سانحہ جوزف کالونی لاہور اور شبہات

ایک چوبیس سالہ جوان ساون اور اسکے ساتھی کے خلاف توہین رسالت قانون کے تحت تھانی بادامی باغ میں مقدمہ درج ہوگیا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ عیسائیوں کی جانب سے اس قسم کی مذموم حرکات ہوتی رہتی ہیں۔ سیالکوٹ کے دو جوانوں کو عدالت نے جرم ثابت ہونے پر سزائے موت دی تو اس وقت کی حکومت نے انہیں بیرون ملک بھیج دیا۔ آسیہ نامی عورت پر توہین رسالت جرم ثابت ہونے پر جج نے سزائے موت سنائی تو آنجہانی سلمان تاثیر سابق گورنر پنجاب نے آسیہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے جیل میں اس سے ملاقات کی ۔ اسکی تشفی کرتے ہوئے توہین رسالت قانون 295-c کو کالاقانون کہنے کے علاوہ اور بھی یاوہ گوئی کی جس سے وہ خود بھی اسی جرم کا مرتکب ہوگیا۔ مگر قانون میں اتنی طاقت نہیں کہ گورنر یا صدر کے ساتھ پنجہ آزمائی کرے۔ کیونکہ یہ عام انسان نہیں بلکہ کوئی عجیب آسمانی مخلوق ہے۔ جب قانونی مساوات نہ ہوتو عوام قوت فیصلہ و نافذہ اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور یہی کچھ ہواآسیہ سے پہلے اسکا بڑھکیں مارنے والا حمائتی اپنے انجام بد کو پہنچا جہاں اسے اب آسیہ کا انتظار ہے۔ ساون کے بارے خاصا بڑا منصوبہ بنایا گیا۔ اسے منشیات کا عادی بھی بتایاجارہا ہے۔ جبکہ وہ ایسا نہیں۔

اسے نشئی قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے جو کچھ کہااس کا اعتبار نہیں کیونکہ کہ نشئی نشے میں کچھ بھی واہی تباہی بک سکتا ہے۔ حالیہ سانحہ کے کئی محرکات ہیں۔جن میں سرفہرست حکمرانوں کی غلط پالیسیاں اور اسلامی نظام عدم نفاذ ہے۔ آئین پاکستان میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ اس ملک کا نام اسلامیہ جمہوریہ پاکستان ہے۔ جہاں قرآن و سنت کے نظام کو بالادستی حاصل ہے۔ مگر کہنے کی حد تک۔ اسکے بعد صلیبی ممالک خاص کر امریکہ کی مداخلت اور مشنری اداروں کو غیر ضروری مداخلت کے مواقع دیئے گئے۔ اقلیتوں کو انکی مذہبی رسومات کی ادائیگی کا اسلام تحفظ دیتا ہے۔ لیکن ریاست کے اندر اقلیتیں اپنے مذہب اور عقائد کی تبلیغ نہیں کرسکتیں جبکہ دوسری اقلیتوں کے مقابلے میں عیسائی سر عام اپنے دین کی تبلیغ کرتے ہیں بلکہ اس حد تک کہ اس دفعہ عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس کے دوران کمیٹی چوک راولپنڈی میں ایک عیسائی اپنا مذہبی لٹریچر تقسیم کررہا تھا کہ کچھ لوگوں نے اس کا نوٹس لیا۔ ملک کے تمام شہروں میں کھلے بندوں عیسائی مبلغین یہ کام کرتے ہیں جبکہ اسلامی ریاست میں انہیں اسکی اجازت نہیں۔ توہین رسالت کے جتنے مقدمے درج ہوئے ملزمان عیسائی ہیں جبکہ اس ملک میں سکھ، ہندو، پارسی اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی رہتے ہیں۔ میرے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ان تمام امور کو مدنظر رکھا جائے۔ اہم عنصر ہمارے ملک میں سیاسی رقابتیںہیں۔ جنہیں پاکستان دشمن طاقتیں اپنے مذموم مقاصد میں معاون سمجھتی ہیں۔ ہمارے ہاں برسراقتدار آنے والے ان دشمن طاقتوں کے آلہ کار رہے ہیں۔ اور ہیں۔ امریکہ اور بھارت کو اس ملک میں جو موقع اب ملا ہے وہ کبھی پہلے نہ ملاتھا۔ اس وقت ملک کا کوئی بھی طبقہ دہشت گردی سے محفوظ نہیں ۔ سنی ، شیعہ، بریلوی دیوبندی، فوجی غیر فوجی، انجینئیر اور اعلی تعلیم یافتہ طبقہ سبھی کا قتل عام جاری ہے۔ خصوصا کراچی، کوئٹہ، پشاور اور اب لاہور کو بھی شامل کیا گیا۔

کوئٹہ کے سانحات پر گورنر راج کا نفاذ بھی مبنی بر خلوص نہ تھا۔ سندھ اور با لخصوص کراچی میں روزانہ درجنوں افراد قتل کیئے جاتے ہیں لیکن وفاقی حکومت نے کبھی اس کا نوٹس نہیں لیا۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ کراچی کو فوج کے حوالے کردیتے لیکن انسانی جانوں کی قربانی کا سلسلہ جاری ہے اور جناب چیف جسٹس آف پاکستان بھی اپنی تحقیقات کی روشنی میں یہ فرماچکے ہیں کہ کراچی میں طاقت کی رسہ کشی ہے فرقہ واریت نہیں۔

ہر کوئی جانتا ہے کہ سندھ حکومت ٹرائیکا تھی۔ ایم کیو ایم ، اے این پی اور پی پی۔ تینوں اقتدار کے مزے بھی لوٹتے رہے، ایک دوسرے کی مخالفت بھی کرتے رہے، نور اکشتیاں کس سے پوشیدہ ہیں۔ ایم کیو ایم اقتدار سے کتنی مرتبہ علیحدہ ہوئی اور کتنی مرتبہ رجوع کیا، ابھی ابھی انہوں نے پی پی کو طلاق ملغظہ دی ، جس میں گورنر عشرت بھی شامل تھے مگر انہوں نے کچھ مصلحتوں کے تحت پھر رجوع فرمالیا۔ قاتل اور ڈاکو کبھی قتل اور ڈاکہ سے نہیں گھبراتے۔ کیونکہ یہ کام انکے معمولات کے ناشتے، لنچ اور ڈنر ہوتے ہیں۔ اگر کراچی کے تمام مکیں ایک ہی روز میں قتل ہوجائیں تو حکومت کی صحت پر اس کا کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔ حکمرانی کے اوصاف سے یہ لوگ بے بہرہ ہیں۔ یہ نہیں جانتے کہ ان پر کتنی بڑی ذمہ داری ہے اور روز قیامت ان سے اس بارے بازپرس ہوگی۔ کیا جواب دیں گے؟ جہاں کوئی بہانہ اور کوئی عذر کام نہیں آئے گا۔ پنجاب کی صورت حال کچھ بہتر تھی جسے کچھ عرصہ سے خراب کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ جوزف آباد میں مکانوں کو کس نے آگ لگائی؟ لیکن ایک بات سامنے آئی کہ لوگوں سے پولیس نے کہا کہ گھر خالی کرکے چلے جائیں اگر یہ درست ہے تو مکانوں کے مکیں زیورات، نقدی، موٹر سائیکل اور رکشا کیوں چھوڑ گئے؟ تحقیقات میں ان امور کو سامنے رکھا جائے۔ جب وزیر اعلی نے نقصان کے ازالہ کے طور پر پانچ پانچ لاکھ کی رقم دینے اور مکانات کی فوری تعمیر کا کام بھی شروع کرادیا تو ملک بھر میں صلیب لہرا کر پر تشدد احتجاج کا کیا جواز ہے؟ صلیب بردار جلوسوں نے عوام کی کھڑی گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کا کیا جواز ہے؟ میٹرو بس سٹیشن پر حملہ اور بربادی کا بھی کوئی جواز ہے؟جلے مکانوں والوں کو تو امداد حکومت پنجاب کی جانب سے مل گئی لیکن میٹروبس کا نقصان کیا صلیب برداروں سے پورا کرایا جائے گا؟ کیا انکے خلاف دہشت گردی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت ہوگی۔؟

اس نازک مرحلہ پر سیاست چمکانے کے لیئے فسادات کی آگ بھڑکانے والے سیاستدانوں کے خلاف بھی آخر کوئی قانون تو حرکت میں آئے گا؟خیر اب معاملہ جناب چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس ہے اور میں نے جن امور کا ذکر کیا ہے مجھے قوی امید ہے کہ جناب چیف جسٹس صاحب ہم سے کہیں زیادہ اسکا ادراک رکھتے ہیں۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 128907 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More