمد عیاض علی مہر ،مولانا اسلام الدین ، مولانا حسین رشید ، مولانا اسماعیل بلتی اور مولانا شفیق احمد بستوی تھے ،ابتداء میں کچھ مشکلات تو پیش آئیں لیکن الحمد ﷲ چند ہی برس بعد یہ شعبہ اپنی ترقی کی منازل طے کرنے لگا ،جہاں تک تخصص فی الادب العربی کا تعلق ہے وہ حضرت شیخ الحدیث دامت برکاتہم کی خصوصی دلچسپی سے قیام میں آیا اور پھر ہم نے معہد کی طرح اس کی کامیابی کے لئے بھی سر دھڑ کی بازی لگائی ۔

٭ پاکستان کا قومی زبان قرار داد مقاصد اور دستور پاکستان عربی زبان کو قرار دیاگیا تھا تو اس پر عمل کیوں نہیں ہوا ؟
قیام پاکستان کے بعد اکابر علماء کرام اور دین دار طبقہ کی یہی خواہش اور کوشش رہی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قومی زبان عربی ہی ہو نی چاہیئے لیکن بعض نادیدہ قوتیں ان کوششوں کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ بنی رہی جس کے نتیجے میں وہ خواہش اور کوشش بار آور ثابت نہ ہوسکیں۔

٭ آپ عربی زبان کہ ترویج واشاعت کو اپنا مشن قرار دیتے ہیں یہ غیر معمولی اہمیت آپ اسے کیوں دیتے ہیں ؟
عربی زبان کی احیا اس لئے لازم ہے مجھے اندیشہ ہے کہ ہمارے مسلم حکمرانوں ، علماء ، دانشوران اور دینی جامعا ت ویونیورسٹیز نے اگر عربی زبان کی ترویج واحیا کے حوالے سنجیدہ محنت نہ کی تو میں سمجھتا ہو ں کہ یہ امت اپنے اسلا ف کے علمی و روحانی زخیرہ سے ہاتھ دھو بیٹھے گی یہی وجہ ہے کہ امام شافعی ؒ اور امام ابن تیمہ ؒجیسے اساطین علم نے عربی زبان کے سیکھنے کو بھی واجب قرار دیاہے کیونکہ احکام دینیہ کے اصل مأخذ تک پہنچنا ہی عربی زبان کے سیکھنے پر موقوف ہے ۔

٭ دین مدارس میں عربی زبان میں درس وتدریس کیا اس کے لئے معاون ثابت نہیں ہوگی یا ایسا ممکن نہیں ؟
الحمد ﷲ دینی مدارس میں اس حوالے سے رجحان پایا جارہا ہے لیکن المیہ یہ باقی رہ جاتا ہے کہ تعلیمی زبان عربی بنانے کے لئے مدرسین کی وہ مقدار موجو د نہیں جس کی اس حوالے سے انہیں ضرورت ہے ۔

٭ تو پھر کونسے ایسے موانع اور اسباب ہیں جو علماء اور عوام کو روک رہے ہیں؟
موانع اور اسباب تو یہاں میرے خیال میں کچھ نہیں ہے کیونکہ بنیادی چیز اس معاملے میں عربی گرائمر سے واقفیت ہونی چاہیئے جس الحمد ﷲ علما ء وطلبا ء کی ایک بڑی تعداد واقف ہیں کوتاہی اگر رہتی ہے تو وہ صرف اس گرائمر کی عملی مشق کی ہے یعنی عربی زبان میں تکلم اگر تکلم کی حد تک عربی زبا ن کو توجہ دیجائے تو میں سمجھتاہوں کہ ایک حد تک کامیابی حاصل ہوسکتی ہے ۔

٭ جناب وفاق المدارس العربیہ پاکستان والے یہ اقدام کیوں نہیں کرتے کہ وہ مدرسے میں امتحانی پرچہ جات کو عربی میں حل کرنے کو لازم قرار دیں ؟
وفاق المدارس والوں کی شروع سے یہ خواہش رہی ہے کہ امتحانی پرچہ جات عربی ہی میں حل کئے جائیں چناچہ آپ نے دیکھاہوگا ہرپرچہ پر یہ نوٹ لکھا ہو موجود ہوتاہے کہ عربی میں پرچہ حل کرنے والا طالب علم اضافی دس نمبر کا مستحق ہوگا ۔

٭ کہا جاتا کہ عربی زبان دنیا کی واحد زبان ہے جو مسلمانوں کو ایک صف میں جمع کرسکتی ہے کیا آپ اس سے متفق ہیں ؟
عربی زبان اس حیثیت سے ایک قوم کو نہیں بلکہ کئیں اقوام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکتی ہے کہ ان اقوام کے خیالات وافکار اور جذبات کی ترجمانی عربی ہی کے ذریعے ہو وجہ اس کی یہ ہے کہ عربی زبان آسمانی تعلیمات کی زبان ہونے کے ناطے کسی نہ کسی حد تک دنیا کی ہر قوم کے لئے جانی پہچانی اور مقدس ہے اور اس کے سبب اسے بقا ء ودوام بھی ملا ہے لہذا دنیا کی مختلف برادریا ں اس کی بدولت ایک صف میں متحد ہوسکتی ہیں ۔

٭ کیا پاکستانی قوم کے اتحاد واتفاق کے لئے بھی سبب بن سکتی ہے ؟
جی ہاں ! پاکستانی قوم اگر لسانی تعصب اور مغرب کے تأثر سے بالاتر ہوکر دین اسلام ہی کی زبان پر متفق ومتحد ہوجائے تو میں سمجھتاہوں کہ اس قوم کی تقدیر ضرور بہتر بن سکتی ہے۔

٭ آپ کی خواہش ہے کہ پاکستان کا ہر نوجوان عربی زبان بولنے والا بنے ؟
جی ہاں !تاکہ اسلاف کی میراث کو ہم نے ثریا سے زمین پر دے ماراہے اس سے ہم پھر وہیں پہنچادیں یا وہ ہمیں پہنچادے ۔

٭ عربی زبان سے رشتہ جوڑنے سے آپ سمجھتے ہیں ہماری تقدیر بدل جائی گی ؟
چونکہ کسی بھی زبان کے سیکھنے اور اس میں دلچسپی کے نتیجے میں اس زبا ن کے کلچر کی طرف بھی رغبت پید اہوجاتی ہے اس لئے ہماری خواہش اور کوشش یہ ہے کہ پاکستانی قوم بھی عربی کے نتیجے میں عرب کے اسلامی کلچر کو اپنا لے تویوں وہ مغربی کلچر سے نجات حاصل کرسکتی ہے۔

٭ مملکت اسلامیہ پاکستان اورعرب ممالک کے درمیان رابطے میں آپ کے خیال می عربی زبان کوئی کردار اداکرسکتی ہے ؟
پھر سب سے بڑا فائدہ اس حوالے سے یہ ہوگا کہ قوم اسلام کی اصل روح سے بخوبی واقف ہوجائی گی اور دوسرایہ کہ جس افتراق نے ہمارے درمیان جنم لے کر ہمیں آ پس میں دست وگریبا ن کر کے رکھ دیاہے اور جس کے نتیجے میں اغیا ر ہم پر ہنستے ہیں وہ افتراق کسی حد تک ختم ہوسکتاہے ۔

٭ آپ رابطۃ الادب الاسلامیۃ العالمیۃ (ریاض)کے رکن ہیں اس حوالے سے آپ کے کیا اہداف ہیں ؟
پاکستانی اور عرب ممالک کے درمیان بون کی بنیادی وجہ دونوں اطراف کے علماء کرام کے درمیان رابطے کا نہ ہونا ہے اس حوالے سے علماء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو مدعو کرکے اور اعلی سطح پر تعارفی دورے کرواکے دونوں طرف موجود خلیج میں پل کا کردار اداکریں ، عربی زبان اس میں بہترین مددگار ثابت ہوگی ہم حتی الوسع اس کی کوشش میں ہیں کہ پوری امت ایک کلمہ توحید پر متفق ہوکر آپس میں بھائی چارگی قائم کر کے تعاون علی البر والتقوی کا عملی نمونہ پیش کریں ۔

٭ آ پ نے اس حوالے سے اس کے لئے کوئی حکمت عملی بنائی ہے ؟
ہمار ے بعض دوستوں نے مختلف اکیڈ میز اور مجمعات کا منصوبہ بنا یا ہے اﷲ سے دعا ہے کہ وہ ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق عطافر مائے اور پوری انسانیت کے لئے بھلائی کا ذریعہ بنائے۔

٭ ادیان عالم وفرق مختلفہ پرآپ کی گہری نظر ہے ،اس حوالے سے آپ کیا خدمات ہیں ؟
ہمارے ہاں جامعہ میں ہر سال یہودیت ،عیسائیت اور یہودیت کے متعلق بعض لیکچرز ہمارے حوالے ہیں اس کے علاوہ ہماری ایک کتاب مکالمہ بین المذاہب کے نام سے چھپ کر منظرعام پر آچکی ہے، جس کی علمی طبقوں میں کافی پذیرائی ہوئی ہے اس کے علاوہ چند سال قبل عربی زبان میں اللامذہبیۃ(خیانات وافتراء ات) بعض حضرات کے اعترضات کے جواب میں اللا مذہبیۃ کے نام سے چھپی ہےـ۔
Azmat Ali Rahmani
About the Author: Azmat Ali Rahmani Read More Articles by Azmat Ali Rahmani: 9 Articles with 8662 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.